جرمنی کا انتخابی نظام


جرمنی میں پارلیمانی انتخابات 26 ستمبر کو ہونا ہیں۔ کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کے آرمین لاشیٹ، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے اولاف شولس اور گرین پارٹی کی طرف سے اینا لینا بئربوک، چانسلر شپ کے امیدوار ہیں۔ جرمن پارلیمانی انتخابات میں امیدوار سے زیادہ اس کی جماعت کو اہمیت دی جاتی ہے۔ جرمنی میں اگر کوئی کسی سیاسی جماعت کا رکن نہیں ہے تو اس کے پارلیمنٹ میں پہنچنے کے امکانات بھی بہت معدوم ہوتے ہیں۔ کوئی بھی آزاد امیدوار بہت زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے بعد ہی پارلیمان کا حصہ بن سکتا ہے۔

جرمنی کے بنیادی آئین میں درج ہے ”سیاسی جماعتیں ہی فیصلہ سازی میں شامل ہو سکتی ہیں“ ۔ سیاسی امور کے متعدد ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ جرمنی میں سیاسی جماعتیں فیصلہ سازی کے علاوہ یہ فیصلے بھی کرتی ہیں کہ کون سیاست کے میدان میں سرگرم رہ سکتا ہے۔ اس بات کا تعلق جرمنی کے انتخابی نظام سے ہے، جس میں ہر ووٹر کے دو ووٹ ہوتے ہیں۔ جرمنی میں اٹھارہ سال یا اس سے زیادہ عمر کا ہر شہری ووٹ دینے کا حق رکھتا ہے۔ اس طرح اہل ووٹرز کی موجودہ تعداد 61.8 ملین بنتی ہے۔

انتخابات میں حصہ لینے کی خواہش مند تمام جماعتوں کو الیکشن کمشنر کے سامنے پیش ہونا ہوتا ہے۔ آئین، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو تسلیم کرنے والی تمام جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جاتی ہے۔ نظریاتی طور پر بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی جماعتیں بھی پارلیمنٹ میں پہنچ سکتی ہیں۔ جمہوری طریقہ کار میں فیصلہ ہمیشہ اکثریت کی مرضی سے ہوتا ہے اور چھوٹی جماعتیں مختلف اتحادوں کا حصہ بن جاتی ہیں۔

جرمنی میں یہ قانون بھی موجود ہے کہ صرف وہی سیاسی جماعتیں اپنے نمائندے پارلیمان میں بھیج سکتی ہیں جنہیں انتخابات میں کم از کم پانچ فیصد ووٹ ملیں۔ اسی طرح ہر رائے دہندہ کا ایک ووٹ امیدوار کے لیے ہوتا ہے اور اپنے دوسرے ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے وہ کسی بھی پارٹی کی حمایت کر سکتا ہے۔ جرمنی میں بیلٹ پیپر کے بھی دو حصے ہوتے ہیں۔ پہلے ووٹ کے ذریعے امیدوار کو چنا جاتا ہے جبکہ دوسرے حصے پر سیاسی جماعتوں کے نام درج ہوتے ہیں، یہ حصہ زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ جس جماعت کو جتنے زیادہ ووٹ ملیں گے پارلیمان میں اس کی موجودگی اتنی ہی زیادہ ہو گی۔

اس طرح یہ جماعت اپنے زیادہ سے زیادہ امیدواروں کو پارلیمان میں پہنچا سکتی ہے۔ منتخب ہونے والے ارکان سربراہ حکومت یعنی وفاقی چانسلر کا انتخاب کرتے ہیں۔ گزشتہ ساٹھ برسوں کے دوران اس انتخابی نظام میں نہ ہونے کے برابر تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ جرمنی میں ووٹنگ مشین کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ کورونا وائرس کی وبا کے سبب امریکا کی طرح جرمنی میں بھی بذریعہ پوسٹ ووٹ ڈالنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

جرمنی میں 1957 سے بذریعہ ڈاک ووٹ دیے جا رہے ہیں۔ پوسٹل ووٹوں کے بیلٹ بکسوں کا بالکل ویسے ہی خیال رکھا جاتا ہے جیسے پولنگ بوتھ میں موجود بلٹ بکسوں کا ۔ جرمنی میں بذریعہ ڈاک ووٹ ارسال کرنے کے لیے پہلے متعلقہ ادارے میں درخواست جمع کرائی جاتی ہے۔ ووٹر رجسٹریشن لسٹ سے تصدیق کے بعد ووٹر کو رجسٹرڈ پتے پر ووٹ کی پرچی ارسال کی جاتی ہے۔ جب حکام کو ووٹ کی پرچی کے ساتھ بند لفافہ واپس موصول ہوتا ہے تو اسے ایک محفوظ مقام پر الیکشن کے روز تک ایک بیلٹ باکس کے اندر ڈال کر لاک کر دیا جاتا ہے۔

ان بیلٹ باکسز پر ہر وقت کڑی نظر رکھی جاتی ہے تاکہ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ کو بروقت روکا جا سکے۔ بعد ازاں الیکشن کے دن شام چھ بجے ووٹنگ کا مقررہ وقت ختم ہونے کے بعد انتخابی کمیٹی اور مبصرین کے سامنے ووٹون کی گنتی کی جاتی ہے۔ اس بار وفاقی انتخابات میں دو پاکستانی بھی حصہ لے رہے ہیں۔ گرین پارٹی کی طرف سے مصباح خان اور Team Todenhöfer کے پلیٹ فارم سے مقصود اکرام امیدوار ہیں۔ جرمنی کی سیاست میں پاکستانیوں کا متحرک ہونا خوش آئند بات ہے۔

دونوں امیدوار اپنی انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ رواں سال 2021 کو ”سپر الیکشن برس“ قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ اس سال چھ صوبائی انتخابات کے ساتھ ساتھ وفاقی انتخابات بھی منعقد ہو رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق الیکشن میں سخت مقابلے کی توقع ہے اس بار سی ڈی یو کے لیے انتخابات میں فتح آسان نہیں ہو گی، کیونکہ ایک طرف تو مہاجرین کے حوالے سے انجیلا میرکل کی پالیسیوں پر انہیں دائیں بازو کے حلقوں کی جانب سے تنقید اور دوسری طرف مہاجرین اور مسلم مخالف جماعت آلٹرنیٹو فار جرمنی کی مقبولیت میں بڑھتا ہوا اضافہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments