کلیات یگانہ میں ترتیب اور تلاش کا طریقہ کار


اردو ادب میں یہ روایت اور رواج ہے کہ شاعر یا فنکار کے ذہنی ارتقا کو سمجھنے کے لیے اس کی تخلیقات کو ادوار میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ ان ادوار سے تخلیق کار کے موضوعات اور اسالیب کے درجہ بدرجہ ارتقا کا علم ہوتا ہے۔ اس ارتقا میں بہت سے معاشرتی، سیاسی، ذہنی اور انفرادی عوامل ہوتے ہیں۔ اس ارتقا کی درست نشان دہی کا پہلا عنصر یہ ہے کہ تخلیقات کی تاریخیں معلوم ہوں یعنی کون سی غزل کب لکھی گئی یا کون سا افسانہ و ناول پہلی بار کب لکھا گیا اور کب شائع ہوا۔ اس اصول و رواج کے مطابق ادب کی تاریخ میں متعدد تخلیق کاروں کی تخلیقات کو ادوار میں تقسیم کر کے ان کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے اور اس سے مختلف نتائج کا استخراج کیا گیا ہے

کلیات یگانہ کی ترتیب میں بھی مشفق خواجہ نے تاریخی ترتیب کو اہمیت دی اور یگانہ کا سارا کلام تاریخی حوالے سے مرتب کیا انہوں نے ہر جگہ تدوین متن کے اصولوں کی پابندی کی ہے اور یہ پابندی شعوری ہے روایتی نہیں۔ اس لئے کہ انہوں نے جگہ جگہ اس کی طرف اشارے بھی کیے ہیں

مشفق خواجہ کے تدوینی عمل پر بحث کرنے سے پہلے خواجہ صاحب کا مختصر تعارف پیش کرنا ضروری ہے تاکہ ان کی ہمہ جہت شخصیت کا احاطہ کیا جا سکے

اردو کے نامور محقق، ادیب اور شاعر مشفق خواجہ 19 دسمبر 1935 ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ مشفق خواجہ کا اصل نام خواجہ عبدالحئی تھا۔ ان کے والد خواجہ عبدالوحید علامہ اقبال کے ہم جلیس اور کئی علمی کتب کے مصنف تھے جبکہ ان کے چچا خواجہ عبدالمجید اردو کی معروف لغت جامع اللغات کے مؤلف تھے۔ قیام پاکستان کے بعد مشفق خواجہ کراچی منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے 1958 ء میں ایم اے کیا۔ 1957 ء سے 1973 ء تک وہ انجمن ترقی اردو سے وابستہ رہے۔

اس ادارے سے وابستگی نے مشفق خواجہ کی شخصیت کو جلا بخشی اور یوں انہوں نے تن تنہا کئی اہم تحقیقی کارنامے انجام دیے۔ 1980 ء کی دہائی میں مشفق خواجہ نے خامہ بگوش کے قلمی نام سے ادبی کالم نگاری کا آغاز کیا جس نے پورے برصغیر میں دھوم مچا دی۔ مشفق خواجہ کی تصانیف اور تالیفات میں قاموس الکتب، خوش معرکہ زیبا، پرانے شاعر نیا کلام، اقبال از احمد دین، غالب اور صفیر بلگرامی، جائزہ مکتوبات اردو، تحقیق نامہ اور کلیات یگانہ کے نام سرفہرست ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ ابیات کے نام سے اشاعت پذیر ہوا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے ادبی کالموں اور مکاتیب کے کئی مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں۔ ٭ 21 فروری 2005 ء کو اردو کے نامور محقق، ادیب اور شاعر مشفق خواجہ کراچی میں وفات پا گئے۔ وہ کراچی میں سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں

مشفق خواجہ کے تعارف کے بعد یگانہ کے تعارف پیش کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یگانہ کے کلام پر بات کرنے سے پہلے اس کے حوالے سے چند تعارفی چیزوں کو دیکھ لیا جائے

یاس یگانہ چنگیزی 17 اکتوبر 1884 ء کو صوبہ بہار کے شہر پٹنہ میں پیدا ہوئے تھے۔ اصل نام مرزا واجد حسین تھا۔ ابتدا میں یاس تخلص کرتے تھے پھر یگانہ تخلص اختیار کیا۔ 1904 ء میں وہ لکھنؤ گئے جہاں کی فضا انہیں کچھ ایسی راس آئی کے وہیں کے رہے۔ لکھنؤ میں مشاعروں اور ادبی محافل کا دور دورہ تھا لیکن لکھنؤ کے روایت پسند اساتذہ سے یگانہ کی بنی نہیں۔ یگانہ اچھے اچھے شاعروں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے حتیٰ کہ مرزا غالب بھی ان کے اعتراضات کی زد سے محفوظ نہ رہ سکے۔ یگانہ نے اپنی زندگی کا آخری حصہ لکھنؤ میں بڑی کسمپرسی میں بسر کیا اور وہیں 4 فروری 1956 ء کو انتقال کیا۔ یگانہ کے شعری مجموعے نشتر یاس، آیات وجدانی، ترانہ اور گنجینہ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ 2003 ء میں مشفق خواجہ نے ان کے کلام کی کلیات شائع کی۔

یاس یگانہ کا کلام اور اس کی اشاعتی صورتحال و اہمیت:

کلیات یگانہ کے تدوینی طریقہ کار اور اس کی کامیابی کے حوالے سے بات کرنے سے پہلے ہمیں یگانہ کے کلام پر مختصر طور پر نظر ڈالنی ہوگی تاکہ ہمیں اس بات کا اندازہ ہو سکے کہ کلام یگانہ کس شکل میں موجود تھا اور اس میں کس کس طرح کی خامیاں موجود تھی اس کے بعد ہی اس بات کا اندازہ بہتر طور پر ہو سکے گا کہ مشفق خواجہ کو اس کلیات کی تدوین میں کن کن مشکلات سے نبرد آزما ہونا پڑا اور اس کے بعد انہوں نے کس انداز سے اس کلیات کے تدوینی عمل کو مکمل کیا

یگانہ کا پورا کلام کبھی شائع نہیں ہوا اور جو مجموعے شائع ہوئے ان میں بھی کسی سلیقے کا اظہار نظر نہیں آتا یگانہ کا پہلا مجموعہ ”نشتریاس“ جو کہ 14 19 میں چھپا تھا اس میں موجود اگر کلام کی بات کی جائے تو اس کا بڑا حصہ یگانہ کے ابتدائی طور پر مشتمل ہے اس کی شہرت اپنے زمانے میں اس کے مندرجات کی وجہ سے کم اور اس میں لکھنؤ کے ہم عصر شعراء سے جھگڑے کی بنا پر زیادہ ہوئی اس مجموعہ میں موجود کلام کے غیر اہم ہونے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بعد کے مجموعوں میں اس کے بہت سے اشعار کو شامل ہونے کے لائق نہیں سمجھا گیا۔

یگانہ کا دوسرا اور اہم مجموعہ ”آیات وجدانی“ 1927 میں شائع ہوا اگر یوں کہا جائے کہ یگانہ کی شاعرانہ اہمیت کا دار و مدار بڑی حد تک اسی مجموعہ پر ہے تو بے جا نہ ہو گا لیکن اس مجموعہ کی اشاعت کچھ اس انداز میں ہوئی کہ نثر کا پلہ شاعری سے بھاری ہو گیا اور مرزا مراد بیگ کے محاضرات کے سامنے کلام یگانہ کی اہمیت ثانوی نظر آئی اس مجموعہ کو قاری پڑھتے ہوئے محسوس کرتا ہے کہ نثر اشعار کی وضاحت کے لیے نہیں لکھی بلکہ نثر کی خوبصورتی کے لئے اشعار کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس طرح کا سلوک وہ بھی اپنے بہترین کلام سے یگانہ جیسا تخلیق کار ہی کر سکتا ہے زمانی اعتبار سے آیات وجدانی کے سات برس بعد 1933 میں ”ترانہ“ کی اشاعت عمل میں آئی۔ یہ کتاب عمر خیام کی رباعیات کی طرح جیبی سائز میں شائع ہوئی تھی اس سائز میں ہونے کی وجہ سے کم نسخے محفوظ رہ سکے

1934 میں ”آیات وجدانی“ کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا اس میں اہم بات یہ تھی کہ سوائے انتساب کے اس میں نثر نام کی کوئی چیز شامل نہیں تھی

اس حوالے سے مشفق خواجہ لکھتے ہیں کہ

” مگر معلوم نہیں اس پر کیا گزرے کے اس کی اشاعت کی کانوں کان کسی کو خبر نہ ہوئی کسی کتاب خانے میں موجود نہیں ہے اگر یگانہ اس کا ایک نسخہ پروفیسر سید مسعود حسن رضوی ادیب نہ دیتے تو میرے لئے استفادہ کرنا ناممکن تھا“ (کلیات یگانہ ص ن 26 )

1946 میں ”آیات وجدانی“ کا تیسرا ایڈیشن شائع ہوا جس کی حالت پہلے ایڈیشن سے بھی ابتر تھی اس میں مضامین کو اتنے برے انداز میں شامل کیا گیا کہ کلام کی ثانوی حیثیت بھی جاتی رہی حالانکہ اس اشاعت میں یگانہ نے کچھ نیا کلام بھی شامل کیا لیکن وہ بھی اس بد سلیقگی کی نظر ہو گیا

1964 میں یگانہ کا سفر بمبئی اور وہاں سید سجاد ظہیر سے ملاقات کے بعد یگانہ نے تمام مجموعہ میں شامل کلام کو ان کے لئے گنجینہ کے نام سے مرتب کر دیا جو کہ 1947 میں شائع ہوا اس طرح یہ نسخہ تقسیم اور اس سے ہونے والے فسادات کی نذر ہو گیا اور یہ محدود تعداد میں قارئین تک پہنچ سکا لیکن یہی وہ مجموعہ ہے جن کے نسخے کم ہی سہی دستیاب ہو جاتے ہیں لیکن یگانہ اس مجموعے سے مطمئن نہیں تھی مالک رام کے نام مکتوب مورخہ 10 فروری 1951 میں لکھتے ہیں

” گنجینہ میں طباعت کی بعض افسوسناک غلطیاں رہ گئی ہیں اور بعض مقام پر تو معلوم ہوتا ہے کہ پبلشر نے اشعار پر اصلاح بھی دے دی ہے اور بعض اشعار اپنی خوش ذوقی جتلانے کے لئے خارج بھی کر دیے ہیں“

(کلیات یگانہ ص ن 27 )

لیکن یہ کتابت کی غلطی صرف گنجینہ میں ہی دیکھنے کو نہیں ملتی بلکہ جو مجموعے یگانہ نے خود طبع کرائے اس میں بھی غلطیاں موجود ہیں

کلیات مرزا یاس یگانہ چنگیزی کے مآخذ اور تلاش کا طریقہ کار

کلیات یگانہ میں مشفق خواجہ نے صرف مطبوعہ کلام کو ہی یکجا نہیں کیا بلکہ گنجینہ کی اشاعت کے بعد آٹھ، نو برس یگانہ زندہ رہے اس زمانے کے کلام کو بھی کلیات میں شامل کیا گیا جس کی دریافت کے لیے انہوں نے یگانہ کی بیٹی اور بیٹے سے رابطہ کیا جس سے ان کو دو بیاضیں ملی جو کہ بخط یگانہ تھی اسی طرح دیگر ذرائع سے یگانہ کے خطوط حاصل کیے

بقول مشفق خواجہ

”یگانہ خطوں کے ساتھ شعلہ کو اپنا کلام بھی بھیجا کرتے تھے اسی ذخیرے سے ترانہ کا مسودہ بھی دستیاب ہوا“

(کلیات یگانہ ص ن 28 )
کلیات یگانہ کے دیباچے میں مشفق خواجہ لکھتے ہیں

”اسی دوران معلوم ہوا کہ 1951 میں یگانہ نے گنجینہ کو از سر نو مرتب کیا تو اس کا مسودہ مالک رام کے پاس ہے میں نے اس عکس ان سے منگوایا“ (کلیات یگانہ ص ن 28 )

ساتھ ہی وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس کے کچھ حصے پڑھنے نہیں جاتے تھے اس لیے اصل کو دیکھنا ضروری تھا جہاں مشفق خواجہ تدوین کے اہم اصول منشائے مصنف کو اپناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور بجائے قیاس لگانے کہ اکتوبر 1985 میں دہلی کے سفر کے دوران مالک رام سے گنجینہ کا قلمی نسخہ حاصل کرتے ہیں

بقول مشفق خواجہ

گنجینہ قلمی میں یگانہ نے آیات وجدانی سے لے کر گنجینہ مطبوعہ تک تمام مجموعوں میں شامل کلام بھی شامل کیا ہے جو ان مجموعوں سے پہلے کا ہے اور کسی مجموعے میں شامل نہیں کیا ہے گیا نیز 1951۔ 1947 تک جو کچھ لکھا تھا وہ بھی اس میں شامل کر لیا ”(کلیات یگانہ ص ن 29 )

اس طرح گنجینہ قلمی کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں یگانہ کا تمام کلام شامل تھا اور اس کے ساتھ ساتھ یگانہ نے کلام میں جو ترامیم کی اور متعدد غزلوں کے اشعار ترتیب بھی بدلی وہ بھی اس اہم ترین مجموعہ میں شامل ہے

اس کلیات کی تدوین میں مشفق خواجہ نے خود نوشت یاس اور کجکول کو بھی پیش نظر رکھا

کجکول یگانہ کی ایسی بیاض ہے جس میں یگانہ نے علمی اور ادبی لطائف پسندیدہ اردو اور فارسی اشعار وغیرہ لکھے ہیں اس بیاض کا زمانہ تحریر 17۔ 1916 ہے جبکہ خود نوشت اور کشکول میں یگانہ کا کلام بھی ملتا ہے

کلام یگانہ کا اہم ماخذ رسائل بھی ہیں اس مآخذ کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یگانہ اپنے دور میں رسائل میں سب سے زیادہ چھپنے والے شاعر تھے

مشفق خواجہ کلیات کہ دیباچہ میں لکھتے ہیں

”بعض رسائل میں یگانہ کا ایسا کلام نظر آیا جو ان کے کس مجموعہ میں شامل نہیں ہے تو میں نے طے کر لیا کہ یگانہ کی زندگی میں شائع ہونے والے تمام ادبی رسائل کو دیکھا جائے“ (کلیات یگانہ ص ن 30 )

اوپر بیان کیے گئے ماخذات اور تلاش کے طریقہ کار سے مشفق خواجہ کے اس تدوینی عمل کی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے کس عرق ریزی سے یہ کام سر انجام دیا ہے اور ان ماخذات کے حصول کے لیے کن کن لوگوں سے رابطہ کیا جس کہ بعد کلیات یگانہ کو ترتیب دیا گیا ہے

مشفق خواجہ دیباچے میں لکھتے ہیں

”زیر نظر کلیات میں یگانہ کا سارا کلام ہے مگر بات شعر مجبوراً شامل نہیں کیے یہ وہ شعر ہے جن سے اہل مذہب یا کسی خاص مذہبی فرقے کے کسی خاص ایک خطے کے باشندوں کی دل آزاری کا پہلو نکلتا ہے یا بعض شخصیات کے حوالے سے فحاشی کی حدوں کو چھو لیا گیا ہے“ (کلیات یگانہ ص ن 31 )

اس کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ

”ہاں میں نے احتیاط کی ہے کہ کسی غزل کا کوئی شعر یا کوئی رباعی حذف کی ہے تو حواشی میں صراحت کر دی جائے بوجوہ ایسا کیا گیا ہے“ (کلیات یگانہ ص ن 32 )

دیباچے میں کلیات کی ترتیب کے حوالے سے مشفق خواجہ نے لکھا ہے کہ

”بہت سوچ بچار کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تمام مجموعہ جس ترتیب سے چھپے ہیں اسی ترتیب سے کلیات میں شامل کیے جائیں“ (کلیات یگانہ ص ن 32 )

یعنی کلیات میں کلام کو تاریخی اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے اور شروع میں غزلیات، رباعیات کی ردیف وار فہرستیں دی گئی ہیں جس سے یہ فائدہ ہوا کہ کلام اسی ترتیب سے سامنے آیا جس سے بڑی حد تک لکھا گیا اور پھر مجموعہ کی صورت میں شائع ہوا

مکررات کے مسئلہ کے حوالے سے مشفق خواجہ بیان کرتے ہیں کہ

” اگر کلیات میں تمام مجموعے بہ تمام و کمال شامل کیے جائے تو کلام کا بڑا حصہ مجموعوں میں مشترک ہوتا ہے اور یہ بات مضحکہ خیز ہوتی ہے کہ ہر غزل رباعی کلیات میں پانچ سے سات مرتبہ تک موجود ہو اس کا حل میں نے یہ نکالا کہ نشتر یاس تو کلیات میں مکمل طور پر شامل کیا ہے آیات وجدانی میں نشتر یاس سے جو شعر یا غزلیں شامل تھیں انھیں حذف کر دیا ہے متعلقہ مقامات پر اس کی صراحت کردی اور حواشی میں بھی حوالہ دے دیا ہے“

(کلیات یگانہ ص ن 33 )

کلیات میں مشفق خواجہ نے نمبر شمار کا نظام اسی ترتیب کے ساتھ فرض کیا ہے جو گنجینہ مطبوعہ اور قلمی میں یگانہ نے غزلوں اور رباعیوں کے نمبر شمار درج کیے تھے اور یہی نمبر ہر غزل یا رباعی کے شروع میں درج کیے ہیں اور حواشی میں جہاں کہیں بھی نمبروں کا حوالہ دیا ہے بقیدہ صفحہ دیا ہے تاکہ اصل مجموعہ کلام سے بھی متعلقہ تخلیق کے شمار میں آسانی ہو اور ان نمبر شمار سے ہر مجموعے میں شامل تخلیقات کی تعداد معلوم ہو جاتی ہے آیات وجدانی طبع دوم اور اس کے بعد کی تمام مجموعہ میں خارج متعدد تخلیقات کی فردا فردا نشاندہی نہیں کی گئی اور نمبر شمار سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ کون سی تخلیقات سابقہ مجموعوں میں آ چکی ہیں البتہ حواشی میں نشاندہی کی گئی ہے

مثلاً آیات وجدانی طبع دوم میں غزل ایک کے بعد غزل نمبر 23 ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ درمیان 21 غزلیں آیات وجدانی طبع اول یا نشتر یاس میں شامل ہیں

یہی معاملہ اشعار کے ساتھ بھی برتا گیا ہے اگر کسی غزل کے چند اشعار کسی سابقہ مجموعہ میں آچکے ہیں تو بعد کے مجموعہ میں صرف وہی شعر شامل کیے گئے ہیں جو سابقہ مجموعے میں شامل نہیں تھے جن کی تفصیل حواشی میں درج کردی گئی ہے

حواشی چونکہ ہر مجموعہ کے صفحات کے حوالے سے لکھے گئے ہیں لہذا ان تمام مجموعہ کے مندرجات کی تفسیر معلوم ہوتی ہے ہر مجموعے میں تخلیقات کی ترتیب جاننے کے لئے حواشی مکمل فہرست کام دیتی ہے مجموعی طور پر کلیات دس حصوں پر مشتمل ہے جن میں سے ابتدائی سات حصوں پر تو بات ہو چکی ہے جبکہ باقی تین حصے ذیل ہیں

1غیر مدون کلام
2 باقیات
3ضمائم

غیر مدون کلام کے عنوان کے تحت وہ کلام جمع کیا گیا ہے جو یگانہ کے کسی مجموعے میں شامل نہیں ہے اور شاعری کی بیاضوں اور ادبی سالوں میں دستیاب ہوا ہے اس کے دو حصے ہیں

ایک حصے میں رباعیات
اور دوسرے میں دیگر کلام
رباعیات کا حصہ سنہ وار مرتب کیا گیا ہے جو ان ادوار میں منقسم ہے
1932-1914
1935-1933
1938-1936
1952-1951

اس کے علاوہ جن رباعیات کے حتمی سنین مل گئے ہیں وہ ہر رباعی کے آخر میں درجہ ہیں مذکورہ چاروں حصوں میں رباعیوں کے اندرونی ترتیب ردیف وار رکھی گئی ہے مگر دیگر کلام یہ طریقہ استعمال نہیں کیا گیا اس حصے کی اہم بات یہ ہے کہ یہ جس ترتیب سے دستیاب ہوا ہے اسی ترتیب سے کلیات میں شامل کیا گیا ہے

باقیات کے تحت غزلوں کے متفرق اشعار ہیں جو بیاض اور رسالوں میں تو ملتے ہیں لیکن متعلقہ غزلوں کے مجموعے میں شامل کرتے وقت خارج کر دیے گئے گویا یہ شاعر کے رد کردہ اشعار ہیں

بقول مشفق خواجہ

”انہوں نے متعدد رد کردہ شعروں کو دوبارہ قبول بھی کیا اور انہیں اپنے مجموعہ میں شامل کیا اس لئے میں نے بھی ان شعروں کو محفوظ کرنا مناسب سمجھا“

کلیات کی ترتیب کا کام مکمل ہو جانے کے بعد جو کلام ملا اس کو آخر میں دو ضمیموں کی صورت میں شامل کیا گیا ہے

ایک غیر مدون کلام اور دوسرا باقیات

اس کلیات میں یگانہ کے مجموعوں میں شامل دیباچے تعارفی تحریریں اور انتسابات وغیرہ کو بھی شامل کیا ہے کچھ تحریریں ایسی بھی ہیں جن کو کلیات میں شامل نہیں کیا گیا جن کے بارے میں مشفق خواجہ تفصیل سے بیان کرتے ہیں

مشفق خواجہ کے مطابق 11 اپریل 1951 کے بعد کی ترمیموں کو مصنف کے آخری متن کو سامنے رکھنے کہ اصول کے تحت کلیات میں جگہ دی ہے

حواشی کی بات کی جائے تو جیسے پہلے تفصیل سے ذکر ہو چکا ہے کہ تمام حصوں کی حواشی الگ الگ رکھے گئے ہیں سب سے پہلے نمبر شمار درج ہے کہ متعلقہ مجموعہ کا صفحہ نمبر اس کے بعد ماخذ کے عنوان کے تحت ان تمام مآخذ کی فہرست ہے جن میں تخلیق ملتی ہے اس میں سب سے پہلے یگانہ کی تصانیف ہے پھر دیگر کتابیں اور رسالے شامل ہیں نشتریاس میں ایسی غزلیں جن کی اصلاح یگانہ کے بعض اساتذہ نے دی تھی ان کی تفصیل اصلاح استاد کے عنوان کے تحت درج کی گئی ہے

لیکن بعد کے مجموعوں میں جو ترامیم یگانہ نے کی ہے ان کو اختلاف نسخہ کے تحت دیا گیا ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر نے مختلف اوقات میں اپنے کلام میں کیا کیا تبدیلیاں کی ہے

کتابت کی غلطیاں جو مشفق خارجہ کے بقول تمام مجموعوں میں موجود ہیں ان سب غلطیوں کی نشاندہی بھی حواشی میں س ک سہو کتابت کے عنوان کے تحت کی گئی ہے

حواشی میں آخری عنوان زمانہ تصنیف ہے جس کے تحت تخلیق کار کے زمانے تصنیف متعین کیا گیا اس حوالے سے مشفق خواجہ لکھتے ہیں کہ خطوط کے علاوہ رسائل سے اس سلسلے میں سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے جن غزلوں کی سنین تصنیف معلوم ہوئے اس کو آخر میں درج کیا گیا ہے

فرہنگ شامل کرنے کے حوالے سے مشفق خواجہ لکھتے ہیں

لکھنوی حریفوں کو اپنی زبان دانی سے مرعوب کرنے کے لیے ایسے محاورے استعمال کیے جن کے مفاہیم سے لکھنؤ کی عوام تو کیا خاص بھی کم کم ہی واقف تھے اس صورتحال کے پیش نظر میں نے مناسب سمجھا کہ کلیات میں فرنگ شامل کی جائے لیکن ذرا محدود پیمانے پر فرہنگ میں کثیر معنی الفاظ کی تمام معنی نہیں لکھے وہی معنی فرنگ میں درج کیا گیا جو مطلب مراد شاعر ہیں

اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو مشفق خواجہ نے اس کلیات کی تکمیل کے لیے جس طرح کے طریقہ کار کا عملی طور پر مظاہرہ کیا ہے وہ قابل تحسین ہے اور جس طریقے سے اس تحقیق و تدوین میں استعمال کیا یہ ان جیسے انسان کی ہی بس کی بات ہے دکھائی دیتی ہے جس سے خواجہ کا قلم خوب واقف ہے

یگانہ کے کلام کو جس طرح مشفق خواجہ نے مرتب کر کے نئی زندگی بخشی اس کی مثال کہیں نہیں ملتی یہ ہی وجہ ہے کہ مشفق خواجہ یگانہ کا ایسا حوالہ ہیں کہ جن کو فراموش نہیں کیا جاسکتا اگر یہ کہا جائے کہ کلیات یگانہ تدوین کی دنیا میں ہونے والے چند اہم کارناموں میں شامل ہے تو غلط نہ ہو گا جس میں ہر ممکن یہ سوالات کے کار کی بھی بڑے اچھے انداز میں کی گئی ہے۔

حوالہ جات
1۔ مشفق خواجہ، مرتب :کلیات یگانہ، کراچی :اکادمی بازیافت، 2003
2۔ مشفق خواجہ، مرتب :کلیات یگانہ، ص : 26
3۔ مشفق خواجہ، مرتب :کلیات یگانہ، ص : 27
4۔ مشفق خواجہ، مرتب :کلیات یگانہ، ص : 28
5۔ مشفق خواجہ، مرتب :کلیات یگانہ، ص : 29
6۔ مشفق خواجہ، مرتب :کلیات یگانہ، ص : 31
7۔ مشفق خواجہ، مرتب :کلیات یگانہ، ص : 32
8۔ مشفق خواجہ، مرتب :کلیات یگانہ، ص : 33


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments