افغانستان میں طالبان: ہرات شہر میں طالبان کی جانب سے مبینہ اغواکاروں کی لاشوں کو ’عبرت کے لیے‘ سرعام لٹکانے کی اطلاعات


افغانستان
افغانستان کے شہر ہرات سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق طالبان نے سنیچر کو اغوا کے مقدمات میں مبینہ طور پر ملوث چار ملزمان کی لاشیں مختلف عوامی مقامات پر لٹکا دیں۔

ہرات کے ڈپٹی گورنر مولوی شیر احمد ایمار کے حوالے سے مقامی میڈیا نے بتایا ہے کہ طالبان نے ان تمام مبینہ اغوا کاروں کا پیچھا کر کے انھوں ایک مبینہ مقابلے میں ہلاک کیا ہے۔

انھوں نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے ان لاشوں کو ہرات کے مختلف چوکوں پر اس لیے لٹکایا تاکہ یہ دوسرے اغواکاروں کے لیے عبرت کا نشان بن سکیں۔‘

یہ انتہائی حولناک مظاہرہ طالبان کی مذہبی پولیس کے سربراہ کے بیان کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے جس میں واضح کیا گیا تھا کہ افغانستان میں اب سزائے موت اور ہاتھ کاٹنے جیسی سخت سزائیں دوبارہ دی جائیں گی۔

طلوع نیوز نے طالبان حکام کے حوالے سے بتایا کہ ان افراد نے ’ایک تاجر اور اس کے بیٹے کو اغوا کیا‘ اور ان کے اہلِ خانہ سے رقم کا مطالبہ کیا۔ خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا گیا ہے کہ ایک لاش کو کرین کے ذریعے شہر کے مرکزی علاقے میں لٹکایا گیا تھا۔

ایک مقامی دکاندار وزیر احمد صدیقی نے ایجنسی کو بتایا کہ چار لاشوں کو چوک میں لایا گیا، ایک کو لٹکا دیا گیا جبکہ دیگر تین لاشوں کی شہر کی مختلف چوکوں پر نمائش کی گئی۔

بی بی سی کی جانب سے آزادانہ طور پر ان افراد کے قتل کے محرکات سے متعلق تصدیق نہیں کی جا سکی ہے۔

15 اگست کو افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد سے طالبان اس بات کا اعادہ کر چکے ہیں کہ ان کا موجودہ دور اقتدار ماضی کے نسبت سخت نہیں ہو گا۔ البتہ ملک کے مختلف حصوں سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متعلق اطلاعات سامنے آئی ہیں۔

گذشتہ روز طالبان حکومت میں جیل خانہ جات کے انچارج ملا نورالدین ترابی نے ایسوسی ایٹیڈ (اے پی) نیوز کو بتایا تھا کہ ہاتھ کاٹنے جیسی سزائیں ’سکیورٹی کے لیے ضروری ہیں۔‘

طالبان

ان کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر اب یہ سزائیں سرعام نہیں دی جائیں گی جیسا کہ 90 کی دہائی میں طالبان کے سابقہ دور حکومت میں ہوتا تھا۔

تاہم انھوں نے ماضی میں سرعام پھانسی کی سزاؤں پر ہونے والی تنقید کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی کو ہمیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے قوانین کیا ہونے چاہییں۔‘

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے جمعہ کو کہا کہ امریکہ نے ایسی اطلاعات کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے جن میں دوبارہ ہاتھ کاٹنے جیسی سخت سزاؤں کی واپسی کی بات کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

افغانستان میں پھانسی اور ہاتھ کاٹنے جیسی سخت سزائیں دوبارہ دی جائیں گی: طالبان

کیا دھڑے بندی اور قبائلی تفریق افغانستان میں طالبان حکومت کو کمزور بنا رہی ہے؟

پاکستان آنے والے افغان پناہ گزین: ’طالبان خوفناک لوگ ہیں۔۔۔ ان کے سینوں میں دل نہیں‘

ادھر طالبان کے وزیر دفاع اور افغان طالبان کے سابق سربراہ ملا عمر کے بیٹے ملا محمد یعقوب نے تسلیم کیا ہے کہ عام معافی کے اعلان کے باوجود طالبان جنگجوؤں کی جانب سے شہریوں کے ’انتقامی قتل‘ کے واقعات پیش آئے ہیں۔

گذشتہ ہفتے ہی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی کہا تھا کہ طالبان نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے تحفظ اور احترام کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔

ادارے کے ڈپٹی ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا دینوشیکا دیسانیاکے نے کہا تھا کہ ‘ہم نے تشدد کی لہر دیکھی ہے جس میں بدلے کے لیے حملے، خواتین پر پابندیاں، اور مظاہروں، میڈیا اور سول سوسائٹی کے خلاف کریک ڈاؤن شامل ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments