عثمان مرزا کیس: جوڑے کو جنسی ہراس کے بعد برہنہ کر کے تشدد کیا گیا اور ویڈیو وائرل کر دی گئی، پولیس چالان


پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون کے ایک فلیٹ میں لڑکا اور لڑکی کو جنسی طور پر ہراساں کرنے، ان کی برہنہ ویڈیو بنانے اور انھیں جنسی عمل پر مجبور کرنے کے مقدمے میں پولیس نے تفتیش مکمل کر کے مقامی عدالت میں چالان جمع کروا دیا ہے۔

پولیس کی جانب سے اس مقدمے کی تفتیش میں بھی عثمان مرزا کو مرکزی ملزم قرار دیا گیا ہے۔

پولیس کی جانب سے سنیچر کے روز مقامی عدالت میں جمع کروائے گئے چالان میں کہا گیا ہے کہ ’ملزم عثمان مرزا نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے اسلحہ کے زور پر نہ صرف اس جوڑے کو برہنہ کیا بلکہ انھیں اس حالت میں تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔‘

پولیس کے چالان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’ملزمان نے جوڑے کی برہنہ حالت میں ویڈیو بھی بنائی جو کہ بعد ازاں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دی گئی۔‘

بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق پولیس کی طرف سے متعقلہ عدالت میں اس مقدمے کا چالان جمع کروانے کے بعد عدالت نے ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے 28 ستمبر کی تاریخ مقرر کی ہے۔

پولیس چالان میں کیا کیا انکشافات کیے گئے ہیں؟

ایس ایس پی انوسٹیگیشن عطا الرحمان کی سربراہی میں قائم ہونے والی پولیس کی ٹیم نے اپنے تفتیشی چالان میں کہا ہے کہ عثمان مرزا نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے نہ صرف انھیں حبس بےجا میں رکھا بلکہ ان کو زنا کرنے پر بھی مجبور کیا۔

پولیس کی تفتیشی ٹیم نے اس چالان میں متاثرہ لڑکی اور لڑکے کے بیانات کو بھی ریکارڈ کا حصہ بنایا ہے جو انھوں نے مقامی مجسٹریٹ کے سامنے دیے تھے۔

مجسٹریٹ کے سامنے متاثرہ لڑکی نے اپنے بیان میں کہا کہ ’ملزم عثمان نے اسے اپنے منگیتر کے ساتھ جنسی عمل کرنے کا کہا اور ایسا نہ کرنے پر اجتماعی زیادتی کرنے کی دھمکی دی۔‘

متاثرہ لڑکی کے بیان کے مطابق ملزم عثمان کے دوست بھی یہی دھمکی دی رہے تھے۔

واضح رہے کہ اس مقدمے کے مرکزی ملزم عثمان مرزا، محب بنگش، ادریس قیوم بٹ، فرحان شاہین اور عطا الرحمن اڈیالہ جیل میں ہیں جبکہ عمر بلال مروت ضمانت پر ہیں۔

اس چالان میں پولیس نے لڑکی کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’کمرے میں موجود زیادہ تر افراد نے اس کے منگیتر پر تشدد کیا اور اسے برہنہ ہونے پر مجبور کیا، جس کے بعد ملزمان نے انھیں آپس میں جنسی عمل کرنے پر بھی مجبور کیا۔‘

متاثرہ لڑکی نے بیان میں یہ بھی کہا کہ ’کمرے میں موجوہ افراد اس کے جسم کے مختلف حصوں کو چھوتے رہے اور اس کے ساتھ ساتھ ویڈیو بھی بناتے رہے۔‘

جنسی ہراساں

پولیس نے مرکزی ملزم عثمان مرزا کے بیان کو بھی چالان کا حصہ بنایا ہے جس میں انھوں نے دوران تفتیش پولیس کے سامنے انکشاف کیا کہ 18 اور 19 نومبر 2020 کی درمیانی رات میں یہ ویڈیو بنائی گئی تھی۔

پولیس کی جانب سے اس مقدمے کی تفتیش کے بعد جو چالان عدالت میں پیش کیا گیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ملزم کی نشاندہی پر ویڈیو بنانے والا موبائل فون اور ڈرانے کے لیے استعمال کیا گیا پستول برآمد کر لیا گیا ہے۔

اس چالان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملزم اس پستول کا لائسنس پیش نہیں کر سکا جس پر الگ سے غیر قانونی اسلحہ رکھنے کا ایک اور مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

اس چالان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دوران تفتیش ملزم عمر بلال نے انکشاف کیا کہ عثمان مرزا کے کہنے پر متاثرہ لڑکے اور لڑکی سے 11 لاکھ 25 ہزار روپے لیے، جس میں سے چھ لاکھ روپے عثمان کو دیے گئے جبکہ باقی رقم دیگر ساتھیوں میں تقسیم کی گئی۔

یہ بھی پڑھیے

عثمان مرزا کیس: ’ملزمان نے برہنہ کر کے ڈھائی گھنٹے تک ویڈیو بنائی‘

’ہماری اجتماعی ناکامی ہے کہ انصاف کے لیے ویڈیو وائرل ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے‘

عثمان مرزا کیس: ملزمان کا ویڈیو بنانے کا اعتراف، بھتے کی رقم واپس دینے پر رضامندی

اس چالان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ رواں برس چھ جولائی کو سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس نے اپنی مدعیت میں تھانہ گولڑہ میں ایف آئی آر درج کر کے کارروائی کا آغاز کیا تھا۔

ایس ایس پی انوسٹیگیشن عطا الرحمان کے مطابق اس جوڑے نے سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد شادی کر لی ہے۔

پولیس کے مطابق وقوعہ سے پہلے ان دونوں کی منگنی ہو چکی تھی اور لڑکی نوکری کے لیے انٹرویو دینے کے سلسلے میں لاہور سے اسلام آباد آئی تھی۔

پولیس کے مطابق لڑکی نے اپنے منگیتر سے کہا تھا کہ وہ اس کی رہائش کا بندوبست کرے، جس کے بعد متاثرہ لڑکے نے اپنے دوست سے کہہ کر کچھ دیر کے لیے فلیٹ کی چابی لی جو کہ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ فلیٹ ملزم عثمان مرزا کی ملکیت ہے۔

خیال رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اس واقعے کا نوٹس لیا تھا اور اسلام آباد پولیس کے سربراہ کو طلب کر کے انھیں ہدایت کی تھی کہ وہ خود اس مقدمے کی تفتیش کی نگرانی کریں۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اس واقعے میں ملوث ملزمان کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments