مہرانو: خیرپور کے تالپور خاندان کی شکار گاہ جنگلی حیات کی پناہ گاہ کیسے بنی؟


شام ڈھل رہی تھی، ڈوبتے سورج کی زردی نے جنگل میں بھی گویا سونا بکھیر دیا تھا۔ ایسے میں ایک حیران کن نظارہ سامنے تھا۔ ایک گرد و غبار کا بادل سا چاروں طرف پھیل رہا تھا اور بہت سے جانوروں کی سرپٹ دوڑنے کی آوازیں آ رہی تھی۔ یہ سینکڑوں کی تعداد میں جنگلی سور تھے جو تھوتھنیاں اٹھائے بگٹٹ دوڑے چلے آرہے تھے۔

ان کا رکھوالا احسان علی ایک مخصوص انداز میں آواز نکال رہا تھا۔ یہ سور جو اس مخصوص آواز کو پہچانتے تھے جنگل کے کونے کونے سے دوڑے چلے آ رہے تھے۔ یہ ان کے کھانے کا وقت تھا۔ احسان علی نے بڑے بڑے کونڈوں میں ان کے لیے اناج ڈالا اور وہ سب کھانے میں مشغول ہو گئے۔

یہ منظر جنگلی حیات کی پناہ گاہ ‘مہرانو’ میں روزانہ دیکھا جا سکتا ہے۔

یہی نہیں بلکہ اسی پناہ گاہ میں واقع ایک کچے اور اندھیرے کمرے میں داخل ہوں تو وہاں نصب کھڑکی پر پڑے ٹاٹ کے پردے کی دوسری جانب جو نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے اس کی مثال بھی مشکل ہی ملتی ہے۔ گھنے جنگل کے کنارے واقع ایک وسیع وعریض جھیل کے پانیوں پر پرندوں کی ڈاریں قطار اندر قطار اترتی دیکھی جا سکتی ہیں اور اس منظر سے نظر ہٹانے کے بعد بھی کانوں میں ان کی چہکار گونجتی رہتی ہے۔

‘مہرانو’ کیا ہے!

‘مہرانو’سندھ کے شہر خیرپور سے 29 کلومیٹر کے فاصلے پرایک مربع میل یا تقریباً 700 ایکڑ رقبے پر مشتمل مہرانو کو خیرپور کے حکمراں میر مراد علی دوم کا وہ خواب ہے جہاں لاکھوں جانور اور پرندے قدرتی ماحول میں پرورش پا رہے ہیں۔

وسیع رقبے پر قائم یہ نجی پناہ گاہ گھنے جنگل، جھیلوں، انواع و اقسام کے قدیم درخت، قد آدم گھاس کے قطعات پر مشتمل ہے جن میں جانور دوڑتے بھاگتے اور قلانچیں بھرتے ہرن باآسانی نظر آتے ہیں۔

یہاں باقاعدہ ایک گھنا جنگل بھی ہے جہاں گھنے درخت، قد آدم گھاس جسے کبھی نہیں کاٹا جاتا اور اس کے اندر پھلتے پھولتے نایاب جانور موجود ہیں۔ دور دور تک جنگل اور جانوروں کا نظارہ کرنے کے لیے جیپ کے کئی راستے اس جنگل کے مرکز میں جاتے ہیں جہاں ایک چھوٹا کثیر المنزلہ شکار لاج ہے جس کی چھت سے جنگل کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔

اس وسیع قدرتی پناہ گاہ میں موجود جانوروں میں ہرنوں کی کئی اقسام مثلا چنکارہ، پھاڑا اور کالے ہرن شامل ہیں جو اس پورے خطے میں نایاب ہپں اور انھیں معدومیت کا خطرہ لاحق ہے۔ اس کے علاوہ یہاں جنگلی سوروں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ پاکستان میں ایسے سوروں کی آخری پناہ گاہ ہے جہاں ان کی افزائش ہو رہی ہے۔

مہرانو پاکستان میں پھاڑا ہرن (ہاگ ہرن) کا آخری گڑھ بھی ہے۔ اس ہرن کا سندھ میں کھال اور گوشت کے لیے بےرخمی سے شکار کیا گیا لیکن اب مہرانو میں اس کی نسل بلا خوف و خطر پروان چڑھ رہی ہے۔

مہرانو کے محافظوں کا کہنا ہے کہ یہ پناہ گاہ سائبیریا سے آنے والے پرندوں کا ایک پسندیدہ مسکن بھی ہے اور یہاں ایک لاکھ سے زیادہ ایسے پرندے دیکھے گئے ہیں۔

یہاں جنگل میں جانور اور خصوصا پرندوں کو دیکھنے کے لیے کئی خفیہ کمرے موجود ہیں جہاں کھڑکیوں پر موٹے موٹے پردے لگے ہیں جن میں موجود سوراخوں سے باہر کا نظارہ کیا جاتا ہے۔ آنے والوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ خاموشی سے دبے قدموں چلیں تاکہ جانور اور پرندوں کی زندگی میں خلل نہ پڑے۔

شکارگاہ سے پناہ گاہ تک

خیرپور اور اس کے گردونواح کا علاقہ جنگلی حیات کی بہتات کے باعث مشہور تھا اور تالپور خاندان یہاں آباد ہی اس لیے ہوا تھا کہ اس کے ارکان کو شکارسے بہت دلچسپی تھی۔ مہرانو کے ارد گرد کا علاقہ شکار کے لیے ان کی جولاں گاہ تھی۔ خیرپور کے ایک بزرگ حمید الدین اپنی یادداشت کو تازہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’یہاں اتنے جانور تھے کہ اگر شکاری آنکھ بند کر کے بھی گولی چلاتا تو کوئی نہ کوئی جانور نشانہ بن جاتا۔‘

خیرپور کے حکمران میر مراد علی تالپور دوم وہ حکمران تھے جنھوں نے اپنے آبا و اجداد کے برعکس جانوروں کے شکار کے بجائے ان کے تحفظ کو ترجیح دی۔

یہ بھی پڑھیے

جنگلی حیات اب شہروں میں کیسے رہتی ہے

’جنگلی حیات میں چار دہائیوں میں 58 فیصد کمی‘

انھیں ادراک تھا کہ ایک صحت مند ماحولیاتی نظام کے لیے جانوروں کا قدرتی ماحول میں موجود ہونا بہت ضروری ہے اور یہ بے دریغ شکار بہت جلد اس ایکو سسٹم کو برباد کر دے گا لہٰذا پہلے قدم کے طور پر انھوں نے اپنے خاندان کی شاہی شکارگاہ کو جنگلی حیات کی پناہ گاہ میں تبدیل کر دیا۔

یہ علاقہ میر مراد اول( 1790)کے دور سے شکارگاہ چلا آرہا تھا اور دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ اس کی تقدیر بدلنے کا سہرا بھی ایک مراد ہی کے سر بندھا جس نے مہرانو کو جنگلی حیات کی پناہ گاہ قرار دے کر ہر قسم کے شکار پر پابندی عائد کر دی اور یہاں درخت اور گھاس تک کی کٹائی پر پابندی لگا دی گئی۔ یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ اس جنگل کے اردگرد سے بہت سے دیہات بھی منتقل کیے گئے تاکہ انسانی شوروغل اور مداخلت جانوروں پر اثرانداز نہ ہو۔

میر مراد علی سندھ وائلڈ لائف مینیجمنٹ بورڈ کے چیئرمین بھی رہے اور علاقے میں کم ہوتی جنگلی حیات کو دیکھتے ہوئے انھوں نے صرف مہرانو کو ہی نہیں بلکہ 1974 میں قریبی نارا ریگستان اور کوٹ ڈیجی کے علاقے ٹکر کو بھی وائلڈ لائف پناہ گاہ قرار دیا تھا۔

مہرانو اور کالا ہرن

مہرانو کا ذکرکالے ہرن (Antilope cervicapra) کے بغیر ادھورا ہے۔

تاریخی شواہد موجود ہیں کہ پاکستان کے صحرائی اور میدانی علاقوں میں یہ جانوربکثرت پایا جاتا تھا۔ تالپوروں کے علاقے خصوصا خیرپور اور اس کے گردونواح میں اس کی بہت بڑی آبادی تھی۔

جنگلی حیات کے تحفظ کے ادارے سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ سے وابستہ ڈپٹی کنزرویٹر عدنان حامد خان کے مطابق بے دریغ شکارسے کالے ہرن کی آبادی کم ہوتی چلی گئی اور ایک وقت یہ بھی آیا کہ یہ ناپیدی کے قریب پہنچ گیا۔

غالبا 1935 میں امریکہ کی ریاست ٹیکساس کو خیرسگالی کے طور پر کچھ کالے ہرن بطور تحفہ بھیجے گئے تھے جہاں یہ قدرتی ماحول میں پھلتے پھولتے رہے اور ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی جبکہ پاکستان میں اس خوبصورت جانور کے اندھا دھند شکار سے اس کی نسل کو بقا کا خطرہ لاحق ہو گیا اور یہ کہیں اکا دکا اور خال خال ہی نظر آتے تھے۔

پھر حکومت پاکستان کی درخواست پر ٹیکساس کی حکومت نے کالے ہرن کے کچھ جوڑے پاکستان واپس بھیجے تاکہ ان کی از سرِ نو افزائش ہو سکے۔ 1985میں 13 کالے ہرن پاکستان آئے جنھیں کھیرتھر نیشنل پارک کے کھار سینٹر میں چھوڑا گیا جبکہ 1989 میں مزید 12 ہرن میر مراد علی تالپور کو بطور تحفہ دیے گئے جنھیں مہرانو میں چھوڑا گیا اور آج ان ہرنوں کی تعداد بڑھ کر 1500 تک پہنچ چکی ہے۔

وزارت موسمیاتی تبدیلی سے وابستہ سابق سینیئر افسر عبدالمناف قائم خانی کے مطابق ’مہرانو جنگلی حیات کے تحفظ کے حوالے سے انتہائی اہم ہے لیکن وہاں اصل کارنامہ بقا کے خطرات سے دوچار کالے ہرن اور پھاڑا( ہاگ ڈیئر) کی افزائش اور ان کی نسل کو مستحکم کرنے کا کیا گیا ہے۔‘

کالے ہرن کا قدرتی مسکن پاکستان، انڈیا اور نیپال ہے۔ یہ وہی جانور ہے جس کے شکار پر 2018 میں انڈیا کی ریاست راجستھان کے شہر جودھ پور کی مقامی عدالت نے اداکار سلمان خان کو پانچ سال قید اور دس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

مہرانو میں پھلتی پھولتی جنگلی حیات

کالے ہرن کے علاوہ مہرانو میں دنیا کے کئی نایاب جانور اپنی افزائش نسل میں مصروف ہیں۔

خیرپور کے شاہی خاندان کے ایک رکن میر ذوالفقار علی تالپور کے مطابق مہرانو میں پائے جانے والے ممالیہ میں چنکارہ، پھاڑا، جنگلی سور، گیدڑ، نیولا، خار پشت، چوہوں کی بہت سی انواع، جنگلی بلی اور اود بلاﺅ شامل ہیں۔

جبکہ مہرانو کی جھیل اور اس کی فضا میں چہچہانے والے پرندوں میں نیل سر، بطخوں کی بہت سی انواع بشمول لال سر بطخ، کھٹ کھٹ بڑھئی، ہدہد، نیل کنٹھ ، چھوٹا ماہی خور، مگس گیر، کوئل ، سرخ کوئل ، ہرا طوطا، ابابیل، الو، کبوتر، ہریل کبوتر، مرغابیوں کی کئی انواع، ٹیٹری، چیل ، لال چیل، شکرا، ، میدانی عقاب، بگلہ، بھورا تیتر ، کالا تیتر، بٹیر، لٹورا اورکوّا شامل ہیں۔

اس کے علاوہ جگنو، تتلیاں، بھنورے اور بے شمار رینگنے والے جانور اور کیڑے مکوڑے پائے جاتے ہیں۔

اب مہرانو کی دیکھ بھال میر مراد علی تالپور کے صاحبزادے میر مہدی رضا کرتے ہیں جبکہ سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ انھیں تکنیکی مدد فراہم کرتا ہے۔

ایک انٹرویو میں میر مہدی رضا نے کہا تھا کہ ’مہرانو صرف ہمارا ہی نہیں پورے سندھ کا اثاثہ ہے۔ ہم نے ناپید ہونے والے جانوروں کی نسل کو بڑھایا ہے اور سندھ کے ماحولیاتی وسائل کو محفوظ کیا ہے۔‘

مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں جانور اور پرندے بقا کے خطرے سے دوچار ہیں، مہرانو جیسے کامیاب تجربے کو دہراتے ہوئے ایسی بہت سی نجی پناہ گاہیں قائم کی جاسکتی ہیں جہاں جانور قدرتی ماحول میں اپنی نسل بڑھا کر خطرے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments