طالبان کی جبری میزبانی: گل بی بی 60 طالبان کے لیے کھانے کا انتظام کرنے پر مجبور


گل بی بی
اب پھر گل بی بی کی باری آنے کو ہے، وہ ساٹھ طالبان کے لیے کھانا تیار کریں گی اور یہ سب کرنے سے انکار کی گنجائش اُن کے پاس نہیں ہے۔

اس کھانے کو تیار کرنے پر اٹھنے والا خرچ انھیں خود ہی برداشت کرنا ہے، اور وہ یہ خرچ کس طرح اٹھائیں گی، یہ ان کے علاوہ بلخ کے اس نواحی ضلع کے 30 گھرانوں نے خود ہی طے کرنا ہے۔

گل بی بی سمیت ان 30 گھرانوں کی خواتین کو اتنا ڈھیر سارا کھانا تیار کرنے کی کوئی اجرت نہیں ملتی۔

وہ کہتی ہیں گذشتہ ماہ معمول کا ایک دن تھا کہ جب اُن کے شوہر نے بتایا کہ آج رات طالبان بلخ پر قبضہ کر لیں گے۔ وہ شام کا وقت تھا۔ طالبان اطراف کے اضلاع سے ہوتے ہوئے شام آٹھ بجے مزار شریف تک پہنچ چکے تھے۔

رات گل بی بی کے دروازے پر بھی انھوں نے دستک دی۔ گُل بی بی کے مطابق اس رات اتنا خوف تھا کہ وہ سب گھر والے رات بھر سو ہی نہیں پائے تھے۔

گل بی بی کہتی ہیں کہ ’ایک ہفتے تک ہم گھر سے نہیں نکلے، نہ عورتیں اور نہ ہی مرد۔ خوف تھا کہ باہر نکلے تو نجانے کیا ہو جائے گا۔ پھر آہستہ آہستہ مردوں نے باہر نکل کر مسجد تک جانا شروع کیا۔‘

اور انھیں دنوں مسجد کے امام کی جانب سے طالبان کو فراہم کرنے کے معاملے پر بات چیت شروع ہوئی۔

وہاں مسجدوں میں لوگ بطورِ مسافر بھی رکتے ہیں اور ایسے مسافروں کو کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ اب طالبان ہر جگہ موجود ہیں اور وہ مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے بھی آتے ہیں۔ گُل بی بی کے مطابق مسجد کے امام نے یہاں علاقے کے مردوں سے کہا کہ طالبان کو کھانا فراہم کیا جائے اور ہر گھر اس کے لیے اپنی باری لگا لے۔

کھانا، طالبان

’مسجد کے امام نے مردوں سے کہا کہ ہمیں طالبان کو کھانا دینا ہو گا اور سب گھرانوں کو اس حکم کو تسلیم کرنا ہو گا۔ ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہ تھا۔ اب تین ہفتے ہو چکے ہیں اور ہم علاقہ مکین دن میں دو بار طالبان کو کھانا مہیا کرتے ہیں۔ ہر بار ان کے لیے کھانا مسجد میں جاتا ہے، جہاں بیٹھ کر وہ اسے کھاتے ہیں۔‘

گُل بی بی کہتی ہیں کہ ’ہمیں نہیں معلوم کہ وہ یہاں کام کیا کر رہے ہیں، لیکن آپ کو معلوم ہے ناں یہاں اب اُن کی ہی حکومت ہے وہ ہر جگہ ہیں حتیٰ کہ سکول کا چوکیدار بھی اب ایک طالب ہی ہے۔‘

آپ نے گھر میں وہ دن کیسے گزارے جب باہر طالبان قابض ہو چکے تھے؟

اس سوال کے جواب میں گل بی بی نے بتایا کہ ’ہم ایک ہفتے تک گھر میں بند تھے، باہر جا کر کچھ خرید نہیں سکتے تھے۔ گھر میں گیس ختم ہوئی تو ہم نے کھانا بنانے کے لیے لکڑیوں کے بجائے گھر میں دستیاب چیزوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا، ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ طالبان قابض ہو جائیں گے، اگر یہ اندازہ ہوتا تو ہم اپنے لیے خوراک اور سامان لا کر ذخیرہ کر لیتے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ اب میرے شوہر خود ہی گھر کا سامان لاتے ہیں۔

گل بی بی کے مطابق زندگی اب بدل گئی ہے۔

وہ کہتی ہیں ’میں پہلے صبح ساڑھے چھ بجے اٹھتی تھی اور اپنی بچیوں کو سکول بھیجتی تھی۔ لیکن جس روز طالبان کا قبصہ ہوا اس صبح میرے بچوں کو سکول سے واپس بھیج دیا گیا۔ اس دن سکول میں امتحان تھا، اساتذہ نے جلدی جلدی امتحان لیا اور کہا سب چھٹی کریں۔‘

گل بی بی کہتی ہیں ’اُس روز کے بعد زندگی کا معمول ہی بدل گیا، اب میری بیٹیاں بھی سکول نہیں جا سکتیں۔‘

’میری بیٹاں سکول گئیں تو سکول والوں نے کہا کہ ہم آپ کی سکیورٹی کی ذمہ داری نہیں لے سکتے اگر طالبان آئے اور وہ آپ کو لے گئے تو ہم انھیں روک نہیں پائیں گے، اس لیے بہتر ہے کہ آپ سکول نہ آئیں۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ جب طالبان کا پہلا دور حکومت تھا تو ان کی عمر سولہ، سترہ برس کے لگ بھگ تھی، تب اُن کے والدین نے جلدی جلدی اُن کی شادی کر دی تھی، طالبان کے خوف سے نہ شادی پر کوئی موسیقی بجی نہ دھوم دھڑکا ہوا۔

گل بی بی

وہ بتاتی ہیں ’مجھے یاد ہے اس وقت ہمارا برقعہ ہر وقت ہمارے پاس ہوتا تھا، دروازے پر دستک پر بھی ہم اسے اوڑھتے تھے، محرم کے بغیر گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔‘

’میری بچی کی پیدائش ہوئی تو نہ کوئی گاڑی تھی نہ ہسپتال، مجھے ایک دائی کے گھر بھی چھپا کر لے جایا گیا اور اسی طرح چھپ چھپا کر ہم واپس آئے۔ پھر جب طالبان کا دور ختم ہوا تو ہم نے زندگی میں تبدیلی دیکھی۔‘

’اب ہمارے پاس بجلی تھی، بچیاں سکول جانے لگیں، وہ محرم کے بغیر گھر سے نکل سکتی تھیں۔ نہ کوئی مشکلات تھیں اور نہ ہی پریشانی،نہ میرے لیے نہ بچیوں کے لیے۔‘

گل بی بی کہتی ہیں کہ اب ان کے علاقے میں کوئی بھی سکول نہیں جا رہا۔ ’ابتدا میں کچھ بچیاں چادری (برقعہ) لے کر سکول گئی تھیں لیکن اب وہ بھی نہیں جا رہیں۔‘

وہ اپنی بیٹیوں کے مستقبل کے لیے بہت خوفزدہ ہیں اور کہتی ہیں کہ ’میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ طالبان ایک بار پھر آ جائیں گے اور میری بیٹیوں کی زندگی بھی میری جیسی ہو گی، اُن کی پڑھائی بھی چھوٹ جائے گی۔‘

وہاں موجود گل بی بی کی دو بیٹیوں نے بھی گفتگو میں حصہ لینے کی خواہش کا اظہار کیا۔

بڑی اٹھارہ سالہ بیٹی نے کہا کہ ’طالبان سے پہلے زندگی بہت اچھی تھی، ہم آرام سے سکول جا پاتے تھے، اب ہم گھر میں محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔‘

گل بی بی

وہ بتانے لگیں کہ ’میں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دن یہاں طالبان آ جائیں گے۔ میرا خواب تھا کہ سکول کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد یونیورسٹی جاؤں گی، ڈاکٹر بنوں گی، ملک سے باہر جاؤں گی، لیکن اب طالبان آ گئے ہیں اور میرے خواب چکنا چور ہو گئے ہیں۔‘

’میں یونیورسٹی نہیں جا سکتی اور سفر نہیں کر سکتی۔ پہلے کی طرح میں اپنی دوستوں کے ساتھ باہر نہیں نکل سکتی۔ ہم تو اب موسیقی بھی نہیں سُن سکتے ہیں۔ گھر کے اندر رہ کر بھی نہیں سُن سکتے کہ کہیں وہ ہمارے دروازے پر دستک دے کر ہمیں سزا نہ دیں۔‘

گل بی بی کی بیٹی نے بتایا کہ یہاں طالبان عورتوں کے بارے میں بھی مختلف باتیں کہہ رہے ہیں کہ وہ عورتوں کو ماریں گے۔

گل بی بی کی تیرہ سالہ بیٹی نے کہا کہ ’امی نے اب ہمیں چادری (برقعہ) کرنے کو کہا ہے۔ ہمیں باہر جانے سے ڈر لگتا ہے اب میں معمول کی طرح دکان پر جا کر امی کے لیے سودا سلف نہیں لا سکتی۔ طالبان کی چابک کے خوف سے ہم باہر نہیں نکلتے، وہ جینز پہننے والوں کو مارتے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

افغانستان کی اخلاقی پولیس: جو ’نیکیوں کا حکم دے کر برائی سے روکے‘ گی

’وہ کہتے ہیں ہمیں افغان خواتین کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔ لیکن میں ڈرتی ہوں‘

’کہا تھا نا شادی کر لو، اب طالبان ہاتھ مانگیں گے تو ہم کیا کریں گے‘

گل بی بی بتاتی ہیں کہ ایک روز وہ اپنی بیٹیوں اور شوہر کے ہمراہ گھر سے باہر شہر میں گئی تھیں۔

’پہلے تو علاقے میں پولیس اہلکار یونیفارم میں کھڑے ہوتے تھے، اب آپ کو نہیں معلوم ہوتا کہ کون طالب ہے اور کون بظاہر طالب کے حلیے میں کھڑا ہے۔‘

گل بی بی

وہ کہتی ہیں ’وہ (طالبان) اپنے حلیوں اور وضع قطع سے خوفناک دِکھائی دیتے ہیں۔ میں نے اور میری بیٹیوں نے برقع اوڑھ رکھا تھا لیکن ہم سے اگلی گاڑی میں موجود عورتوں نے اپنے چہروں کو نہیں چھپایا ہوا تھا، طالبان نے ان کی گاڑی روکی اور ڈرائیور کو گاڑی سے اُتار کر ان خواتین کے لیے وارننگ دی۔‘

’سارا راستہ اور شہر کے اندر بھی ہم نے انھیں ان ہدایت کو نافذ کرتے دیکھا۔ وہ مسجدوں میں عورتوں کے لیے یہ اعلان کر چکے ہیں کہ اگر تم نے چہرے نہ ڈھانپا تو تمہیں سزا دی جائے گی۔‘

نوٹ: اس تحریر میں خاتون کا نام اور ان کی رہائش کا علاقہ ان کی حفاظت کے پیش نظر ظاہر نہیں کیا جا رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments