طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا مطلب


آج انسان اپنی تاریخ کے سب سے زیادہ مترقی و متمدن مقام پر کھڑا ہے جہاں حکمرانی جیسے بڑے کام تو بہت دور جانوروں کے شکار اور درختوں کی کٹائی کے لئے بھی اصول وضع ہیں اور یہی صحیح اور غلط کا فرق، قوانین، قواعد اور اصول ہی ہیں جو انسان کو معراج بخشتے ہیں۔

آج دنیا میں یہ بحث جاری ہے کہ افغانستان میں ناجائز طور پر بزور طاقت مسلط ہوئی طالبان حکومت کو تسلیم کیا جائے یا نہیں اگر تسلیم کیا جائے تو کن شرائط پر اور اگر تسلیم نہ کیا جائے تو کیوں؟

میں اس سلسلے میں اپنا نقطہ نظر پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اس لئے نہیں کہ صاحبان اقتدار و اختیار جہاں، میرے نظریے سے متاثر ہو کر اپنا نظریہ اور مفاد چھوڑ کر میرے نظریے کو اپنا لیں گے بلکہ صرف اس لئے نقار خانے میں یہ صدا بلند کرنا چاہتا ہوں کہ کل کو اپنے ضمیر کی ملامت کرنے والی ضرب سے محفوظ رہ سکوں اور یہ اطمینان ہو کہ انسانیت اور جمہوریت کو درپیش چیلنج کے حل کے طور پر میں جو کچھ درست سمجھتا تھا وہ میں نے پیش کر دیا۔

میرا یہ خیال ہے کہ افغانستان میں ناجائز طور پر بزور طاقت مسلط ہوئی طالبان حکومت کو دنیا کا کوئی بھی ملک کسی بھی صورت تسلیم نہ کرے اور نہ ہی کوئی ملک اس حکومت سے کسی قسم کا کوئی تعاون کرے بلکہ تمام چھوٹے بڑے ممالک طالبان کی غیر قانونی و ناجائز حکومت سے ہر قسم کا تعاون منقطع کرنے کے ساتھ ساتھ روابط بھی ختم کریں۔

یقیناً یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس موقف کی وجہ؟ کیوں دنیا طالبان حکومت کو تسلیم بھی نہ کرے، تعاون بھی نہ کرے اور روابط تک منقطع کر دے، کیوں؟

اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ طالبان افغانستان کے اقتدار پر غیر قانونی اور ناجائز طریقے سے بزور شمشیر قابض ہوئے ہیں، اور ان ناجائز قابضین نے اس ملک کا نام تبدیل کیا، پرچم تبدیل کیا، منتخب پارلیمان کو اور منتخب سربراہ مملکت کو برطرف کر کے عوام کا حق حکمرانی قطع کیا ہے، یہ بہت بڑے جرائم ہیں، یہ جرائم متمدن جمہوری دنیا میں ناقابل قبول جرائم ہیں ان جرائم کی وجہ سے دنیا کے ہر ملک کو چاہیے کہ وہ کسی بھی صورت افغانستان کے اقتدار پر طالبان کے غیر قانونی و ناجائز قبضہ کو تسلیم نہ کریں۔

وجہ ثانیہ یہ ہے کہ آج افغانستان میں طالبان کی غیر قانونی اور ناجائز طور پر بزور شمشیر قائم شدہ حکومت کو تسلیم کرنے سے دنیا بھر کے باغی، ناجائز، غیر قانونی، غنڈہ اور ڈاکو اور مافیا گرہوں کو یہ پیغام جائے گا کہ اگر آپ اتنی طاقت پیدا کر لیں کہ دنیا کے کسی بھی ملک کا تختہ بزور قوت الٹ دیں تو یہ درست ہو گا اور ہم آپ کو تسلیم کریں گے اور آپ اتنے ہی قابل عزت ہوں گے جیسے کوئی بھی جائز، قانونی اور عوامی مینڈیٹ سے قائم حکومتیں۔

کل کو اگر امریکہ میں، برطانیہ میں، فرانس، جرمنی، جاپان، ملائیشیا، چین، کوریا، ہندوستان، پاکستان یا کسی بھی عرب ملک میں اپنے چند عاقبت نااندیشوں کی ٹولی جن کو اس ملک کے دشمنوں کی مالی و جانی مدد و حمایت حاصل ہو (اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر ملک کے دوست و دشمن ہوتے ہیں اور وہ ایسا کرتے بھی ہیں) اور اس ملک کے دشمنوں کی مدد و حمایت سے ہی ایک دن وہ گروہ اتنی طاقت حاصل کر لے کہ وہ بندوق کی نوک پر اس ملک کے عوامی نمائندہ آئین کو ، پارلیمان کو ، سربراہ مملکت کو ، پرچم کو ، ملک کے تشخص (نام) کو پائمال کر دیں اور ناجائز قوت کے زور پر اقتدار پر قابض ہو جائے تو اس دن دنیا اس غیر قانونی، ناجائز، غنڈہ، ڈاکو اور مافیا گروہ کے اقتدار کو بھی تسلیم کرے گی؟

کیا دنیا اس دن یہ کہے گی کہ چونکہ یہ لوگ اچھی انگریزی (یا فلاں زبان) سیکھے ہوئے ہیں، یہ لوگ فلاں مذہب کے اچھے پیروکار ہیں اور اس مذہب کا خالص نفاذ کر رہے ہیں، یہ لوگ مہذب دکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کے ظاہری اخلاق بہت اعلیٰ ہیں، یہ بھی تو اسی ملک کے بیٹے ہیں، یہ لوگ دنیا سے اپیلیں کر رہے ہیں، یہ دنیا کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں، امن کے قیام کے دعوے کر رہے ہیں۔ کیا اس دن دنیا کے مختلف ممالک اس غاصب گروہ کو تسلیم کرنے کے لئے ایسی تاویلات پیش کریں گے یا اس ناجائز گروہ کی ناکہ بندی کر کے اسے مجبور کیا جائے گا کہ وہ اقتدار عوام کے حقیقی جائز نمائندوں کے سپرد کریں۔

میرے خیال میں ایک ہوش مند دنیا کسی بھی ملک پر کسی غاصب گروہ کی بزور قوت اقتدار پر قبضہ کی ہرگز حمایت نہیں کر گی، نہ ہی کرنی چاہیے۔ نہ تو آج دنیا طالبان کی ناجائز حکومت کو تسلیم کرے نہ ہی آئندہ کسی ملک میں ایسے کسی ناجائز گروہ کو کوئی جواز فراہم کیا جائے کہ یہی انسانیت، تہذیب، انسانی حقوق و جمہوری اقدار کا تقاضا ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب جب طالبان ناجائز طور پر افغانستان کے اقتدار پر قابض ہو چکے ہیں ان کی وجہ سے قومی فوج کا سقوط، اداروں کا انقطاع، معیشت و معاشرت کی مکمل تباہی ہو چکی ہے افراتفری کا عالم ہے عوام ہجرت پر مجبور ہیں اور عنقریب معاشی بدحالی اور غذائی قلت کی وجہ سے بڑے انسانی المیے جنم لینے والے ہیں، اس صورت میں دنیا کو کیا کرنا چاہیے کیا دنیا لاتعلق ہو جائے اور طالبان کے غصب کی وجہ سے لاکھوں لاکھوں لوگوں کو بھوک اور بیماریوں سے مرنے دیا جائے، نہیں، دنیا کو لا تعلق ہو کر کروڑوں انسانوں کو ایک نا عاقبت اندیش غاصب گروہ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہیے بلکہ دنیا کو چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو اور مشترکہ طور پر طالبان کو یہ پیغام دے کہ ایک مخصوص وقت (چار ماہ تا ایک سال) تک دنیا کے تمام ممالک مل کر اقوام متحدہ ہی کے پلیٹ فارم سے افغان عوام کو خوراک، دوا اور دیگر بنیادی انسانی ضروریات فراہم کریں گے اس دوران اقوام متحدہ کو اجازت دی جائے گی کہ وہ اپنی امن فوج کی سیکیورٹی، عالمی ماہرین کی نگرانی اور عالمی عملہ کے ذریعے افغانستان میں (اس کے آئین، قانون و ڈھانچہ کے تحت) شفاف انتخابات کرائے (جس میں اگر طالبان امیدوار بننا چاہیں تو بے شک حصہ لیں) انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والے پارلیمان اور سربراہ مملکت کو بلا چوں و چرا اقتدار منتقل کیا جائے اور پھر دنیا اس منتخب حکومت کو تسلیم کر کے افغانستان کے ساتھ ہمہ جہتی تعلقات قائم کر کے جملہ شعبہ ہائے زندگی میں تعاون شروع کرے اور افغانستان کو منتخب پارلیمان اور سربراہ مملکت کے ذریعے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد کرے۔

اس تمام پریکٹس میں وقت لگے گا، اقوام متحدہ کے ممبر ممالک کو اپنے ٹیکس دھندگان کا پیسہ افغانستان کی مدد کے لئے دینا ہو گا، اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کو بہت زیادہ کام کرنا پڑے گا، مگر یہ دنیا کی مجبوری ہے ایسا کرنا ہی ہو گا تاکہ نہ صرف افغانستان میں ایک جائز، قانونی اور عوامی نمائندہ حکومت تشکیل پا سکے بلکہ دنیا کے تمام غاصبین کو یہ پیغام ملے کہ ناجائز طور پر کسی ملک کے اقتدار پر قبضہ کرنا مہذب دنیا کے لئے ہر صورت ناقابل قبول ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments