اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے وزیر اعظم کا دھواں دار خطاب


اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے جن تین بنیادی نکات پر بات کی ہے، ان سے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور ریجن یا دنیا کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کسی نئی حکمت عملی کا اشارہ نہیں ملتا۔ اس تقریر میں وزیر اعظم نے طالبان حکومت کوتسلیم کرنے اور امداد فراہم کرنے کے علاوہ مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لئے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے مالدار ملکوں سے یہ بھی کہا ہے کہ کووڈ۔19 سے پیدا ہونے والی مشکلات کی وجہ سے غریب ملکوں کی مدد کی جائے۔

کابل پر طالبان کے قبضہ کے بعد سے اسلام آباد نے جو پالیسی اختیار کی ہے، فی الوقت دنیا پر اس کا کوئی مثبت اثر دکھائی نہیں دیتا۔ پاکستان افغان کاز کا خود ساختہ وکیل بنا ہؤا ہے اور دنیا کو یہ یقین دلایا جارہا ہے کہ وہ بھی طالبان حکومت کوتسلیم کرنے سے پہلے یہ یقین دہانی چاہے گا کہ طالبان اقوام عالم سے کئے گئے وعدے پورے کریں۔ وزیر اعظم نے البتہ اپنی تقریر میں واضح کیا ہے کہ اس وقت افغانستان میں حکمران طالبان کا بنیادی مسئلہ مالی وسائل کی کمیابی ہے۔ اس لئے ’اسی دنیا‘ کو آگے بڑھ کر مالی معاملات درست کرنے کے لئے طالبان کی مدد کرنا چاہئے جس نے بیس برس تک اس ملک میں جنگ کی اور بالآخر اسے ناکام لوٹنا پڑا۔ جنرل اسمبلی سے خطاب میں عمران خان نے تقریر کا بیشتر حصہ افغانستان کے معاملہ پر ہی گفتگو کی اور ایک بار پھر یہ شکوہ کیا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا حلیف بن کر شدید نقصان اٹھایا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کی تعریف کرنے کی بجائے، اس پر الزام تراشی کی جاتی ہے۔ اس تناظر میں پاکستانی رہنما نے ایک بار پھر اس جانی و مالی نقصان کی تفصیل بیان کی جو افغانستان میں اتحادی ممالک کی جنگ جوئی کے دوران اسے اٹھانا پڑا ہے۔

سفارت کاری میں بھی ایک ہی مؤقف کو اگر ایک ہی طرح کی دلیل سے دہرایا جائے تو وہ اپنی اہمیت کھو دیتا ہے۔ افغان جنگ میں پاکستان کی ’معصومیت و مظلومیت‘ اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ’زور زبردستی اور بربریت‘ ثابت کرنے کے لئے عمران خان سمیت پاکستانی لیڈر جواستدلال استعمال کرتے ہیں، وہ اب عالمی سماعت پر گراں گزرنے لگا ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پاکستان کا مؤقف درست نہیں بلکہ یہ رائے سامنے لاتے ہوئے یہ باور کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کو بھی اپنی سفارتی پوزیشن پر نظر ثانی کرکے ان مسائل کو محض ایک ملک کے مفادات کا پرتو بنانے کی بجائے انہیں پیش کرتے ہوئے دنیا کی صورت حال پر اس کے وسیع تر اثرات کے حوالے سے نیاطرز بیان اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی دوسرے ملک کی طرح پاکستان بھی کشمیر ہو یا افغانستان ، اپنے بنیادی مؤقف سے رجوع کرنے کا حوصلہ نہیں کرسکتا کیوں کہ یہ پالیسی دہائیوں کی محنت کے بعد استوار کی گئی ہے۔ لیکن اب یہ تسلیم کرنے کا وقت آگیا ہے کہ سفارت کاری میں لچک، نرمی، دوسروں کے مؤقف کو سننے اور کچھ بات ماننے ، کچھ منوانے کا طریقہ اختیار کرکے ہی کوئی بھی ملک اپنے وسیع تر مفادات کا تحفظ کرسکتا ہے۔ اگر کسی ضدی بچے کی طرح اپنی ہی بات منوانے پر اصرار کیاجائے گا تو دنیا اس پر غور کرنے کی بجائے کان اور آنکھیں بند کرلے گی اور زور بیان کی مشقت رائیگاں جائے گی۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عالمی لیڈروں کے خطاب سے کسی فوری تبدیلی کا امکان پید انہیں ہوتا لیکن ان تقریروں کے ذریعے اہم عالمی لیڈر دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنے علاقوں اور دنیا میں معاملات کے حوالے سے کیسے نئے طرز عمل کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ عمران خان سے پہلے جنرل اسمبلی میں امریکی صدر جو بائیڈن اور برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کی تقریریں اس حوالے سے مثال کے طور پر پیش کی جاسکتی ہیں۔ امریکہ پر اس وقت چین کے خلاف محاذ آرائی اور ایک نئی خطرناک سرد جنگ کا آغاز کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریس گزشتہ ہفتہ کے دوران ایک طویل انٹرویو میں متنبہ کرچکے ہیں کہ ایک نئی سرد جنگ زیادہ خطرناک اور ہولناک ہوگی اور دنیا کی فلاح و امن کے نقطہ نظر سے اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔ صدر جو بائیڈن نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا براہ راست حوالہ دیے بغیر واضح کیاکہ امریکہ چین کے ساتھ تنازعہ بڑھانے کی بجائے مل جل کر کام کرنے کا خواہاں ہے۔ اسی طرح برطانوی وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں ماحولیات کی بہتری میں شجر کاری کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے پاکستان کی مثال دی اور کہا کہ جس طرح وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے بلین ٹری سونامی پروگرام کے تحت درخت اگانے کی مہم چلائی ہے، دنیا کو اس سے سیکھنا چاہئے۔

ان دونوں لیڈروں کی باتیں ہرگز ان ملکوں کی پالیسیوں میں کسی تبدیلی کا اشارہ نہیں تھیں لیکن انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ان کا رویہ جارحانہ یا سخت گیر نہیں ہے اور اپنے قومی مفادات کے دائرے میں رہتے ہوئے، وہ مفاہمانہ طرز عمل کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستانی وزیر اعظم کی تقریر سے یہ تاثر قوی نہیں ہوتا۔ انہوں نے دہشت گردی کی دھمکی کو افغانستان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنے کے لئے استعمال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر دنیا نے طالبان سے منہ موڑ لیا تو وہ ملک بحران کا شکار ہوجائے گا اور دہشت گردی کا گڑھ بن جائے گا۔ جس کی وجہ سے دو دہائی تک کی جانے والی محنت رائیگاں جائے گی۔ یہ طرز استدلال مفاہمت اور ایک دوسرے کے لئے گنجائش پیدا کرنے کے رویہ سے متضاد ہے۔ دنیا کو یہ بتانا کہ مالی مدد کے بغیر افغانستان ایک بار پھر ایسے دہشت گردوں کا ٹھکانا بن جائے گا جو مغربی ممالک پر حملہ آور ہوسکتے ہیں، ایک طرح سے سفارتی بلیک میلنگ کا طریقہ ہے جسے کوئی بھی ملک قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوگا۔

یوں بھی اگر افغانستان میں دہشت گردی کی طرف لوٹنے کے تمام آثار موجود ہیں تو کوئی بھی لیڈر کس مہذب اصول کی بنیاد پر ایسے گروہ کی حمایت کرسکتا ہے جس کی نااہلی اور جارحانہ طرز عمل کی وجہ سے انتہاپسندی کو فروغ ملنے کا اندیشہ ہے۔ گزشتہ روز ہی طالبان حکومت میں جیل خانہ جات کے نگران ملا نورالدین ترابی نے ایک انٹرویو میں ہاتھ کاٹنے کی سزا بحال کرنے کے علاوہ سرعام پھانسی دینے یا ماضی کی طرح ملزموں کو گولی مارنے جیسی سزائیں دوبارہ شروع کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ چند روز پہلے عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان نے افغانستان میں ایسی حکومت کے قیام کے لئے طالبان سے بات چیت شروع کی ہے جس میں ہر طبقہ کے لوگ شامل ہوں اور خواتین کو بھی نمائیندگی مل سکے۔ اس بات چیت کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ اس کی بجائے کابل سے ایسے اشارے ضرور موصول ہورہے ہیں جن سے دنیا کے شبہات میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایسے میں جنرل اسمبلی سے خطاب میں طالبان کی وکالت سے بھرپور تقریر کا کیا جواز دیا جاسکتا ہے؟

یوں بھی وزیر اعظم عمران خان نے افغانستان یا کشمیر کے حوالے سے جو باتیں کہی ہیں، ان کا چرچا وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی گزشتہ ایک ہفتہ سے نیویارک میں ہونے والی ملاقاتوں یا انٹرویوز میں کرتے رہے ہیں۔ عمران خان کی تقریر ان باتوں کی گونج کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ کشمیر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے پاکستان کے مؤقف کی بنیاد پر تیار کئے گئے ڈوزئیر کا حوالہ دیا یا بھارت کی ہندو توا کے نظریہ پر کام کرنے والی انتہا پسند حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا لیکن اسی حکومت کے سربراہ اس وقت امریکہ میں ہیں اور امریکی صدر سمیت دیگر عالمی لیڈروں سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ پاکستانی سفارتی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت تو یہ حقیقت بھی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان جنرل اسمبلی میں تقریر کے لئے نیویارک نہیں گئے بلکہ ویڈیو لنک کے ذریعے تقریر کرنا کافی خیال کیا۔ اس فیصلہ کو امریکہ میں بھارتی وفد کی پرجوش مصروفیت اور امریکی صدر کی سردمہری کے تناظر میں پرکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان تمام تر کوششوں کے باوجود امریکی صدر کو یہ پیغام پہنچانے میں ناکام رہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو ایک فون کال سے باہمی تعاون کا تاثر قوی ہوگا اور افغانستان کے حوالے سے مثبت نتائج حاصل کرنے میں معاون ثابت ہو گا۔ جو بائیڈن کی سرد مہری کی جو وجوہات بھی ہوں۔ ان کے غلط یا درست ہونے پر بحث کی جاسکتی ہے لیکن یہ واضح ہے کہ پاکستانی حکومت امریکی پالیسی کے بنیادی عوامل پر غور کرنے یا واشنگٹن سے آنے والے اشاروں کو سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ جنرل اسمبلی سے خطاب کے لئے عمران خان کے نیویارک نہ جانے کی ایک بنیادی وجہ یہی ہوگی کہ صدر جو بائیڈن جنرل اسمبلی اجلاس کی سائیڈ لائنز پر پاکستانی لیڈر سے ملنے پر آمادہ نہیں تھے۔

اس دوران بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ چین کے خلاف امریکہ کے وسیع تر ریجنل اتحاد کواڈ کے حوالے سے مذاکرات اور مواصلت کے ماحول میں جب پاکستانی لیڈر پرجوش الفاظ میں بھارتی وزیر اعظم کا قد چھوٹا کرنے کی کوشش کرے گا تو یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ اس سے کوئی سفارتی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ بدقسمتی سے پاکستان کو اس وقت عالمی سفات کاری میں جس تنہائی اور مشکلات کا سامنا ہے، پاکستانی قیادت اس کی سنگینی کو سمجھ کر حکمت عملی بنانے اور ٹھوس بنیاد پر دوسرے ممالک سے تعلق استوار کرنے میں ناکام ہورہی ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر سے چند گھنٹے پہلے عمران خان نے اسلام آباد کی ایک تقریب میں دعویٰ کیا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت پاکستان کی پہلی حکومت ہے جس نے میڈیا کو مکمل آزادی دی ہوئی ہے۔ اسی لئے میڈیا میں آنے والی 70 فیصد خبریں اور تبصرے حکومت کے خلاف ہوتے ہیں۔ اول تو سوال ہے کہ حکومت نے اس تنقید سے کیا سیکھاہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی قومی صحافی تنظیمیں اور عالمی ادارے آزادی رائے اور میڈیا پر ناروا پابندیوں کے بارے میں شدید تشویش ظاہر کررہے ہیں۔ ایسے میں جنرل اسمبلی خطاب سے پہلے وزیر اعظم کا یہ دعویٰ کہ پاکستانی میڈیا تو بہت زیادہ خود مختار ہے ، خود ان کی دیانت اور اصابت رائے کے بارے میں شبہات پیدا کرنے کا سبب ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments