نوشہرہ کے ایک گاؤں میں مبینہ طور پر جائیداد کے تنازع کے باعث قید خاتون کو پولیس نے بازیاب کرا لیا ہے


مانسہرہ
’معلوم نہیں کتنا عرصہ گزر گیا ہے اس اندھیرے کمرے میں، دو سال یا شاید تین سال۔ بس میرے پیروں میں یہ زنجیریں ڈالی گئی ہیں جس سے میں کھڑی نہیں ہو سکتی اور اب بیٹھے بیٹھے میرے گھٹنے اسی جگہ اکڑ گئے ہیں کیونکہ میں اتنا عرصہ بیٹھی ہی رہی ہوں۔‘

یہ روداد ہے ایک ایسی خاتون کی جنھیں خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ کے ایک گاؤں میں مبینہ طور پر ان کے اپنے رشتہ داروں نے اس لیے قید کیے رکھا تاکہ وہ ان کی جائیداد پر قابض ہو سکیں۔

پولیس نے ایک ملزم کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ دوسرے ملزم کی تلاش ابھی جاری ہے۔ پولیس کی جانب سے ایک ملزم کو بدھ کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا جس کے بعد ملزم کو جیل بھجوا دیا گیا ہے۔

خاتون کے والدین وفات پا چکے ہیں جبکہ بہن بھائی نہیں ہیں۔ خاتون کا الزام ہے کہ انھیں اکیلا دیکھ کر ان کے رشتہ داروں کی لالچ جاگ اٹھی اور انھوں نے ان خواتین پر ظلم کرنا شروع کر دیا۔

خاتون کا الزام ہے کہ ان کے ماموں زاد بھائیوں نے انھیں ایک کمرے میں ایسے قید کیا کہ نہ تو وہاں روشنی جا سکتی تھی اور نہ ہی اندر سے آواز باہر آ سکتی تھی۔

خاتون کے مطابق جہاں انھیں رکھا گیا اس کمرے کی کھڑکیوں پر ٹین کی چادریں لگائی گئی تھیں اور ان کے پیروں میں اتنی بھاری زنجیریں ڈالی گئی تھیں جس سے وہ کھڑی بھی نہیں ہو سکتی تھیں۔

مقامی تھانے کے ایس ایچ او ہارون خان نے بی بی سی کو ساری تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں اطلاع موصول ہوئی تھی کہ ایک گھر میں اس طرح ایک خاتون کو قید میں رکھا گیا ہے۔

اس خبر کے ملنے پر وہ ایک خاتون پولیس اہلکار کے ساتھ موقع پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ خبر سچی تھی۔ انھوں نے خاتون کو وہاں سے بازیاب کرایا اور تھانے لے آئے۔

پولیس کے مطابق خاتون کی حالت انتہائی خراب تھی اور نہ جانے کتنے عرصے سے وہ اس کمرے میں بند تھیں۔ خاتون نے بتایا ہے کہ انھیں اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ انھیں قید میں کتنا عرصہ بیت چکا ہے۔ ان کے لیے تو بس اس کمرے میں ہر وقت رات ہی تھی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پولیس انسپکٹر نے بتایا کہ جب پولیس نے ان خاتون کو کھانے پینے کے لیے چیزیں دیں تو انھوں نے ایسے پیٹ بھر کر کھانا کھایا جیسے ایک لمبے عرصے سے انھیں کچھ بھی کھانے کو نصیب نہیں ہوا تھا۔

اغوا

پولیس انسپکٹر ہارون خان کے مطابق جب وہ کمرے میں داخل ہوئے تو کمرے میں اندھیرا تھا اور گڑھے بنے ہوئے تھے۔ وہ خاتون انتہائی کمزور ہو چکی تھیں اور بھاری زنجیروں کے باعث وہ اپنی ٹانگیں سیدھی بھی نہیں کر پا رہی تھیں۔

خاتون نے پولیس کے سامنے الزام عائد کیا کہ انھیں قید کرنے والے ان کے ماموں زاد بھائی ہیں۔ پولیس کے مطابق خاتون کو ان کی ماں کی طرف سے ورثے میں تقریباً 40 سے 45 کنال زمین ملی تھی۔

خاتون کا الزام ہے کہ ماموں زاد بھائی یہ جائیداد ہتھیانا چاہتے تھے اس لیے نہ تو وہ اسے باہر چھوڑتے اور نہ ہی وہ اسے شادی کرنے دیتے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

’جب پتا چلا کہ داماد تین سال سے بیٹی پر تشدد کر رہا ہے تو پاؤں تلے زمین سرک گئی‘

غگ: فرسودہ قبائلی روایت سے خواتین آج بھی پریشان

خیبر پختونخوا: وہ فون کال جس پر خواتین کو دس ہزار روپے جرمانہ ہو گا

’پڑوسی ہمیں بہانے سے لے کر گئے اور افغانستان میں فروخت کر دیا‘

پولیس کے مطابق ’بظاہر ایسا لگتا تھا کہ ان ملزمان کو ڈر تھا کہ کہیں خاتون زمین کسی اور کے نام نہ کر دیں یا کسی سے نکاح نہ کر لیں کیونکہ دونوں صورتوں میں پھر وہ جائیداد خاتون کے پاس رہے گی۔‘

ہارون خان نے بتایا کہ ’خاتون کو کسی کے حوالے کرنے کے لیے گاؤں میں ان کے دور کے رشتہ داروں کو بلایا گیا اور ساتھ میں علاقے کے معززین بھی آئے تھے اور ان کی گارنٹی پر خاتون کو ان کے حوالے کیا گیا اور خاتون بھی ان کے ساتھ جانے پر رضا مند تھی۔‘

پولیس اہلکاروں نے ان کے رشتہ داروں سے خاتون کے علاج کے لیے بھی کہا تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکیں۔

یہ اس طرح کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ پاکستان میں خواتین کو جائیداد سے محروم رکھنے کے لیے ان کی شادیاں نہ کرانے اور کئی معاملات میں یا ان کی شادیاں قرآن پاک سے کروانے کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں۔

اسی سال جولائی کے مہینے میں ضلع صوابی میں بھی اس طرح ایک خاتون کو اس کے چار بھائیوں نے ایک کمرے میں بند کر کے زنجیر سے باندھ رکھا تھا۔ بعد ازاں مقامی لوگوں کی اطلاع پر خاتون کو بازیاب کر لیا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments