کرکٹ بجا مگر یہ سیاپا کیوں؟


میں نے گزشتہ دو کالم پاکستان کو درپیش مسائل کے بارے میں لکھے تھے۔ پہلا کالم تو عمومی قسم کے داخلی اور خارجی مسائل کے بارے میں تھا جبکہ دوسرا کالم میں نے ملک میں بڑھتی ہوئی شدید مہنگائی پر لکھا تھا۔ آج کا کالم لکھتے ہوئے میرے سامنے نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کے اچانک یک طرفہ طور پر دورہ منسوخ کر کے واپس چلے جانے اور اس کے فوراً بعد برطانوی کرکٹ ٹیم کے پاکستان کا دورہ نہ کرنے کا مسئلہ ہے۔ اگر آپ اپنے ٹی۔وی چینلز، اخبارات اور سوشل میڈیا پر نظر ڈالیں تو لگتا ہے آج کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لئے سب سے سنگین مسائل یہی ہیں۔ پہلا یہ کہ عین وقت پر نیوزی لینڈ کی ٹیم کے کان میں کیا پھونکا گیا کہ اس نے ایک چارٹر طیارہ منگوایا اور پاکستان سے اس طرح فرار ہو گئی جیسے یہاں کوئی شدید زلزلہ آنے والا ہے۔ دوسرا یہ کہ برطانوی کرکٹ کونسل نے کیوں پاکستان کا طے شدہ دورہ منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔ بلا شبہ یہ دونوں واقعات، جو ایک دوسرے سے جڑے ہیں، ہمارے لئے تشویش کا باعث ہیں۔ اس تشویش کا سبب یہ نہیں کہ کچھ لوگ یہ میچ دیکھنے کی سعادت سے محروم رہے یا پی۔ ٹی۔ وی اور کسی دوسرے ادارے کو کروڑوں کا نقصان ہو گیا، اس لئے کہ ان دونوں واقعات کا براہ راست منفی اثر ملک کی ساکھ پر پڑا ہے جو دنیا میں پہلے ہی بہت نیچے جا چکی ہے۔

یہ آج سے کوئی گیارہ سال پہلے مارچ 2009 کا ذکر ہے جب لاہور میں، قذافی اسٹیڈیم کے قریب اس بس کو فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا جو سری لنکن کرکٹ ٹیم کو لے کے جا رہی تھی۔ گھات میں بیٹھے بارہ دہشت گردوں نے اچانک بس پر فائرنگ شروع کر دی جس سے چھ سری لنکن کھلاڑی زخمی ہو گئے۔ چھ پاکستانی پولیس مین اور دو عام شہری اس فائرنگ سے شہید ہو گئے۔ وہ دن اور آج کا دن، دنیا بھر کے کھلاڑی سہمے ہوئے ہیں۔ ہم انہیں کسی نہ کسی طرح یہاں لانے کے سو سو جتن کرتے ہیں۔ لالچ دیتے ہیں۔ منت سماجت کرتے ہیں۔ کبھی ہماری یہ کوشش جزوی طور پر کامیاب ہو جاتی ہے اور کبھی اس سب کچھ کے باوجود کوئی اپنی جان خطرے میں ڈالنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ بارہ سال سے یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اس کے اثرات پتہ نہیں کہاں کہاں پڑے لیکن ہماری کرکٹ ٹیم کی کارکردگی بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ وہ اس سطح سے بہت نیچے آ گئی ہے جہاں پندرہ بیس سال پہلے کھڑی تھی۔

اب ایک اور پہلو پر نظر ڈالئے۔ جب ہماری بھرپور منت سماجت کے بعد کوئی ٹیم پاکستان آنے پر آمادہ ہو جاتی ہے تو ہم اسے معمول کی کارروائی سمجھنے کے بجائے اس طرح خوشی کے شادیانے بجاتے ہیں جیسے کوئی بہت بڑی عالمی کامیابی حاصل کر لی گئی ہے۔ اب یہاں حال یہ ہوتا ہے کہ باہر کی ٹیم اور ساتھ آئے پندرہ بیس افراد کی سیکیورٹی کے لئے ہمیں جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ دو دن پہلے ہی اس ہوٹل کو محاصرے میں لے لیا جاتا ہے جہاں باہر کی ٹیم کو ٹھہرانا ہوتا ہے۔

اس ہوٹل کو جانے والی سڑکیں یا تو بند کر دی جاتی ہیں یا اس طرح ناکے لگا دیے جاتے ہیں کہ ٹریفک کی لمبی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں اور شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ بچے اسکولوں کو نہیں جا سکتے۔ مریض ہسپتالوں کو نہیں پہنچ سکتے اور ملازمین کے لئے اپنے دفتروں کو آنا جانا محال ہو جاتا ہے۔ کھیل کے میدان میں جا کر لطف اندوز ہونے والے تماشائی جتنے بھی ہوں، وہ شہر ایک طرح کے عذاب کا شکار ہو جاتا ہے۔

جہاں لاکھوں شہریوں کی روز مرہ زندگی اور لوگوں کا کاروبار متاثر ہوتا ہے۔ آج ہی میں نے ایک معروف کالم نگار کا کالم پڑھا کہ نیوزی لینڈ کے دورے کے وقت اسلام آباد اور راولپنڈی کا کیا حال تھا۔ راولپنڈی سٹیڈیم روڈ پر سینکڑوں دکانیں، ہوٹل، ریستوران اور دیگر تجارتی مراکز بند کر دیے گئے۔ میچ سے دو دن پہلے ہی وہاں کرفیو کی کیفیت پیدا کر دی گئی۔ سب سے بڑی تجارتی شاہراہ، مری روڈ کا بھی یہی حال ہوا جہاں سینکڑوں بڑی دکانیں ہیں اور راولپنڈی کا سب سے بڑا بے نظیر بھٹو شہید ہسپتال بھی ہے۔

نیوزی لینڈ کی ٹیم تو کسی نا معلوم سیکیورٹی تھریٹ کا بہانہ بنا کر چلی گئی لیکن راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہریوں پر جو کچھ گزری وہ انہیں دیر تک یاد رہے گی۔ مجھے یہ بھی پتہ چلا کہ راولپنڈی کے تمام بڑے کلینکس بھی بند رہے کیوں کہ ڈاکٹرز اور مریضوں کے لئے گھروں سے نکلنا مشکل بنا دیا گیا تھا۔ کیا فائدہ ایسی تفریح کا؟ دنیا میں بڑے بڑے سٹیڈیم ہیں۔ ان میں فٹ بال، کرکٹ یا ہاکی کے میچ ہوتے ہیں تو باہر چاروں طرف کی سڑکیں کھلی ہوتی ہیں اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ سٹیڈیم میں کوئی میچ ہو رہا ہے۔ یہاں ہمارے وزیر داخلہ نے نہایت فخر سے بتا یا ہے کہ ہم نے نیوزی لینڈ کی فوج سے بھی زیادہ سیکیورٹی اہلکار تعینات کیے تھے۔

ایک اور قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ ہمارے مختلف وزراء دونوں ٹیموں، خاص طور پر نیوزی لینڈ کی ٹیم کو اس طرح نشانہ بنائے ہوئے ہیں کہ پاکستان اور نیوزی لینڈ کے تعلقات کا بھی خیال نہیں رکھا جا رہا۔ اس صورتحال پر آخر اتنا برہم ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ نیوزی لینڈ کی ٹیم نے، یا حکومت نے جو کچھ بھی کیا اچھا نہیں کیا۔ اسباب کچھ بھی ہوں، اس سے پاکستان کی سبکی ہوئی ہے۔ اگر کوئی سنگین قسم کی دھمکی تھی بھی تو حکومت پاکستان اور ہماری متعلقہ سیکیورٹی ایجنسیوں کو ساری تفصیلات سے آگاہ کرنا چاہیے تھا۔

بار بار کے مطالبے کے باوجود نیوزی لینڈ ہمیں اس تھریٹ کی تفصیلات اور نوعیت سے آگاہ نہیں کر رہا۔ اب ہمارے وزراء نے کہا ہے کہ یہ ایک سازش تھی جس کے پیچھے بھارت کا ہاتھ تھا اور اسی نے یہ جھوٹا تھریٹ الرٹ نیوزی لینڈ تک پہنچایا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بھارت ہمارا جانا پہنچانا دشمن ہے۔ وہ ہمیں دنیا بھر میں ملامت اور رسوائی کا نشانہ بنانے کے لئے سرگرم رہتا ہے۔ اس کی سفارت کاری ہم سے کہیں زیادہ موثر ہے۔ لہذا اگر ایک دشمن نے یہ سب کچھ کیا بھی تو اس کا شکوہ کیسا؟

دوسری بات یہ کہ اگر نیوزی لینڈ اور برطانیہ یہاں کھیلنے نہیں آرہے تو ہم مرے کیوں جا رہے ہیں؟ صبح و شام سیاپا کیوں ڈالا ہوا ہے؟ اپنے آپ کو اتنا ہلکا کیوں سمجھ رہے ہیں؟ احساس کمتری میں کیوں مبتلا ہیں؟ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنے حال پر کیوں غور نہیں کر رہے؟ کیا بھارت کا دورہ کرنے والی کسی ٹیم کو ہم ایک جعلی سیکیورٹی تھریٹ بھیج کر وہاں سے نکال سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ ایسا صرف پاکستان کے حوالے سے ہو سکتا ہے۔ سب باتیں چھوڑ کر ہمارے لئے یہ سوال اہم ہونا چاہیے کہ آخر ہم میں ایسی کیا خرابی ہے کہ لوگ یہاں آنے سے ڈرتے ہیں اور ہمارے بارے میں کسی جھوٹے تھریٹ الرٹ کو بھی کیوں درست مان لیا جاتا ہے؟

بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments