عمران خان کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ورچوئل خطاب: ’افغانستان کے معاملے پر پاکستان کی تعریف کرنے کے بجائے الزام تراشی کی جاتی ہے‘


پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں ہونے والی جنگ میں اُن کے علاوہ سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والا ملک پاکستان ہے لیکن بجائے پاکستانی مدد کی تعریف کرنے کے بجائے دنیا کی جانب سے پاکستان پر افغانستان کے واقعات کے حوالے سے الزام تراشی کی جاتی ہے۔

اپنی تقریر میں وزیر اعظم نے کہا کہ اگر عالمی برادری نے افغانستان کو پس پشت ڈال دیا تو نہ صرف مستقبل میں بہت سنگین نوعیت کے انسانی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا جس کے اثرات افغانستان کے پڑوسی ممالک پر بھی پڑیں گے، بلکہ ایک ‘غیر مستحکم اور بحران سے دوچار افغانستان ایک بار پھر بین الاقوامی دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن جائے گا۔’

وزیر اعظم عمران خان نے افغانستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغان عوام کی خاطر یہ لازمی ہے کہ موجودہ حکومت کو مستحکم کیا جائے اور اگر اب عالمی برادری ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور ان کے ساتھ بات چیت کرے تو یہ سب کے لیے کامیابی ہو گی۔

انھوں نے کہا کہ افغانستان کی عوام کو امداد کی اشد ضرورت ہے اور یہ ان کے لیے بہت نازک وقت ہے اور اسے ضائع نہیں کیا جاسکتا اور صرف اقوام متحدہ ہی عالمی برداری کو اس مقصد کے لیے متحرک کر سکتا ہے۔

وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کووڈ کی وبا، کرپشن، اسلامو فوبیا، ماحولیاتی تبدیلی کے موضوعات پر بات چیت کی تاہم ان کی تقریباً 25 منٹ تک طویل تقریر میں سب سے بڑا حصہ انڈیا اور افغانستان کے موضوعات پر رہا۔

کووڈ، ماحولیاتی تبدیلی اور کرپشن

وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقریر کا آغاز کووڈ کی وبا کے موضوع سے کیا اور جنرل اسمبلی کو پاکستان کے اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی حکومت نے ‘سمارٹ لاک ڈاؤن’ کی حکمت عملی استعمال کرتے ہوئے معیشت کے پہیے نہ صرف جاری رکھا بلکہ انسانی جانوں کو بھی محفوظ رکھنے میں کامیابی حاصل کی۔

ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ مضر گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کا شمار دنیا کے ان دس ممالک میں ہوتا ہے جو دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی، معاشی بحران اور کووڈ کی وبا کے تین طرفہ چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے دنیا کو ایک جامع منصوبہ بندی کرنا ضروری ہوگی۔

کرپشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ منی لانڈرنگ کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کی رقم نکال کر دوسرے ممالک میں چلی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ جو کچھ ایسٹ انڈیا کمپنی نے انڈیا کے ساتھ کیا، وہی کچھ ترقی پذیر ملکوں کے ساتھ ان کی بدعنوان اشرافیہ کر رہی ہے۔

انھوں نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ ایک ایسا جامع قانونی فریم ورک تشکیل دیا جائے جس سے دولت کی غیر قانونی اڑان کو روکا جا سکے اور اس دولت کو واپس لوٹایا جائے۔

اسلاموفوبیا، انڈیا اور کشمیر

کشمیر

وزیر اعظم عمران خان نے اسلاموفوبیا کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کچھ حلقوں کیجانب سےدہشت گردی کو اسلام سے جوڑا جاتا رہا ہے جس کے سبب انتہا پسند اور دہشت گرد گروہ مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

انڈیا اور وہاں کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو آڑے ہاتھ لیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ دنیا میں ‘اسلامو فوبیا کی سب سے خوفناک اور بھیانک شکل’ انڈیا میں ہے۔

انھوں نے اپنی تقریر میں انڈیا پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہاں ‘ اسلامی تاریخ اور ورثے کو مٹانے کی کوششیں جاری ہیں۔’

بے جی پی حکومت کی جانب سے پانچ اگست 2019 کوانڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی حیثیت کے خلاف لیے گئے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ انڈیا نے ‘نو لاکھ قابض فوج کے ذریعےخوف کی ایک لہرجاری کر رکھی ہے۔’

انھوں نے کشمیر کے معاملے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انڈین کارروائیاں صریح خلاف ورزی ہیں اور ان قرار دادوں میں یہ واضح طور پر درج ہے کہ اس مسئلہ کے حل صرف ‘اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں کروائے گئے ایک شفاف اور آزادانہ استصوابِ رائے’ کے تحت ممکن ہے۔

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

عمران خان: ’انڈیا میں ریاست اسلاموفوبیا کو فروغ دے رہی ہے‘

’اقوام عالم نے جس شخص کو سُنا یہ وہی ہیں جنھوں نے پارلیمان میں اُسامہ کو شہید کہا‘

عمران خان: انڈیا سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں

افغانستان کی صورتحال

افغآنستان

اپنی تقریر کے آخری حصے میں وزیر اعظم عمران خان نے تفصیلی طور پر افغانستان کی صورتحال پر بات کی اور کہا کہ امریکہ اور یورپ کے چند سیاستدان محض پاکستان پر الزام تراشی کرتے ہیں جبکہ نائن الیون کے بعد سے پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث '80 ہزار سے زیادہ پاکستانی ہلاک ہوئے، ہماری معیشت کو 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا اور پاکستان سے 35 لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔'

عمران خان نے سنہ 80 کی دہائی میں افغان مجاہدین اور سویت یونین کے مابین ہونے والی جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت کے امریکی صدر رونلڈ ریگن نے نہ صرف ان کو وائٹ ہاؤس دعوت دی بلکہ ان کا موازنہ امریکہ کے بانیوں کے ساتھ کیا۔

عمران خان نے کہا کہ نہ صرف امریکہ نے پاکستان میں ‘480 ڈرون حملے کیے’ بلکہ ‘2004 اور 2014 کے درمیان 50 مختلف عسکری گروپ پاکستان کی ریاست پر حملہ آور تھے۔’

وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کو اس قدر مشکلات کا سامنا محض اس لیے ہوا کیونکہ گلوبل وار آن ٹیرر میں پاکستان نے امریکی اتحاد میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن تعریف کیے جانے کے بجائے پاکستان پر محض ‘الزام تراشی’ کی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر دنیا یہ سمجھنا چاہتی ہے کہ طالبان اقتدار میں واپس کیوں آ گئے اور تین لاکھ نفوس پر مشتمل افغان فوج نے ان کے خلاف لڑائی کیوں نہ کی تو ‘ جس لمحے اس کا تفصیلی تجزیہ کیا جائے گا تو دنیا کو معلوم ہوجائے گا کہ طالبان اقتدار میں واپس کیوں آئے ہیں اور یہ پاکستان کی وجہ سے نہیں ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments