کیا حکومت نواز شریف کی جائیدادیں فروخت کر سکے گی؟


پاکستان کے قومی احتساب بیورو (نیب) نے ملک کے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی جائیدادوں کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نیب نے اُن اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو خط لکھے ہیں جہاں نواز شریف کی جائیدادیں موجود ہیں۔

نیب کے جاری کیے گئے ایک مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کیس میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف سے آٹھ ملین (80 لاکھ) پاؤنڈ کی برآمدگی کے لیے کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ مذکورہ کیس میں نواز شریف کو دس سال قید اور آٹھ ملین پاؤنڈ جرمانہ کی سزا سنائی گئی تھی۔

کیس کے شریک ملزمان میں مریم نواز کو سات سال قید اور دو ملین (20 لاکھ) پاؤنڈ جرمانہ جبکہ محمد صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

مراسلے کے مطابق نواز شریف پر عائد جرمانے کی رقم کی موجودہ قدر ایک ارب پچاسی کروڑ روپے کے برابر ہے۔

نیب کے لاہور دفتر سے 21 ستمبر کو جاری ہونے والے مراسلے میں کہا گیا کہ نواز شریف کے نام موجود جائیدادوں میں موضع مانک میں 940 کنال زرعی اراضی، موضع بدھوکی ثاہنی میں 299 کنال اراضی، موضع مل میں 103 کنال اراضی اور موضع سلطان میں 312 کنال اراضی شامل ہیں۔

مراسلے کے مطابق نواز شریف کی جائیدادوں میں موضع منڈیالی شیخو پورہ میں چودہ کنال زرعی اراضی اور اپر مال لاہور میں قیمتی رہائشی بنگلہ نمبر 135 بھی برائے فروخت جائیدادوں میں شامل ہیں۔ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ڈپٹی کمشنرز کو نواز شریف کی قابلِ فروخت جائیدادوں کی تمام تفصیلات سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔

مراسلے کے مطابق فروخت شدہ جائیدادوں سے حاصل ہونے والی رقم ملک کی تعمیر اور ترقی میں استعمال کی جائے گی۔ مزید یہ کہ جرمانے کی مکمل رقم وصول نہ ہونے کی صورت میں ملزم کے مزید اثاثے تلاش کیے جائیں گے۔

مراسلے میں کہا گیا کہ سابق وزیرِ اعظم کو ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے بھی پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔ عدالت نے نواز شریف کی اپیل کو رواں سال جون میں رد کر دیا تھا۔ لہٰذا سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر نہ کرنے کی وجہ سے نواز شریف کی اِس سزا کو حتمی تصور کیا جاتا ہے۔

نیب مراسلے میں یہ بھی کہا گیا کہ بیورو کی حالیہ کامیابی نیب پر اٹھائے گئے سوالات کے برعکس اِس کی کارکردگی کا عملی ثبوت ہے۔ نیب لاہور نے مختلف سیاسی شخصیات کے خلاف کیسز میں بھی اپنا لوہا منوانا شروع کر دیا ہے۔ اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی سابق وزیرِاعظم سے جرمانے کی وصولی پر عمل درآمد کرایا جا رہا ہے۔

واضح رہے رواں سال جنوری میں نیب لاہور نے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی جائیداد قرقی کر کے رپورٹ احتساب عدالت میں جمع کرائی تھی۔ جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق نواز شریف کی مجموعی طور پر قرقی کی گئی زمین 1649 کنال سے زائد ہے۔

عدالت میں جمع کرائی گئی نیب رپورٹ کے مطابق سابق وزیرِاعظم نواز شریف زرعی زمینوں، گاڑیوں، ٹریکٹروں اور مختلف صنعتوں کے مالک ہیں۔

نیب رپورٹ کے مطابق سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کی جانب سے حاصل کردہ تفصیلات کی روشنی میں نواز شریف محمد بخش ٹیکسٹائل ملز میں 5.82 فی صد اور اتحاد ٹیکسٹائل ملز میں 0.96 فی صد شیئر کے مالک ہیں۔ اسی طرح وہ حدیبیہ انجینئرنگ کمپنی میں 10.86 فی صد اور حدیبیہ پیپرز ملز میں 3.59 فی صد شیئرز کے مالک ہیں۔

رپورٹ کے مطابق نواز شریف کے نام پر ایک مرسیڈیز کار، ایک ٹویوٹا لینڈ کروزر جیپ اور دو ٹریکٹر شامل ہیں۔

اس سے قبل سال 2018 میں احتساب عدالت نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کی گاڑیاں اور جائیداد نیلام کرنے کا حکم دیا تھا۔ عدالتی فیصلے کے مطابق اسحاق ڈار کی قرق جائیداد نیلام کرنے کا اختیار صوبائی حکومت کے پاس ہے کہ وہ جائیدادیں نیلام کرے یا اپنے پاس رکھے۔

قانونی پیچیدگیاں

پاکستان میں کسی بھی شخص کی غیر موجودگی میں اُس کی جائیداد فروخت کرنے میں بہت سی قانونی پیچیدگیاں حائل ہوتی ہیں۔ اس سے قبل گزشتہ سال افغان طالبان کے سابق سربراہ مُلا اختر منصور کی پاکستان میں ضبط شدہ جائیدادوں کی نیلامی شروع کی گئی تھی جو تاحال مکمل نہیں ہو سکی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان میں ماضی میں بھی ایسا کئی مرتبہ ہو چکا ہے کہ سیاسی شخصیات کی جائیدادوں کو فروخت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن وہ کچھ عرصے بعد اصل مالکان کو واپس مل جاتیں ہیں۔

قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ جائیداد فروختگی کے معاملے میں پاکستان میں قوانین کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کیا جاتا ہے۔

‘نیب نواز شریف کی جائیدادیں فروخت کرنے کی پوزیشن میں نہیں’

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ اُن کی معلومات کے مطابق نیب قانونی طور پر اِس پوزیشن میں نہیں کہ وہ نواز شریف کی جائیدادوں کو فروخت کر سکے۔ اُن کے مطابق ایسی ایک کوشش پہلے بھی کی گئی تھی جس میں رواں سال نواز شریف کی شیخوپورہ والی جائیداد کو فروخت کیا گیا تھا۔ لیکن کچھ عرصے بعد وہ واپس ہو گئی تھی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سلیم بخاری نے کہا کہ نیب جو اب کر رہا ہے۔ ماضی میں ایسا نہیں ہوتا تھا کیوں کہ ماضی میں نیب عدالتیں ہی نہیں ہوتیں تھیں۔ عام عدالتیں کسی بھی شخص کی جائیدادوں کے بارے کیس کا فیصلہ کرتی تھیں۔ اُن کے مطابق موجودہ صورتِ حال میں نیب کی قانونی پوزیشن کمزور نظر آتی ہے۔

سلیم بخاری نے کہا کہ نیب کے بارے میں جس طرح سے عدالتِ عظمٰی اور عدالتِ عالیہ نے ریمارکس دیے ہیں اُس کے بعد ایسی تمام کارروائیوں پر سوال اٹھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ انصاف ہے نہ ہی احتساب، ایک عجیب سی صورتِ حال ہے۔ اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ موجودہ صورتِ حال میں پاکستان مسلم لیگ ن کا کوئی بھی شخص کوئی بیان دیتا ہے تو اگلے روز اُس کی گرفتاری کے احکامات آ جاتے ہیں۔

سابق وزیرِ قانون اور سینئر وکیل ڈاکٹر خالد احمد رانجھا سمجھتے ہیں کہ اس سلسلے میں اگر عدالت نے کوئی ایسا فیصلہ صادر کیا ہوا ہے کہ نواز شریف کی جائیداد ضبط کر کے فروخت کی جاسکتی ہے تو ایسا کیا جا سکتا ہے بصورتِ دیگر ایسا کرنا مشکل ہو گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد رانجھا نے بتایا کہ نیب کی دو شاخیں ہیں۔ ایک نیب عدالتیں اور دوسرا انتظامیہ (ایگزیکٹو) ہے۔ اُن کے مطابق نیب عدالتوں کا اختیار ہے کہ وہ نواز شریف کی جائیدادوں کو فروخت کرنے کا حکم جاری کر سکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر نیب عدالتوں کے فیصلے کے خلاف عدالتِ عالیہ نے کوئی حکمِ امتناع جاری کر رکھا ہے تو الگ بات ہے۔ ان کے بقول، ماضی میں کسی بھی سیاسی شخصیت کی جائیداد نیلام نہیں ہو سکی ہے۔

‘سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے’

دوسری جانب سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ پہلے بھی ایسا ہوا ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے زمانے میں ایسا ہوا تھا جس میں نواز شریف کی ماڈل ٹاؤن کی رہائش گاہ کو یتیموں اور بے سہارا لوگوں کا گھر بنا دیا گیا تھا۔ لیکن بعد میں سب کچھ واپس ہو گیا تھا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ نے کہا کہ اِس طرح کے معاملات ہوتے رہتے ہیں جس پر عمل نہں ہوتا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دوسرا فریق جب طاقت میں آئے گا تو وہ سارے فیصلے واپس کرا دے گا۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ایک طرف عدالت کے فیصلے ہیں۔ اگر عدالتی فیصلے ایسے ہوئے ہیں تو ادارے اپنا کام کریں گے۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اِس معاملے میں ادارے پھرتی دکھا رہے ہیں۔ اُنہیں پھرتی نہیں دکھانی چاہیے جو طریقہ کار ہے اُسے چلنے دینا چاہیے۔

اُن کے خیال میں موجودہ سیاسی صورتِ حال میں سیاسی انتقام (وکٹمائزیشن) کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کے بقول کئی برسوں سے یہ صورتِ حال چل رہی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایسے میں مسلم لیگ ن یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ اُن کے خلاف سیاسی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔

ادھر ڈاکٹر خالد رانجھا سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کی جائیدادوں کی نیلامی سے متعلق فیصلے پر قانون سے زیادہ سیاسی خواہش معلوم ہوتی ہے۔ ان کے بقول اگر سیاسی خواہش ہو کہ فلاں شخص کی جائیداد کو فروخت کر دیا جائے تو قانون سے ویسی اختراع نکال لی جاتی ہے اور اگر سیاسی خواہش نہ ہو تو مرضی کی قانونی استراع نکال لی جاتی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستان میں قوانین سیاسی خواہشات کے تابع ہوتے ہیں۔

سہیل وڑائچ کی رائے میں ‘نواز شریف کو اقتداد سے نکالا گیا ہے۔ اُن کے واپس اقتدار میں آنے پر پابندیاں ہیں اور دیگر بہت سے پریشر گروپ ہیں جو اِن کے خلاف متحرک ہیں۔’ اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایسی کارروائیوں سے نواز شریف پر دباؤ بڑھے گا لیکن جب بھی وہ واپس آنا چاہیں گے واپس آ جائیں گے۔ اُن کے خیال میں اُس وقت تک حالات بدل جائیں گے۔

اسی طرح سلیم بخاری سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کی جائیدادوں کو تقسیم کرنے سے حکومت اُن کی ساکھ کو خراب کرنا چاہتی ہے۔ جس پر موجودہ حکومت گزشتہ تین سال سے کام کر رہی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ عدالتوں میں شریف خاندان کے خلاف بہت سے کیس چل رہے ہیں، لیکن اُن کے ابھی تک کوئی فیصلے نہیں ہوئے ہیں۔

اُن کے بقول نیب تین برسوں میں شریف خاندان سے کوئی وصولی نہیں کر پایا جبکہ کیسز میں بھی کوئی جان نہیں ہے۔ ان کے بقول، شریف خاندان کے کیسز میں عدالتیں بار بار کہہ چکی ہیں کہ یہ کمزور کیس ہیں جن میں وہ کیسے سزا دے دیں۔

سہیل وڑائچ کے مطابق ماضی میں ایسا کئی مرتبہ دیکھا گیا ہے کہ جس کسی کی بھی سیاسی طرح سے جائیدادیں ضبط یا فروخت ہوئیں ہیں، وہ واپس دینی پڑی ہیں۔ اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی کے قائدین اور ضیاء دور میں سیاسی شخصیات کی جائیدادیں فروخت ہوتی رہیں لیکن بعد میں سب کچھ واپس ہو گیا۔

ان کے خیال میں اِس حد تک جانا مناسب طریقہ نہیں ہے۔ پاکستان میں سیاسی طور پر انتقامی کارروائیاں زیادہ ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں لوگ قوانین سے کہیں آگے چلے جاتے ہیں۔ جن پر عمل نہیں ہو پاتا۔

‘فیصلوں کے پیچھے سیاسی خواہشات نظر آتی ہیں’

ڈاکٹر خالد رانجھا کے مطابق ایسے فیصلوں کے پیچھے سیاسی خواہشات نظر آتی ہیں۔ ماضی میں اَسی کی دہائی میں سابق گورنر پنجاب غلام مصطفیٰ کھر کا گھر ضبط کر لیا گیا تھا لیکن پھر واپس کر دیا گیا۔ اُنہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی ایسے فیصلوں پر عمل درآمد کم ہی نظر آیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘جائیدادوں کو قرق یا ضبط کرنا اور اُنہیں فروخت کرنا یہ نیب کا ایک خاص قانون ہے۔ ایسے قوانین دوسرے ملکوں میں نہیں ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستان میں پلی بارگین کے قوانین یا قواعد امریکہ سے مختلف ہیں۔ پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ پیسہ دے کر باہر آ سکتے ہیں۔’

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری سمجھتے ہیں کہ حکومت جس طرح سے نیب، ایف آئی اے، اینٹی کرپشن اور دیگر اداروں کو استعمال کر رہی ہے۔ اُس سے کسی صورت بھی نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستان میں احتساب کا جھنڈا بلند ہو گیا ہے۔

انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ‘اِس وقت تمام کیسز پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے خلاف ہیں جبکہ حکمرانوں کی اپنی چھتری تلے 65 سے زائد نیب زدگان موجود ہیں۔ ان کے بقول، ایسے تمام افراد کے خلاف کیسز میں پیش رفت رُکی ہوئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نیب صرف ایک طرف دیکھتا ہے۔’

‘نواز شریف کی جائیدادوں کی نیلامی میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں’

سینئر صحافی اور تجزیہ کار صابر شاکر سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کی جائیدادوں کی نیلامی میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ نیب اپنا کام کر رہا ہے اور نیب کی یہ ذمہ داری بھی ہے۔

ان کے بقول جب کوئی مجرم مفرور ہو، اس کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے ہوں اور عدالتیں اس کو اشتہاری بھی قرار دے دیں تو یہ قانونی ضابطہ ہے۔ اس ضابطے کو پورا کرنے کے لیے نیب اپنا کام کر رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی جائیدادوں کا عمل حرفِ آخر نہیں ہے۔ اگر وہ واپس آتے ہیں اور عدالت کے سامنے خود کو پیش کرتے ہیں اور اسی دوران نیب کی کارروائی مکمل ہو جاتی ہے تو اس صورت میں یہ جائیدادیں ان کے ہاتھ سے نکل جائیں گی۔

صابر شاکر کے بقول اس دوران اگر نواز شریف یہ سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں انہیں کوئی مدد مل جائے تو ایسی صورت میں یہ عمل عدالتوں میں چیلنج ہو جائے گا۔ ان کے بقول قانون نافذ کرنے والے اداروں اور تفتیشی حکام نے اپنا کام کرنا ہوتا ہے جو ایک طے کردہ قواعد کے تحت کر رہے ہیں۔

صابر شاکر کہتے ہیں کہ اس سے قبل بھی نواز شریف کی جائیدادیں نیلام ہو چکی ہیں، جس کی رپورٹ عدالت میں بھی جمع کرائی جا چکی ہے۔ ان کے خیال میں یہ نواز شریف پر منحصر ہے کہ اگر وہ خود کو عدالتوں کے سامنے پیش کردیتے ہیں تو یہ عمل رک بھی سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی جائیدادوں کی نیلامی کا حکومت کو تو شاید کوئی فائدہ نہ ہو لیکن ریاست کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ یہ معاملہ احتساب عدالت کا ہے۔

صابر شاکر کے بقول، نواز شریف کی جائیدادوں کی نیلامی ایک لمبا مرحلہ ہے۔ اس مرحلے کے مکمل ہونے تک کون سی جماعت حکومت میں ہو گی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments