اچھی فلم کیسے بنائیں؟


برصغیر پاک و ہند کے غیور لوگ یا تو فلموں کے شائق ہوتے ہیں یا خود چھوٹی موٹی فلم ہوتے ہیں۔ اچھے زمانوں میں فلم بنانا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا تھا۔ ایک خوبرو، تندرست عفیفہ، ڈاڑھی مونچھ منڈا ایک لمڈا اور پوری دنیا پر حکومت کرنے کے منصوبے بنانے والا ایک عجیب الخلقت ڈان۔ یہ تین چیزیں لے کر ان میں عفیفہ کی غربت، لمڈے کی خودداری اور ڈان کی بے غیرتی شامل کردی جاتی تھی۔ حسب خواہ شائقین کا دل بہلانے کو ایک آدھ مسخرہ (ہماری ضرورت ہر دور میں رہی ہے ) ، رقص و سرود، بیمار ماں، چالاک سہیلی، وفادار دوست، کالج کا غائب دماغ پروفیسر، ڈان کا خصوصی چمچہ بھی ہوتا تھا۔ یہ سب چیزیں فلم کے ڈبے میں ڈال کر زور زور سے ہلائی جاتی تھیں تاکہ ایسے یکجان ہوجائیں جیسے جامن ڈبے میں نمک سمیت ڈال کر ہلانے سے جامن اور نمک یکجان ہو کر ”جمو راء کالے“ (یہاں راء سے مراد وہ والی را نہیں ) بن جاتے ہیں۔

ان اجزاء میں سب سے دلچسپ عفیفہ ہوا کرتی تھیں۔ ان کے والدین میں سے ایک دائمی مریض ہوتا تھا جو ہر وقت چارپائی پر پڑا کھانستا رہتا تھا اور پانی پانی پکارتا تھا اور دوسرا محنت مزدوری کر کے گھر کا خرچ، بیمار کی دوائی اور عفیفہ کے زرق برق ملبوسات، بھاری بھرکم زیورات اور سات کلو یومیہ میک اپ کا خرچ اٹھا تا تھا۔ عفیفہ کالج بھی جاتی تھیں۔ گھر سے نکلتے ہوئے میڈم فرحت ہاشمی کی طرح چادر میں لپٹی ہوتی تھیں۔ رستے میں لچے لفنگے ان کے حسن بے پناہ سے متاثر ہو کر سیٹیاں وغیرہ بھی مارا کرتے تھے۔ یہی عفیفہ جب کالج پہنچتی تھیں تو یویو ہنی سنگھ کے گانے کی ماڈل بن جاتی تھیں۔ اب کی بار سیٹیاں فلم بین بجاتے تھے۔ یہیں عفیفہ کی ملاقات لمڈے سے ہوتی تھی جو فلم کے اختتام پر دنیا کو تباہ ہونے سے بچاتا تھا۔

عفیفہ کے گھریلو اور مدرسی ملبوسات میں وہی فرق ہوتا تھا جو آخری روزے اور عید کے دن مسلمانوں کے جذبات میں ہوتا ہے۔ گھر میں سفید دوپٹہ سے سر اور دیگر اشیاء کو اچھی طرح ڈھانپے ہوئے مٹی کے چولہے پر روٹیاں پکاتی ہوئی عفیفہ، کالج میں جاتے ہی ایسی ساڑھی میں ملبوس ہوجاتی تھیں جس کے بارے غالب کہہ گئے ہیں ؎

آفریں اس دو گرہ کپڑے کی قسمت
جس کی قسمت میں ہو عفیفہ کا بلاؤز ہونا

کندھوں سے کمر کے خم تک صرف ایک ڈوری سے ستر پوشی کی اس سے عمدہ مثال ملنی مشکل ہے۔ عفیفہ پر موسمی حالات بھی اثر نہیں کرتے تھے۔ برفباری میں بھی عفیفہ ایسے کپڑے پہن کے رقص کرتی تھیں جس سے ان کی سردی دور ہو نہ ہو، فلم بینوں کے کانوں سے دھوئیں اٹھنے لگتے تھے۔ جملہ فنون جیسے کھانا پکانا، پڑھائی، سلائی وغیرہ کے علاوہ عفیفہ کی رقص میں مہارت بھی قابل صد تحسین ہوتی تھی۔ لمڈے بھائی کے ساتھ تو ان کا رقص قابل دید ہوتا ہی تھا لیکن فلم کی آخری ریلوں میں ڈان کے اڈے پر ان کے سب ہم نفسوں کے سامنے بھی عفیفہ جان توڑ کے ناچتی تھیں۔ جبکہ لمڈے بھائی ان کو سختی سے منع بھی کرتے تھے کہ۔ عفیفہ۔ ان کتوں کے سامنے مت ناچنا۔ لیکن جیسا کہ ہمیں علم ہے کہ فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور نہ ہی فن، موقع محل دیکھتا ہے۔ ناچنا شروع کر دیتا ہے۔

عفیفہ کی ایک خوبی اور بھی تھی۔ یہ جب بھی مہین لباس میں ہوتی تھیں تو یک دم بارش شروع ہوجاتی تھی جس کی وجہ سے انہیں مجبور اً توبہ شکن رقص و سرود کا مظاہرہ کرنا پڑتا تھا۔ سنا ہے اگلے زمانوں میں راگ گانے سے بارش ہونے لگتی تھی۔ عفیفہ راگ کے ساتھ رنگ شامل کر کے اسے رنگین بنا دیتی تھیں۔

فلم میں ہیرو اتنا ہی ضروری ہے جتنے زندگی میں خواب۔ خوابوں کے بغیر زندگی گزر تو جاتی ہے لیکن کافی بورنگ ہوتی ہے۔ تو ہمارے لمڈے بھائی زیادہ تر یتیم اور لاوارث ہوتے تھے لیکن کہیں نہ کہیں سے ان کو ایک بہن مل ضرور جاتی تھی۔ جس کی عزت و عصمت کی حفاظت ان کی زندگی کا لائحہ عمل ہوتی تھی لیکن لمڈے میاں عفیفہ سے سرعام وہی حرکات کرتے پائے جاتے تھے جن سے وہ اپنی بہن کو محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔ خیر یہ تو فلم ہے۔ اس میں ایسا ہی ہوتا ہے۔

لمڈے میاں کو کبھی کبھار بذریعہ لاکٹ یا ایک عدد جذباتی، نیر سلطانوی گانے کی بدولت ایک بھائی بھی فلم کے آخر میں مل جاتا تھا۔ یہ والا بھائی زیادہ تر ڈان کا دایاں ہاتھ ہوتا تھا اور ساری فلم میں لمڈے بھائی کو ناکوں چنے چبواتا رہتا تھا۔ لیکن عین اس وقت جب ڈان انکل ہیرو کا رام نام ست کرنے لگتے تھے تو کوئی ناہنجار پرانا جذباتی گانا بجانا شروع کر دیتا تھا جس سے دونوں بھائی ایک دوسرے کو پہچان لیتے تھے اور اتفاق میں برکت کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے ڈان انکل اور ان کے کارندوں کو گدڑ کٹ لگا کر رقص کرتی ہوئی عفیفہ کو بصد مشکل روکتے تھے کہ رقص موقوف کردو پارو۔ سب وفات پا گئے ہیں۔

لمڈے میاں کی بندوق بھی سٹیٹ آف دی آرٹ ہوتی تھی۔ لکڑی کی بندوق ہونے کے باوجود اس میں لامتناہی گولیاں ہوتی تھیں اور ڈان انکل کے تقریباً تئیس ہزار کن ٹٹوں کو جہنم رسید کرنے کے بعد اس کی گولیاں عین اس وقت ختم ہوتی تھیں جب وہ ڈان انکل کو گولی مارنے لگتے تھے۔ ڈان انکل کے پستول سے نکلی ہوئی ستائیس گولیوں کو گیڑا کرانے کے بعد جب پستول خالی ہوجاتا تھا تو لمڈے میاں ان کو مکوں اور ٹھڈوں سے خوب پیٹتے تھے اور آخر کار ڈان انکل کو کسی بانس وغیرہ میں پرو کر جہنم واصل کرتے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بندوق میں ایک گولی اضافی ہو تو کافی اٹھا پٹخ سے نجات مل سکتی ہے۔

بہر کیف لمڈے میاں کی غربت اور خودداری کے باوجود ان کے ڈیزائنر سوٹ، چشمے اور جوتوں سے فلم بینوں کو اخلاقی سبق ملتا تھا کہ کبھی ہمت نہ ہاریں اور ہمیشہ اس بات پر یقین رکھیں کہ۔ ایک دن آپ بھی کسی فلم میں لمڈا بن جائیں گے۔

ڈان انکل فلم کا اٹوٹ انگ ہوا کرتے تھے۔ ان کے عالیشان محل نما اڈے میں توبہ شکن حسیناؤں اور صورت حرام گن مینوں کی تعداد یکساں ہوتی تھی۔ ڈان انکل اتنی دلرباؤں کی ہم نشینی کے باوجود لمڈے میاں کی کیوٹ سی گھریلو بہن پر جی جان سے عاشق ہو جایا کرتے تھے اور ہر حال میں ان کے ساتھ ویسے ڈوئیٹ گانے کی خواہش رکھتے تھے جیسے لمڈے میاں اور عفیفہ اکثر و بیشتر جذباتی ہوکے گاتے تھے۔ لیکن لمڈے میاں ایک غیرت مند بھائی تھے اور ڈان انکل کی ایسی خواہشات کے سامنے سد راہ ثابت ہوتے تھے۔

ڈان انکل کے ٹھوس و مائع منشیات، اسلحہ، اغواء برائے پیار، جوا، کنسٹرکشن، شپنگ کے علاوہ ہوٹلز کے بزنس بھی تھے۔ آپ ہر وقت ایک ہاتھ میں ارغوانی مشروب کا گلاس اور دوسرے ہاتھ میں ناکافی لباس والی حسینہ کی کمر تھامے رہتے تھے۔ یہ سب ہونے کے باوجود ڈان انکل کا غصہ ہر وقت عروج پر رہتا تھا۔ جس کو ٹھنڈا کرنے کے لیے حسینائیں وقتاً فوقتاً ہیجانی رقص پیش کرتی تھیں۔ ڈان انکل اتنے بے وقوف ہوتے تھے کہ یہ سب موجود ہونے کے باوجود دنیا پر حکومت کرنے کے منصوبے بناتے رہتے تھے۔ اگر ان میں ذرا سی بھی سمجھداری ہوتی تو بل کلنٹن سے سبق حاصل کرتے جو بے چارے ایک حسینہ کے ساتھ نام آنے پر کھجل ہوتے رہے جبکہ ڈان انکل تو ایسی کھے پوری فلم میں کھاتے رہتے تھے۔

ڈان انکل کو ایک مجہول سا ثمر مبارک مند نما سائنسدان بھی مل جاتا تھا جو انہیں دنیا پر حکومت کرنے کے لیے وڈا بمب بنا دیتا تھا۔ عین اس وقت جب ڈان انکل دنیا پر حکومت کرنے کے لیے تقریباً تیار ہوتے تھے انہیں لمڈے بھائی کی کیوٹ سی بہن یاد آجاتی تھی اور وہ اسے اغوا برائے پیار کروا لیتے تھے۔ اس بھرشٹا چار سے مجبور ہو کر لمڈے بھائی اپنی بندوق نکال کے ڈان انکل کے اڈے پر دھاوا بول دیتے تھے۔ جہاں ڈان انکل نے لمڈے کی بہن کو ایک ستون کے ساتھ باندھا ہوا ہوتا تھا۔ اور کسی عجیب و غریب وجہ سے عفیفہ بھی وہاں اپنی مشہور زمانہ ڈوری والی ساڑھی کے ساتھ آخری رقص عرف ”ان کتوں کے سامنے مت ناچنا“ ، پیش کرنے کے لیے تیار ہوتی تھیں۔ جیسے ہی عفیفہ کا گانا ختم ہوتا تھا، لمڈے میاں کی بندوق گولیاں اگلنے لگتی تھی۔ یہ ساری لپا ڈکی دس بارہ منٹ جاری رہنے کے بعد ڈان انکل کو کسی سٹیل راڈ یا بانس میں پر و دینے پر ختم ہوتی تھی۔ اور عفیفہ و لمڈے سمیت سب لوگ باقی زندگی ہنسی خوشی بور رہنے لگتے تھے۔

جعفر حسین
Latest posts by جعفر حسین (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

جعفر حسین

جعفر حسین ایک معروف طنز نگار ہیں۔ وہ کالم نگاروں کی پیروڈی کرنے میں خاص ملکہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بہت سنجیدہ انداز میں تاریخ گھڑتے ہیں

jafar-hussain has 113 posts and counting.See all posts by jafar-hussain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments