درآمد شدہ گاڑیوں کے لیے بینک قرض پر پابندی کی وجہ کیا ہے؟


غیرملکی کاریں
گاڑیوں کے شعبے کے لیے فنانسنگ کی پالیسی میں تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ معیشت میں طلب کو کم کرنا ہے۔
پاکستان میں ملکی سطح پر تیار ہونے والی گاڑیوں کے ساتھ بیرون ملک سے گاڑیاں درآمد بھی کی جاتی ہیں جن کی بڑی وجہ درآمد کنندگان ان کی پائیداری کے ساتھ ساتھ ان میں موجود بہتر سکیورٹی فیچرز کو بھی قرار دیتے ہیں۔

تاہم اب پاکستان کے سٹیٹ بینک کی جانب سے درآمد شدہ گاڑیوں کے لیے بینکوں کی جانب سے فراہم کیے جانے والے قرضوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ مرکزی بینک کی جانب سے یہ پابندی آٹو فنانسنگ کے لیے اپنے جاری کردہ ضوابط میں ترمیم کے ذریعے لگائی گئی ہے۔

کراچی کی کاروباری شخصیت ملک اسحاق بھی ان افراد میں شامل ہیں جو بیرونِ ملک سے درآمد کی جانے والی گاڑیوں کو مقامی گاڑیوں پر ترجیح دیتے ہیں اور انھوں نے اسے بطور کاروبار بھی اپنایا ہوا ہے۔

محمد اسحاق ان درآمد شدہ گاڑیوں کو کچھ ہفتے یا مہینے استعمال کرنے کے بعد منافع پر فروخت کر دیتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی طرف گاہک کے جھکاؤ کی ایک وجہ پاکستان میں تیار ہونے والی گاڑیوں پر بہت زیادہ ’اون منی‘ چل رہی ہے اور اکثر ڈیلر کہتے ہیں کہ بکنگ بند ہے اور اگر ہے تو بہت لمبا ٹائم دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ درآمد شدہ گاڑیوں میں زیادہ کام نقد ادائیگی پر ہی ہوتا ہے اور 15 سے 20 فیصد درآمد شدہ گاڑیاں ہی بینکوں کی جانب سے فراہم کیے جانے والے قرضے سے خریدی جاتی ہیں۔

اسحاق کے مطابق ان کے ایک رشتہ دار نے گذشتہ برس پہلے قریباً 80 لاکھ مالیت کی گاڑی بینک سے فنانسنگ کے ذریعے حاصل کی تاہم مستقبل میں ایسی خریداری ممکن دکھائی نہیں دیتی۔

خیال رہے کہ مرکزی بینک کی جانب سے صرف درآمد شدہ گاڑیوں پر بینکوں کی جانب سے فراہم کیے جانے والے قرضے پر ہی صرف پابندی عائد نہیں گئی ہے بلکہ مقامی طور پر تیار ہونے والی گاڑیوں پر بینکوں کی جانب سے فراہم کیے جانے والے قرضوں پر شرائط میں بھی ترمیم کی گئی ہے۔

ترمیم شدہ ضوابط کے تحت اب ان گاڑیوں پر قرضے کی زیادہ سے زیادہ مدت کو سات سال سے پانچ سال کر دیا گیا ہے تو دوسری جانب گاڑی کے لیے دیے جانے والے قرضے کے لیے ڈاؤن پیمنٹ 15 فیصد سے بڑھا کر 30 فیصد کر دی گئی ہے تاہم ترمیم شدہ ضوابط کا اطلاق مقامی طور پر تیار ہونے والی 1000 سی سی تک انجن رکھنے والی گاڑیوں پر نہیں ہو گا۔

گاڑیاں

ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی طرف پاکستانی گاہک کے جھکاؤ کی ایک وجہ پاکستان میں تیار ہونے والی گاڑیوں کی بروقت فراہمی نہ ہونا بھی ہے

آٹو فنانسنگ کے ضوابط میں تبدیلی کیوں لائی گئی؟

سٹیٹ بینک کی جانب سے درآمد شدہ گاڑیوں کی خریداری کے لیے قرضے پر پابندی عائد کیے جانے پر درآمد شدہ گاڑیوں کے ڈیلر اور درآمد کنندہ تشویش کا اظہار کر رہے ہیں تاہم دوسری جانب معاشی امور کے تجزیہ کار نے معیشت میں طلب کی نمو کو معتدل بنانے کے لیے مرکزی بینک کے اقدام کے فیصلے کو بہتر قرار دیا ہے

اس سلسلے میں تجزیہ کار ارسلان حنیف کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کے شعبے کے لیے فنانسنگ کی پالیسی میں تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ معیشت میں طلب کو کم کرنا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’درآمد شدہ گاڑیوں کو ہی لیا جائے تو پاکستان نے صرف اگست کے مہینے میں 356 ملین ڈالرز گاڑیوں اور ان کے پرزہ جات کی درآمد پر خرچ کیے ہیں جب کہ گزشتہ مالی سال کے اسی مہینے میں یہ درآمد 106 ملین ڈالرز تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر درآمد اسی رفتار سے جاری رہتی ہے تو پورے مالی سال میں تین ارب ڈالر خرچ کرنا پڑیں گے جو پاکستان جیسے ڈالرز کی کمی کے شکار ملک کے لیے بہت بڑی رقم ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

کیا پاکستان میں گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ معیشت میں بہتری کی نشاندہی ہے؟

سستی الیکٹرک گاڑیاں پاکستان کیسے منگوائی جاسکتی ہیں؟

پاکستانی آخر کاریں کیوں نہیں خرید رہے؟

پاکستان میں آخر گاڑیاں مہنگی کیوں ہیں؟

ان کے مطابق اسی طرح مقامی سطح پر تیار ہونے والی گاڑیوں کے قرض کی ادائیگی کے لیے مدت میں کمی اور ان پر ڈاؤن پیمنٹ میں اضافہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے کیونکہ جب ڈاؤن پیمنٹ زیادہ ہو گی تو بہت سارے افراد کی قوت خرید کم ہو جائے گی جس کی بنیاد پر کم گاڑیوں کی طلب ہو گی۔

’جب ڈاؤن پیمنٹ زیادہ ہوگی تو کم لوگ بینک سے قرض کے لیے جائیں گے تو اس سے طلب میں کمی آئے گی جو حکومت چاہتی ہے کہ اس سے کمی آئے کیونکہ مقامی طور پر تیار ہونے والی گاڑیوں کے تقریباً تمام پارٹس بیرون ملک سے منگوائے جاتے ہیں اور کم طلب ہونے پر کم پارٹس منگوانے پڑیں گے۔‘

پاکستان، گاڑیاں، معیشت

درآمد شدہ گاڑیوں میں زیادہ کام نقد ادائیگی پر ہی ہوتا ہے اور 15 سے 20 فیصد درآمد شدہ گاڑیاں ہی بینکوں کی جانب سے فراہم کیے جانے والے قرضے سے خریدی جاتی ہیں

ارسلان نے بتایا کہ اگرچہ لگژری گاڑیوں کی درآمد پر بینک فنانسنگ ہوتی ہے تاہم اس کی کم شرح بھی گاڑیوں کے امپورٹ بل پر بہت زیادہ اثر ڈالتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگرچہ ماضی کے مقابلے میں کم درآمد شدہ گاڑیاں آرہی ہیں تاہم ڈالر کی اوپر کی سطح پر ہونا ان کی درآمد کو بہت مہنگا بنا رہا ہے۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ ضوابط پر نظرِ ثانی کے اقدام سے معیشت میں طلب کی نمو کو معتدل کرنے میں مدد ملے گی، جس سے درآمدی نمو سست ہو گی اور اس طرح توازنِ ادائیگی کو سہار ادیا جائے گا۔

درآمد شدہ گاڑیوں کی بینک فنانسنگ پر پابندی کا کیا اثر پڑے گا؟

ملک میں درآمد شدہ گاڑیوں پر بینک فنانسنگ کی پابندی پر تبصرہ کرتے ہوئے کراچی میں کار ڈیلر اقبال شاہ نے بتایا کہ ملک میں بکنے والی گاڑیوں میں چالیس سے پچاس فیصد بینکوں کی جانب سے جاری کیے جانے والے قرضے سے خریدی کی جاتی ہیں جن میں مقامی اور درآمد شدہ دونوں گاڑیاں شامل ہیں۔ ان کے اندازے کے مطابق سٹیٹ بینک کے اقدام سے سے گاڑیوں کی خریداری پر پندرہ سے بیس فیصد تک اثر پڑے گا

آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد نے درآمد شدہ گاڑیوں پر بینک کی جانب سے قرضے کی فراہمی پر پابندی کو ایک نامناسب اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے ملکی سطح پر گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیوں کی اجارہ داری کو مزید تقویت ملے گی ۔

شہزاد نے کہا ’مقامی سطح پر تیار ہونے والی گاڑیاں ملکی طلب پورا نہیں کر سکتیں اس لیے جب درآمد شدہ گاڑیاں کم آئیں گی تو انھیں اس صورت حال میں مزید فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا اور وہ صارفین کے لیے گاڑیاں مزید مہنگی کر سکتے ہیں۔‘

کار

پاکستان میں گاڑیوں کی خریداری کے لیے بینکوں کی جانب سے قرض میں اوسطاً ہر مہینے 12 ارب روپے کا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے

پاکستان میں گاڑیوں کی خریداری پر بینکوں نے کتنا قرضہ دے رکھا ہے؟

پاکستان میں بینکوں کی جانب سے گاڑیوں کی خریداری کے لیے دیے جانے والے قرضے کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ انھوں نے مجموعی طور پر 326 ارب روپے کا قرضہ دے رکھا ہے تاہم یہ واضح نہیں کہ ان میں سے مقامی طور پر تیار ہونے والی گاڑیوں اور درآمد شدہ گاڑیوں پر کتنا کتنا قرضہ جاری کیا گیا ہے۔

آل پاکستان موٹرز ڈیلر ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ آٹو سیکٹر میں مجموعی طور پر جاری کیے جانے والے قرضے میں سے تقریباً 15 سے 20 فیصد قرض درآمد شدہ گاڑیوں کے لیے جاری کیا گیا ہے

عارف حبیب سکیورٹیز میں انویسٹمنٹ کے تجزیہ کار ارسلان حنیف نے اس سلسلے میں بتایا کہ گاڑیوں کی خریداری کے لیے بینکوں کی جانب سے قرض میں اوسطاً ہر مہینے 12 ارب روپے کا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے تاہم اس شعبے میں درآمد شدہ گاڑیوں پر جاری کیے گئے قرضے کی شرح کم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’لگژری گاڑیوں پر لوگ کم ہی بینک سے قرض لیتے ہیں اور ان کی زیادہ تر خریداری نقد رقم کی صورت میں ہوتی ہے۔‘

ملک اسحاق کے مطابق درآمد شدہ گاڑیوں پر بینک فنانسنگ میں کمی کی ایک وجہ اس کی ویلیویشن کا عمل بھی ہے۔ ’بینک کو ایک درآمد شدہ گاڑی کی پوری ویلیویشن کرنی پڑتی ہے کہ اس گاڑی کی اصل قیمت ہے کیا ہے اور اس پر کتنا قرضہ دیا جائے جب کہ اس کے مقابلے میں ملکی سطح پر تیار ہونے والی گاڑی کی قیمت انہیں پتا ہوتی ہے جو مقامی طور پر گاڑیاں تیار کرنے والے اداروں کی جانب سے جاری کی جاتی ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments