خصوصی بچّوں کے والدین کے نام


یہ آرٹیکل خصوصی والدین کی آگاہی کے لئے شیئر کر رہی ہوں خاص طور سے ان کے لئے جنھوں نے کبھی سائنس نہ پڑھی ہو۔ اکثر Cerebral palsy یعنی ذہنی یا جسمانی معذور بچوں کے والدین صرف مہینہ دو مہینہ بچوں کی فزیوتھراپی کروا کر چھوڑ دیتے ہیں کہ ”جی کوئی فرق ہی نہیں پڑا“ یاد رکھئیے ایسے بچوں کی Rehabilitation یعنی بحالئی صحت کا باقاعدہ پروگرام طے کیا جاتا ہے۔ بچے کی جسمانی و ذہنی صلاحیتیں اور جہاں جہاں کام کی ضرورت ہو اس کے مطابق باقاعدہ پڑھے لکھے تربیت یافتہ Therapists یہ پلان بناتے ہیں اور اس کا رزلٹ ایک مہینے میں نہیں آتا۔ مسلسل تھراپیز کے کم از کم چھ ماہ بعد نظر آنا شروع ہوتا ہے۔

یہ بحالی کا کام اکثر تا عمر جاری رہتا ہے جس میں تھراپسٹ ضرورت کے مطابق تبدیلی لاتے رہتے ہیں۔ اکثر 2 سال کی مسلسل تھراپی کی کامیابی کے بعد ایک بار بخار آنے کی صورت میں بچہ پھر سے چھ ماہ پیچھے چلا جاتا ہے۔

ایسی صورت میں گھبرانے کے بجائے ہمت سے کام لیجیے۔ یہ بالکل بھی آسان کام نہیں ہے۔ نہ تھراپسٹ کے لئے نہ آپ کے لئے۔ جو بچہ نہ خود سے بول سکتا ہو نہ حرکت کر سکتا ہو نہ اپنی بات سمجھا پائے نہ آپ کی سمجھ پائے اس کے ساتھ بحالئی صحت کا کام یقیناً جان جوکھوں کا ہے۔ پٹھوں میں دماغ کے سگنل کم آنا یا ٹوٹ ٹوٹ کر وقفے کی صورت میں آنے کی وجہ سے ان کے اندر سختی پیدا ہوتی ہے جسے spasticity کہتے ہیں بعض اوقات یہ سختی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ایک اچھا خاصا ہٹا کٹا آدمی ان کے ہاتھ پیر نہیں کھول پاتا۔ جاہل لوگ اس کو جنات کا آ جانا کہتے ہیں۔ خود سوچئے ایک بچہ جو بول نہ سکتا ہو اپنی عجیب سی آواز میں resist کر رہا ہو اس کو جاہل جن نہ سمجھیں تو کیا سمجھیں؟

در حقیقت وہ بچہ احتجاج کر رہا ہوتا ہے کہ نہ کرو۔ کیوں نہ کرو کیونکہ بہر الحال تھراپی کرنے میں طاقت لگتی ہے ہمارے لئے اپنے پیروں پہ کھڑا ہونا بہت آسان ہے لیکن لرزتے کپکپاتے کمزور پٹھوں اور پیروں کے ساتھ کھڑا ہونا جبکہ ہاتھوں کہ گرفت بھی نہ ہو، نہایت مشکل کام ہے۔

اس کی مثال ایسے دوں کہ آپ ذرا دیر کے لئے سیدھا کھڑا ہونے کے بجائے بغیر سہارے اپنے دونوں گھٹنے موڑ کر کھڑے ہو جائیں بہ مشکل آپ 5 منٹ کھڑے ہو پائیں گے، بس یہ بچے اس وقت ایسا ہی محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔

لیکن مسلسل تھراپی کرنے سے ان سخت پٹھوں میں نرمی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ اور آہستہ آہستہ بچہ خود سے ہاتھ پیر موڑنے کی کوشش شروع کر دیتا ہے۔

بجائے پیر، فقیر، عاملوں اور مولویوں کے پاس بچوں کو لے جانے کے بچوں کا علاج کروائیے، یہ ایک ایسا مرض ہے جس کی بحالی کے لئے آپ کو تمام عمر کام کرنا ہو گا۔ اپنے ذہن میں یہ بات بٹھا لیجیے کہ 100 % کوئی بچہ ہماری طرح کبھی نہیں ہو پائے گا لیکن اگر محنت کرتے رہے تو بہت حد تک یا تقریباً بچہ خود مختار ہو جائے گا انشا اللہ

ایک خاص عمر کو پہنچنے کے بعد بچے کے اندر موجود صلاحیتوں پہ ہی کام کیا جاتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی بچہ بالکل ہاتھ یا پیر سیدھے نہ کر پائے اور کسی بھی وجہ سے اب وہ مزید سیدھے نہیں ہو پا رہے ہوں تو اسی میں دیکھا جاتا ہے کہ کس قدر بچہ زیادہ سے زیادہ اسی طرح ہاتھ یا پیروں سے خود مختار ہو سکتا ہے۔

کسی کے کہنے میں آ کر بچے کی تھراپی بند نہ کروائیں۔ اور جتنا جلد ممکن ہو یہ تھراپیز شروع کروا دینی چاہئیں۔

ارمنہ شاہ تربیت یافتہ مونٹیسوری ٹیچر ہیں جن کو Autistic اور Cerebral palsy کے بچوں کے ساتھ بھی کام کرنے کا تجربہ ہے اور وہ خود ایک Cerebral Palsy بچے کی ماں بھی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments