پاکستان کا طرز حکومت


اس میں کوئی دو آرا نہیں پاکستان میں لولی لنگڑی جمہوریت چل رہی ہے۔ لیکن یہ بھی باعث غنیمت ہی سمجھیں جس ملک میں تیس سال سے زائد فوجی حکومت رہی ہو۔ اس ملک میں ایسی جمہوریت ہی مل سکتی ہے۔ جمہوریت کی خاص تعریف پبلک کی حکومت پبلک کے ووٹوں سے منتخب اور پبلک کے لئے۔ لیکن پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ اس میں ہمارے جمہوری نظام سے زیادہ ہماری پبلک کا بھی قصور ہے۔ کیونکہ پبلک کو اپنے بنیادی حقوق کا علم نہیں ہے۔ جب بھی پاکستان میں انتخابات ہوتے ہیں ہر حلقے میں بہت سے امیدوار سامنے آتے ہیں۔

لیکن ہماری نظر صرف پی ایم ایل این پی پی پی اور پی ٹی آئی پر پڑتی ہے۔ اگر غور سے دیکھیں تو اسی حلقے میں ایک سے زیادہ امیدوار ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے بڑی مشکل سے الیکشن لڑنے کی شرائط پوری کی ہوں گی ۔ جس میں سب سے بڑی شرط وہ فیس ہے۔ جو کسی بھی امیدوار کو الیکشن لڑنے کے لیے بطور ضمانت جمع کرانی ہوتی ہے اور اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطلوبہ شرائط کے مطابق اگر کوئی امیدوار اتنے ووٹ حاصل نہیں کرتا اس کی ضمانت ضبط ہو جاتی ہے اور جن امیدواروں کی میں بات کر رہا ہوں ان کو گھر سے نکلتے ہوئے پتہ ہوتا ہے ان کی ضمانت ضبط ہو جائے گی۔

کیوں کہ جس پبلک کی وہ ترجمانی کرنے جا رہے ہیں اس پبلک کو ایسا پیدل سائیکل رکشا یا موٹر سائیکل والا نمائندہ نہیں چاہیے۔ ان کو وہ نمائندہ چاہیے جس کے پاس ایک سے زیادہ لینڈ کروزر ہو۔ باڈی گارڈ ہوں۔ گردن میں موٹا سریا ہو۔ اشتہاروں پر پے داغ ماضی اور اعلیٰ کردار لکھا ہو۔ جو الیکشن لڑنے پر کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کر سکتا ہو۔ پاکستان کی تینوں بڑی جماعتوں کا ٹکٹ اس کی جیب میں ہو۔ جو پبلک کو بھیڑ بکری سے زیادہ اہمیت نہ دیتا ہو۔

پاکستان کے طرز حکومت میں سب سے بڑا کردار ہماری پبلک کا ہے۔ ووٹ کی اصل طاقت پبلک کے پاس ہوتی ہے۔ مگر ہماری پبلک گلیوں نالیوں سرکاری ملازمین کے تبادلوں اور تھانے کچہری کی خاطر ووٹ ڈالتے ہیں۔ جب تک ہم ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دیں گے۔ تو پاکستان میں حقیقی تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔ دنیا بھر میں جن قوموں نے ترقی کی انہوں نے ذاتی مفاد کو پس پشت ڈالا اور قومی مفاد کو سامنے رکھ کر بڑے فیصلے کیے۔

ارکان اسمبلی کا کام قانون سازی کرنا ہوتا ہے۔ ان کا کام اداروں میں مداخلت کرنا نہیں ہوتا۔ لیکن ہمارے ملک میں کوئی بھی شخص اپنی ذمہ داری احسن انداز میں پوری نہیں کر رہا۔ باقی سارے کام کر رہے ہیں۔ لیکن جس کام کے لیے ان کو ذمہ داری دی گئی وہ کام نہیں ہو پا رہا۔ ارکان اسمبلی کا کام گلیاں نالیاں جھوٹے پرچے یا ناجائز تبادلے کروانا نہیں ہوتا۔ ان کا کام بہت بڑا ہوتا ہے انہوں نے مل بیٹھ کر ملک کے لیے قانون سازی کرنا ہوتی ہے۔

لیکن جو ارکان اسمبلی کروڑوں روپے خرچ کر کے اسمبلی تک پہنچتا ہے تو وہ اپنی سرمایہ کاری کو ڈبل کیسے کرے گا۔ اس کے پاس صرف ترقیاتی کاموں کا راستہ رہ جاتا ہے۔ جہاں سے وہ مال بناتا ہے۔ اس لیے اگر آپ غور کریں تو کسی بھی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات خوشی سے نہیں کرائے موجودہ حکومت کو ہی دیکھ لیجیے۔ معزز عدالت کب سے کہہ رہی ہے بلدیاتی انتخابات کروائیں لیکن مختلف حیلے بہانوں سے اس کو التوا کیا جا رہا ہے۔

گلی محلوں کے کام گلی محلوں کے نمائندوں کے حوالے کیے جائیں تو ہی بہتر ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان میں اگر بلدیاتی انتخابات کروا بھی دیے جائیں تو ان کو اختیارات نہیں دیے جاتے۔ پھر بھی اسی حلقے کا ایم این اے ایم پی اے اپنی ٹانگ درمیان میں ہی رکھتا ہے۔ پاکستان کے انتخابی عمل میں کافی تبدیلیوں کی ضرورت ہے لیکن تبدیلیاں کرنے والے اپنے مفادات سے ٹکراؤ پسند نہیں کرتے۔ وہ اپنے مفاد کی قانون سازی تو منٹوں میں کرتے ہیں لیکن جہاں پر عوامی مفاد کا مسئلہ ہو وہاں پر کورم پورا نہیں ہوتا۔

آپ نے کبھی قومی اسمبلی کا کوئی اجلاس مہنگائی پر نہیں دیکھا ہو گا کیونکہ یہ پبلک کا مسئلہ ہے اور پبلک کی ترجمانی بدقسمتی سے خواص کے ذمہ لگا دی گئی ہے۔ جن کو یہ بھی نہیں پتا انڈے کلو کے حساب سے نہیں ملتے اور ٹماٹر درجن کے حساب سے نہیں ملتے۔ پاکستان کے اندر غریب لوگ زیادہ بستے ہیں لیکن اسمبلی میں ان کی ترجمانی نہیں ہے۔ اگر تو ایسی قانون سازی کی جائے پاکستان کی قومی اسمبلی صوبائی اسمبلی اور سینٹ کا انتخاب صرف وہ لڑ سکے گا جس کا کوئی بینک بیلنس نہ ہو اور نہ ہی کوئی ذاتی اثاثہ ہو۔

تو پھر دیکھئے گا پاکستان کے مسائل کس طرح حل ہوں گے ۔ کیونکہ ایوان میں خالص عوامی نمائندگی ہوگی لیکن ایسا ہونے والا نہیں ہے۔ پاکستان میں جنرل ریٹائرڈ مشرف نے الیکشن لڑنے کے لیے بی اے کی ڈگری کی شرط رکھی تھی تو اس کے نتائج آپ کے سامنے موجود ہیں۔ بلوچستان کے سابق وزیر اعلی نواب اسلم رئیسانی نے کہا ڈگری ڈگری ہوتی ہے جعلی ہو یا اصلی ہو۔ اور جس معاشرے میں خواص کے پیپر مزدور کا بیٹا دے رہا ہو۔ وہاں پر تعلیم کا کیا معیار ہو گا اور ڈگری کی کیا اہمیت ہوگی۔

پاکستان میں ایسے لوگ تھیسز لکھ رہے ہیں جو اس کے مفہوم سے بھی واقف نہیں۔ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے ڈگریاں آلو پیاز کی طرح بکتی ہیں۔ کسی بھی ڈگری کا حصول مشکل نہیں ہے۔ پاکستان کے طرز حکومت میں پروٹوکول اور وی آئی پی کلچر مکمل طور پر ختم کرنا ہو گا۔ لیکن ایسا صرف سوچا جا سکتا ہے۔ اس پر عمل کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ ہمارے ملک میں ایک معمولی کونسلر اپنے آپ کو نہ جانے کیا سمجھ لیتا ہے۔ پاکستان کے طرز حکومت میں کرپشن کو خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ کرپشن کے بغیر مال بنایا نہیں جا سکتا۔

اس لئے لوگ بڑی پارٹیوں کا چناؤ کرتے ہیں پہلے ان پر سرمایہ کاری کرتے ہیں پھر ٹکٹ حاصل کرتے ہیں۔ اور منتخب ہو کر بہتی گنگا میں جی بھر کر اپنے خسارے پورے کرتے ہیں۔ پاکستان کے طرز حکومت میں مالیاتی اداروں کا منفی کردار بہت اہم ہے۔ مالیاتی ادارے جن کو عرف عام میں بینک کہا جاتا ہے۔ وہ کسی غریب آدمی کو پچاس ہزار روپے قرض دینے کے لئے ایسی ایسی شرائط رکھتے ہیں جو پوری کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ لیکن خواص کے لیے 50 کروڑ دینا ان کے لیے اعزاز سے کم نہیں ہوتا۔

پاکستان کے طرز حکومت میں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے اپنے من پسند لوگوں کو دیے جاتے ہیں اور یہی منصوبے بعد میں سکینڈل کی زد میں آ جاتے ہیں اور اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں ہوتا کچھ بھی نہیں۔ پاکستان میں جو جتنا بڑا ڈاکو ہے وہ اتنا بڑا صاحب عزت ہے۔ اس کو ادارے بھی عزت دیں گے اور پبلک بھی واہ واہ کریں گے۔ بڑے ڈاکو کو ہتھکڑی نہیں لگائی جا سکتی اس کے لیے خاص گاڑی کا اہتمام کیا جاتا ہے اور جیل میں بھی بی کلاس دی جاتی ہے۔

تمام بنیادی سہولیات جیل میں موجود ہوتی ہیں۔ اس کو یہ تمام سہولیات اس لئے فراہم کی جاتی ہیں کیونکہ اس نے غریب پبلک کے کروڑوں روپے ہڑپ کیے ہوتے ہیں۔ پاکستان کے طرز حکومت میں سب کچھ موجود ہے اگر کوئی کمی ہے تو عوامی مفادات کے نفاذ کی۔ جب تک پبلک کو جمہوریت کا صحیح مطلب سمجھ نہیں آئے گا اور اپنے حقوق کو حاصل کرنے یا پھر چھین لینے کاجذبہ پیدا نہیں ہو گا۔ اس وقت تک یہی فرسودہ جمہوری نظام اور طرز حکومت پبلک برداشت کرتے رہیں گے۔

اپنے اپنے حلقوں میں انہیں نام نہاد نمائندوں کو پروٹوکول دیتے رہیں گے۔ ان پر پھولوں کی پتیاں پھینکتے رہیں گے۔ ان کی تعریفیں کرتے رہیں گے۔ ان کا دفاع کرتے رہیں گے۔ دعوتیں کرتے رہیں گے۔ ان کے ساتھ سیلفی بنا کر اس کا تعویذ بنا کر گلے میں لٹکا کر اعزاز سمجھیں گے۔ پاکستان کا طرز حکومت کیسے بدلے گا۔ ذرا سوچئے۔ پاکستان کا طرز حکومت غریب پبلک کے لیے کیسے بدلے گا جب تک ہم خود نہیں بدلتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments