نہ کہہ سکتے ہیں نہ سہہ سکتے ہیں


غلط یا صحیح، چونکہ یہ طے ہو چکا ہے یا مشہور ہو چکا ہے یا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بارہا یہ تاثر دے چکی ہے کہ اگر کسی ملک کی افغان طالبان پر تھوڑی بہت چلتی ہے تو وہ پاکستان ہے تو اب طالبان جو بھی اچھا برا قدم اٹھائیں گے دنیا پاکستان سے ہی توقع یا مطالبہ کرے گی کہ وہ کابل کو سمجھائے۔

حالانکہ دو ہزار چھیانوے سے اب تک پرانے ہوں کہ نئی پود کے طالبان انھوں نے تب ہی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی مانی جب ان کے اپنے مفاد میں ہوا۔

مثلاً جب وہ نائن الیون سے چھ ماہ قبل (مارچ دو ہزار ایک) میں بامیان کے دو بودھ مجسموں کو بارود سے اڑا رہے تھے تو باقی دنیا تو رہی ایک طرف خود انھوں نے جنرل پرویز مشرف کے وزیرِ خارجہ عبدالستار کے اس مشورے کو بھی ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیا کہ ایسی حرکتوں سے افغانستان بیرونی دنیا سے اور الگ تھلگ ہو جائے گا۔ اگر طالبان چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے علاوہ اور ممالک بھی تسلیم کریں تو پھر انھیں عالمی برادری کے درمیان رہنے کی عادت سیکھنا ہو گی۔

مگر طالبان کو یہ پروا بھی نہیں رہی کہ کابل پر ان کے پانچ برس کے قبضے کے دوران بھی اقوامِ متحدہ میں افغانستان کی نشست بھی ان کا مندوب سنبھالنے سے قاصر رہا۔

حالانکہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں وزیرِ داخلہ نصیر اللہ بابر طالبان کو اپنا برخوردار کہہ چکے تھے، مگر طالبان کتنے سعادت مند ثابت ہوئے؟ اس کا بین ثبوت نائن الیون کے بعد ملا جب اس وقت کے آئی ایس آئی اور سعودی انٹیلیجینس کے سربراہ اور چینیدہ طالبان دوست پاکستانی علما کا وفد بھی قندھار میں ملا عمر کو اس پر قائل نہ کر سکا کہ صرف تین ممالک نے عالمی مخالفت جھیلنے کے باوجود آپ کی حکومت کو تسلیم کیا۔ اب وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اگر آپ اس خطے کو نائن الیون کے ردِ عمل سے بچانا چاہتے ہیں تو اسامہ بن لادن اور ایمن الزواہری کو اگر امریکہ یا کسی تیسرے ملک کے حوالے نہیں کر سکتے تو ان سے کم ازکم یہ درخواست تو کر ہی سکتے ہیں کہ وہ اپنے میزبان کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے خود ہی ٹھکانہ بدل لیں۔

ملا عمر نے نہ دوستوں کا خیال کیا نہ دشمنوں کا۔ اس کے بجائے اپنی حکومت کو بھی خود ہی ٹھوکر مار کر پہاڑوں میں گم ہو گئے۔ پاکستان، سعودی عرب اور امارات نے اپنے تئیں اس خود سر بچے کو سمجھانے میں ناکامی پر بادلِ نخواستہ یو ٹرن لے لیا۔ سوائے افغان عوام کے باقی سب کی انا کو تسکین مل گئی۔ پورا خطہ دھشت گردی اور جوابی دھشت گردی کے گرداب میں ایک بار پھر آ گیا۔ طالبان نے خود کو بھی بیابانوں میں دھکیلا اور دوسروں کو بھی مروایا۔

مزے بس ان کے آئے جو کابل میں جمہوریت کی قبا اوڑھ کے دونوں ہاتھوں سے ڈالر سمیٹنے ایک بار پھر آن دھمکے یا پھر ان کے جو دھشت گرد پکڑ پکڑ کر فروخت کرنے لگے اور پھر ہوس اتنی بڑھ گئی کہ جعلی دھشت گرد بھی بیچنے میں لگ گئے۔ یا پھر وارے نیارے ہوئے امریکی ملٹری انڈسریل کمپلیکس اور کرائے کے کنٹریکٹرز کے یا پھر نیٹو کو رسد پہنچانے والے ٹرک مالکان کے۔

طالبان پاکستان کی اس طبعی کمزوری سے خوب واقف تھے کہ یہاں کے منصوبہ سازوں کو بچپن سے افغانستان کی سٹرٹیجک ڈیپتھ اچھی لگتی ہے۔ حالانکہ تاریخ شاہد ہے کہ قدیم ہندوستان سے آج تک ہمیشہ درہِ خیبر اور بولان اور بحیرہ عرب کے راستے آنے والوں نے ہی موجودہ پاکستان سے لے کر گنگا جمنی دوآبے تک کے خطے کو بطور سٹرٹیجک ڈیپتھ استعمال کیا۔

پچھلے چالیس برس میں یہ سٹرٹیجک ڈیپتھ ہیروئن، کلاشنکوف اور دھشت گردی کے تاجروں نے خوب خوب برتی۔ مگر جنوب آج تک اس خواب سے جان نہیں چھڑا سکا کہ ایک نہ ایک دن وہ بھی شمال میں کوہِ ہندو کش کے پار علاقے کو اپنا تزویراتی باجگزار بنائے گا۔ سٹرٹیجک ڈیپتھ کا یہ نظریہ اس خدشے سے پیدا ہوا کہ بھارت مشرقی اور مغربی جانب سے پاکستان کو گھیر کے مارنا چاہتا ہے۔ حلانکہ پاکستان سے اب تک بھارت کی جتنی بھی جنگیں ہوئیں مشرقی سرحد پر ہی ہوئیں۔ مگر خوف کا کیا علاج۔

افغانستان میں ایک دوست حکومت کا قیام؟ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ بھلے کابل پر شاہ پسند حکمران رہے ہوں کہ جمہوریت پسند کہ کیمونسٹ کہ مجاہدین کہ طالبان۔ سب سے زیادہ دوست حکومت طالبان کی پہلی اور اب دوسری حکومت کو سمجھا گیا۔ مگر نہ پچھلی حکومت سے ڈیورنڈ لائن کو باضابطہ بین الاقوامی سرحد تسلیم کرنے کا دستاویزی اعادہ کروایا جا سکا اور نہ ہی موجودہ کابل حکومت یہ دستاویز جاری کرنے کے موڈ میں ہے۔

طالبان پاکستان کی ان نفسیاتی کمزوریوں سے پہلے بھی فائدہ اٹھاتے رہے ہیں اور اب بھی وہ خود کو بین الاقوامی برادری سے تسلیم کروانے کے لئے پاکستانی مہارت بروئے کار لانے کے خواہش مند ہیں۔ مگر ایک وسیع تر افغان حکومت کے قیام اور کالعدم ٹی ٹی پی کو لگام دینے سمیت پاکستان کی چھوٹی سے چھوٹی خواہش بھی ماننے کو تیار نہیں۔ پر پاکستان آج بھی ایک امیدِ موہوم کے دھاگے سے لٹکا ہوا سوچ رہا ہے کہ گھبرانا نہیں ہے۔ دنیا اگر طالبان کو ایک موقع اور دے دے تو سب کچھ رفتہ رفتہ ٹھیک ہونے لگے گا۔

سادہ مزاج طالبان گذشتہ بیس برس میں سفارتی فلرٹ خوب خوب سیکھ چکے ہیں۔ کل تک وہ اکھڑ مشہور تھے۔ مگر آج جو ملک جو بھی من پسند لوری سننا چاہے طالبان سنانے کو تیار ہیں۔ پھر بھی آخر میں فیصلہ وہی خفیہ قندھاری شوری کرتی ہے جس کی شکل اب تک کسی نے نہیں دیکھی اور نہ ہی کوئی اس شوری کے ناموں سے مکمل طور پر واقف ہے۔

مگر تاثر یہی قائم ہے کہ طالبان پر اگر آج بھی کسی کا کچھ زور چلتا ہے تو وہ پاکستان ہے۔ حالانکہ پاکستان کے دل پر اس وقت طالبان کے حوالے سے جو گذر رہی ہے وہ بس کوئی دل والا ہی محسوس کر سکتا ہے۔ نہ کہہ سک رہے ہیں نہ سہہ سک رہے ہیں۔ حال یہ ہو چلا ہے کہ

محفل میں کر رہے ہیں وہ غیر کو سلام

وعلیکم السلام کیے جارہا ہوں میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments