آسام میں مظاہرہ کرنے والے مسلمان شہری کی لاش پر کودنے کی ویڈیو وائرل: ’آج جو ہولناک مناظر ہم نے آسام میں دیکھے یہ اسی زہر کا نتیجہ ہیں۔ یہ نفرت کسی بھی نہیں بخشے گی‘


آسام
DILIP SHARMA/BBC
انڈیا کی مشرقی ریاست آسام میں 'غیر قانونی تجاوزات' ہٹانے کی حکومتی کارروائی کے نتیجے میں ہونے والے ہنگاموں میں کم از کم دو افراد کی ہلاکت کے بعد سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس پر لوگوں کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آ رہا ہے اور انتظامیہ نے بھی معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہِے۔

آسام کے ضلع درنگ میں ہونے والے اس تصادم سے متعلق اس مبینہ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہاتھ میں کیمرا لیے ایک شخص ہلاک ہونے والے شخص کی لاش پر کود رہا ہے۔

بعد میں سامنے آنے والی اطلاعات کے بعد معلوم ہوا کہ کودنے والا شخص ایک مقامی فوٹوگرافر ہے جس کی خدمات ضلعی انتظامیہ نے صورتحال کو ریکارڈ کرنے کے لیے حاصل کی تھیں۔ اس واقعے کے بعد اس شخص کو شناخت کر لیا گیا ہے اور حراست میں لے لیا گیا ہے۔

ریاستی حکومت نے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ حکومت آسام کے ہوم ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ اس واقعے کی گوہاٹی ہائی کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کی قیادت میں انکوائری کی جائے گی۔

البتہ وزیر اعلیٰ ہمنت بسوا سرما نے گوہاٹی میں کہا ہے کہ تجاوزات ہٹانے کی مہم کو نہیں روکا جائے گا۔

انتظامیہ نے کارروائی کیوں کی تھی؟

واضح رہے کہ پولیس نے ضلعی انتظامیہ کے افسران کے ساتھ جمعرات کو سرکاری اراضی سے تجاوزات ختم کرنے کے لیے ایک مہم شروع کی تھی۔

کارروائی کے بارے میں تفصیلات دیتے ہوئے ضلع درنگ کے پولیس سپرنٹنڈنٹ سوشانت بسوا سرما نے میڈیا کو بتایا کہ تجاوزات بنانے والوں نے احتجاج کرتے ہوئے پتھراؤ شروع کر دیا۔

انھوں نے کہا کہ نو پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں اور دو زخمی شہریوں کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ ان کے مطابق اس وقت صورتحال کنٹرول میں ہے۔

اس کارروائی میں مظاہرین میں سے دو افراد کی ہلاکت کے علاوہ متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں سے ایک پولیس اہلکار اسسٹنٹ سب انسپکٹر منیر الدین کو گوہاٹی میڈیکل کالج ہسپتال میں داخل کیا گیا ہے اور ان کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔

ہلاک ہونے والوں کی شناخت صدام حسین اور شیخ فرید کے نام سے ہوئی ہے۔

آسام

ANI

کانگریس کی حکومت پر تنقید

کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے اس معاملے پر ٹویٹ کرکے پولیس کی کارروائی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

انھوں نے لکھا ‘آسام میں حکومت کی نگرانی میں آگ لگی ہے۔ میں ریاست میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کھڑا ہوں۔ انڈیا کے کسی بچے کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔‘

اس کے ساتھ ہی آسام پردیش کانگریس کے صدر بھوپن بورا نے پولیس کی جانب سے تجاوزات قائم کرنے والوں پر فائرنگ کو وحشیانہ فعل قرار دیا ہے۔

https://twitter.com/RahulGandhi/status/1441017169920380930?s=20

کانگریس لیڈر نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کووِڈ کی وبا کے اس بحران کے دوران گوہاٹی ہائی کورٹ نے بے دخلی کی مہم کو معطل کرنے کی ہدایت دی تھی لیکن وزیر اعلیٰ ہمنت بسوا سرما کی من مانی کی وجہ سے دھول پور میں 1970 سے آباد لوگوں سے زمین خالی کرا دی گئی۔

انھوں نے کہا کہ لوگوں کے بے دخل کرنے سے پہلے حکومت کو ان لوگوں کو دوسری جگہ آباد کرنے کا انتظام کرنا چاہیے تھا۔

آسام

ANI

سوشل میڈیا پر رد عمل

اس ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد انڈین سوشل میڈیا پر شدید نوعیت کا رد عمل سامنے آیا ہے جس میں اکثریت لوگوں نے فوٹوگرافر کے عمل کی مذمت کی ہے۔

’تجزیہ کار انکر بھردواج تبصرہ کرتے ہیں کہ ’ایک فوٹو جرنلسٹ کا ایک مردہ شخص پر کودنا جسے ابھی سکیورٹی فورسز والوں نے قتل کیا ہو، یہ بالکل اسی بات کے برابر ہے جیسا ہم نیوز اینکرز کو گذشتہ کئی سالوں سے سٹوڈیو میں کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔

ایک موت کا رقص۔‘

شیو سینا سے تعلق رکھنے والی رکن راجیہ سبھا پریانکا چتورویدی نے ٹوئٹر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ’ابھی ابھی انتہائی ہولناک اور دردناک ویڈیو دیکھی آسام سے۔ ہم ایک خون کا پیاسا معاشرہ بن چکے ہیں۔ اس شہری کے ساتھ جو رویہ برتا ہے اس کیمرا مین نے، پولیس نے، یہ کوئی اور نہیں یہ ہم میں سے ہی ہیں۔ ہمیں بحیثیت ایک قوم وقفہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ سوچ بچار کر سکیں اور اس بات کا احساس کریں کہ ہمارا وطن سب کے ساتھ برابری کا وعدہ کرتا ہے۔‘

صحافی روہنی سنگھ نے بھی اسی طرز کا تبصرہ لکھا اور کہا کہ ’نوئڈا میں بیٹھے ہمارے خون کے پیاسے اینکرز نے اقلیتوں کے خلاف اس قدر نفرت بھر دی ہے کہ انھوں نے متاثرہ افراد کی انسانیت بھی چھین لی ہے اور ان کی جو نفرت پر مبنی جرائم کرتے ہیں۔ آج جو ہولناک مناظر ہم نے آسام میں دیکھے یہ اسی زہر کا نتیجہ ہیں۔ یہ نفرت کسی بھی نہیں بخشے گی۔

https://twitter.com/rohini_sgh/status/1441071077401128961

صارف جوئے داس نے بھی اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ’یہ صرف آسام میں نہیں ہے۔ یہ آپ کا پڑوسی ہے جسے آپ سلام کرتے ہیں۔ یہ آپ کا ساتھی ہے۔ یہ آپ کے سکول اور کالج کے واٹس ایپ گروپ میں ہے۔ یہ ایک انفرادی شخص نہیں ہے۔ یہ ہر جگہ پر موجود ہے۔ آپ اسے روزانہ دیکھتے ہیں۔ یہ ’نئے انڈیا‘ کا پراڈکٹ ہے۔‘

مزید پڑھیے

آسام: لاکھوں مسلمانوں کے بے وطن ہونے کا اندیشہ

انڈیا میں مسلمان این آرسی سے خوفزدہ کیوں ہیں؟

’شہریت کا قانون ان اقلیتوں کے لیے جن پر پاکستان میں مظالم ہوئے‘

انتظامی کارروائی کا پس منظر

اس واقعے کے بارے میں معلومات دیتے ہوئے ضلع درنگ میں موجود ‘کل آسام اقلیتی طلبہ یونین’ کے مشیر عین الدین احمد نے بی بی سی کو بتایا: ‘آج صبح پانچ ہزار سے زائد لوگ حکومت کی جانب سے نکالی جانے والی مہم کے خلاف احتجاج کے لیے جمع ہوئے تھے’۔

’ضلعی انتظامیہ کے اہلکار لوگوں کے گھروں کو مسمار کر رہے تھے۔ اس دوران دونوں فریقوں کے درمیان جھڑپ شروع ہو گئی اور پولیس نے فائرنگ کر دی۔ دو افراد ہلاک اور 20 سے زائد افراد زخمی ہو گئے’۔

درحقیقت 20 ستمبر کو آسام حکومت کے حکم کے بعد ضلع درنگ کے سپاجھر علاقے میں انتظامیہ نے ایک مہم میں کم و بیش 800 خاندانوں کو ساڑھے چار ہزار بیگھا اراضی کے قبضے سے بے دخل کر لیا۔

جب تقریباً دو سو خاندانوں کے خلاف جمعرات کی صبح دوبارہ بے دخلی کا آپریشن چلایا جا رہا تھا اور تب ہی فائرنگ کا یہ واقعہ پیش آیا۔

سینکڑوں لوگ جن کے خلاف آسام کی حکومت نے ‘غیر قانونی تجاوزات’ کے نام پر بے دخلی کی مہم شروع کی ہے ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ سب مسلمان ہیں۔ ایک معلومات کے مطابق سرکاری زمین خالی کرنے کے بعد سینکڑوں لوگوں نے دریا کے کنارے پناہ لی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments