جنوب ایشیائی کرکٹ اور مودی کا ہندوستان!


بھارت میں مرار جی ڈیسائی جبکہ ہماری طرف جنرل ضیاء الحق حکمران تھے۔ سترہ سال کے وقفے کے بعد بشن سنگھ بیدی کی قیادت میں بھارتی ٹیم سال 1978۔ 79 ء میں پاکستان کے دورے پر آئی تو پورا خطہ کرکٹ کے دائمی بخار میں مبتلا ہو کر رہ گیا۔ لگ بھگ چار عشروں بعد ، آج نہ صرف سری لنکا اور بنگلہ دیش بلکہ جنگ سے تباہ حال افغانستان میں بھی کرکٹ گلی گلی کھیلی جاتی ہے۔ خود پاکستان کی کرکٹ ٹیم جو کسی زمانے میں کراچی اور لاہور کے کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی تھی، اب ملک کے طول و عرض میں یکساں مقبول ہے۔

ہمارے پختون نوجوانوں نے تو گویا کھیل کو ایک نئی جلا، نیا ولولہ بخشا ہے۔ کرکٹ کا کھیل جس کی سست روی کا کسی زمانے میں مذاق اڑایا جاتا تھا، بر صغیر کے لوگوں نے اس کا مزاج بدل کر رکھ دیا ہے۔ جنوبی ایشیا میں کرکٹ اب محض ایک کھیل نہیں، ایک ایسا جنون ہے، علاقائیت، لسانیت اور دیگر تفرقات کو پس پشت ڈال کر جو کسی بھی بین الاقوامی ٹورنامنٹ یا سیریز کے دوران قوم کو ایک لڑی میں پرو کر رکھ دیتا ہے۔

کچھ ایسی ہی صورتحال بھارت میں بھی ہے۔ دعویٰ ہے کہ بھارت میں صرف دو مذاہب ہیں، ایک سینما اور دوسرا کرکٹ۔ یہ بھارتی عوام کے کرکٹ سے لگاؤ کا نتیجہ ہی تو ہے کہ آج آئی پی ایل دنیا کے ان سپورٹس ایونٹس میں سے ایک ہے کہ جہاں اربوں کھربوں روپے ہاتھ بدلتے ہیں۔ سینکڑوں ٹی وی چینلز کی نشریات اربوں ڈالرز کی صنعت میں بدل چکی ہیں۔ تھوڑا آگے چلیں۔ بنگلہ دیش میں بھی پے در پے شکست و ناکامیوں کے باوجود وہاں کے عوام نے کرکٹ سے محبت جاری رکھی۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم کو وی آئی پی انکلوژر اور گیارہ کھلاڑیوں کو گراؤنڈ میں ایشیا کپ کا فائنل ہارنے کے بعد ایک دوسرے کے گلے لگ کر ہم نے زار و قطار روتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس سے زیادہ کوئی کسی کھیل سے کیا محبت کرے گا؟

افغانستان کا تو معاملہ ہی سب سے الگ ہے۔ دنیائے کرکٹ کی تاریخ میں شاید ہی کسی ایک ملک نے اس سرعت سے عالمی سطح پر اپنا مقام بنایا ہو گا۔ آج بھی جبکہ تباہ حال ملک پر بے یقینی کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں، افغان کرکٹ ٹیم مستعد و تیار ہے۔ یہ کرکٹ سے والہانہ لگاؤ کا ہی نتیجہ ہے کہ جنوب ایشیائی قوموں نے ناصرف یہ کہ کھیل پر گوری قوموں کی حاکمیت کا خاتمہ کر دیا، بلکہ سنجیدہ شکلیں بنائے گوروں کی جگہ کرکٹ میدانوں کو باجے پتاشوں سے لیس زندہ دل تماشائیوں سے بھر دیا ہے۔ دور بیٹھے، محض رنگ و نور کی برسات دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ ضرور وہاں پاکستان یا بھارت میں سے کوئی کھیل رہا ہے۔ پاک بھارت کرکٹ ہو رہی ہو تو کسے یاد رہتا ہے کہ نیوزی لینڈ، انگلینڈ اور آسٹریلیا بھی کرکٹ کھیلتے ہیں۔

ہمارے ہاں تو ’کرکٹ ڈپلومیسی‘ کے ذریعے دو ایٹمی ملکوں کی سرحدوں کی طرف پیش قدمی کرتی ہوئی مسلح افواج کو واپس بیرکس بھیجے جانے کی مثال بھی موجود ہے۔ دوسری طرف، جنرل مشرف کے زمانے میں ابتدائی سرد مہری کے بعد جب پاک بھارت تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہوئی تو دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے ہاں جی بھر کر کرکٹ کھیلی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ تعلقات کی بحالی ہی کرکٹ کی بحالی کا ذریعہ بنی تھی یا کہ کھیل عوامی رابطوں میں ارتعاش کا سبب تھا۔ اسی دور کی بات ہے کہ بانی پاکستان کی اکلوتی صاحبزادی پہلی بار پاک بھارت کرکٹ دیکھنے لاہور پہنچیں۔ کراچی میں قائد اعظم کے مزار پر حاضری دی اور تاریخ رقم کی۔

چاہیے تو یہ تھا کہ ایک ایسا کھیل جو جنوب ایشیائی ملکوں کے اندر موجود نسلی اکائیوں کو آپس میں جوڑتا ہے، خطے کے ممالک کو بھی آپس میں قریب لانے کا سبب بنتا۔ افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔ اس کے برعکس اپنی آبادی کے حجم اور اس سے جڑی معیشت کی بناء پر بھارت نے نا صرف خطے بلکہ آئی سی سی میں بھی اپنی اجارہ داری قائم کرنے کو ترجیح دی۔ کرکٹ کو خطے میں اپنے سیاسی مفادات کی آبیاری کے لئے استعمال کرنے کا آغاز کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ خود پاکستان سے کرکٹ تعلقات منقطع کیے ، بلکہ دیگر غیر ملکی ٹیموں کے پاکستان کے ساتھ روابط کی راہ میں روڑے اٹکائے جانے لگے۔

دو ملکوں کے مابین مخاصمت تو روزاول سے موجود رہی۔ کئی برسوں تک مگر سرحدوں پر تمام تر جھڑپوں، جنگوں کے باعث دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات سرد مہری کا شکار ہو جانے کے باوجود سرے سے کبھی منقطع نہیں ہوئے۔ دونوں افواج کے مابین بھی باہم احترام پر مبنی پیشہ ورانہ روابط برقرار رہے۔ مودی جی کے ہندوستان نے مگر صورتحال کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ چوڑی چھاتی، لمبی زبان اور نئی نئی دستیاب ہونے والی مالی آسودگی کے تکبر نے عوام میں ’سرجیکل سٹرائیکس‘ جیسے احمقانہ خبط کو فروغ دیا ہے۔

سینما کی سکرینوں پر ہیرو بھارتی عوام کو پاکستان میں ’گھس کر مارنے‘ کے خواب دکھاتے تو سینکڑوں آگ اگلتے ٹی وی چینلز پر ارناب گوسوامی گھر گھر نفرت پھیلانے لگے۔ کرکٹ تعلقات منقطع ہونے سے لے کر پاکستانی فنکاروں سے بدسلوکی، مضحکہ خیز سرحدی جارحیت اور کشمیر پر غاصبانہ قبضے تک انتہا پسندوں نے اتنی خلیج پیدا کردی ہے کہ جسے اب یوں پاٹنا آسان نہیں رہا۔

حال ہی میں کشمیر لیگ میں شمولیت کے لئے آنے والے غیر ملکی کھلاڑیوں پر آئی پی ایل کے دروازے بند کیے جانے کی برہنہ دھمکیاں دی گئیں۔ تاہم پندرہ سال بعد پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی نیوزی لینڈ کی ٹیم کو جس طرح بھارتی خفیہ ہاتھوں نے فیک نیوز کے ذریعے ہراساں اور بد گمان کیا گیا ہے اس پر جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے۔ بدقسمتی سے انتہا پسند اب بھارت میں ایک چھوٹا سا گروہ نہیں ہیں۔ صدیوں سے غلامی، غربت اور ذلت کا شکار رہنے والی جنتا اور اس میں سے ابھرنے والی نئی نئی مڈل کلاس مودی حکومت کی پشت پر کھڑی ہے۔

نو دولتیوں کا سا مزاج لئے گزشتہ دو عشروں میں ابھرنے والی اس مڈل کلاس سے وابستہ کچھ بھارتی، نیوزی لینڈ کی واپسی کے فیصلے کے بعد سوشل میڈیا بالخصوص ٹویٹر پر چند ’پاکستانیوں‘ کے ساتھ مل کر پاکستان پر پھبتیاں کستے اور دورے کی منسوخی کے جواز تراشتے دکھائی دیے۔ مغربی بود و باش کے نقال، چڑچڑا مزاج رکھتے، خطے کے ممالک کو حقارت سے دیکھتے اور خود کو گوروں کا ہم مزاج سمجھتے ہیں۔ مغربی ملکوں میں مگر حقارت سے ہی دیکھے جاتے ہیں۔

افسوس کہ جو کھیل جنوب ایشیا کے ممالک کو قریب لانے کا ذریعہ بن سکتا تھا بھارتی گھمنڈ اور مالی ہوس کا شکار ہو کر دو ملکوں میں ناقابل تلافی دوری کا سبب بن رہا ہے۔ بشن سنگھ بیدی کی ٹیم کو واہگہ بارڈر پار کرنے میں سترہ سال لگے تھے۔ گمان یہی ہے کہ اب کی بار دو ملکوں کو پہلے سے کہیں زیادہ برسوں کی ریاضت درکار ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments