مولانا کلیم صدیقی: انڈیا میں ہندوؤں کا مذہب تبدیل کروانے اور غیرقانونی فنڈنگ کے الزمات کے تحت گرفتار ہونے والے مولانا کلیم صدیقی کون ہیں؟


انڈین ریاست اُترپردیش میں گذشتہ منگل کو مولانا کلیم صدیقی اور اُن کے تین ساتھیوں کو میرٹ سے انسداد دہشت گردی سکواڈ (اے ٹی ایس) نے گرفتار کیا ہے۔

اے ٹی ایس کا الزام ہے کہ مولانا کلیم صدیقی کا تعلق جبری مذہب تبدیل کروانے میں ملوث ایک بڑے گینگ سے ہے اور اب حکام کو اُن کے مزید ساتھیوں کی تلاش ہے۔

حکام مولانا کلیم کے ایک ساتھی ادریس سے بھی تفتیش کر رہے ہیں جن کا تعلق کھاتولی گاؤں سے ہے۔

گذشتہ ہفتے مولانا کلیم کی گرفتاری کی خبر سامنے آنے کے فوراً بعد مقامی لوگوں اور ان کے ساتھیوں نے احتجاج کرتے ہوئے شہر کی مرکزی شاہراہ بلاک کر دی تھی۔ ان کے معتقد انھیں ایک عظیم اسلامی سکالر مانتے ہیں۔

اس گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے پولیس کے ایڈیشنل ڈی جی پرشانت کمار نے مولانا کے زیر سرپرستی چلنے والے ایک دینی ادارے پر غیر قانونی طور پر بیرون ملک سے فنڈنگ حاصل کرنے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔

فی الحال مولانا کلیم کے زیر سرپرستی چلنے والے مدارس اور ادارے کی جانب سے ان الزامات پر کوئی ردعمل نہیں دیا گیا ہے تاہم نمائندہ بی بی سی نیاز فاروقی سے بات کرتے ہوئے مولانا کلیم کے وکیل ابوبکر سباق نے ان تمام الزامات کی تردید کی ہے۔

اترپریش پولیس کیا کہتی ہے؟

پولیس اہلکار پرشانت کمار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انٹیلیجنس کی رپورٹ کے مطابق یہ معلوم ہوا ہے کہ مولانا کلیم صدیقی غیر قانون طور پر تبدیلیِ مذہب کے عمل میں ملوث ہیں۔ اور یہ کام ملکی سطح پر قائم متعدد تعلیمی و مذہبی اداروں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔‘

انھوں نے مولانا کلیم کے ادارے پر بیرون ملک سے غیر قانونی فنڈنگ حاصل کرنے کا الزام لگایا اور کہا ’کروڑوں روپے بحرین سے آئے اور کل ملا کر تین کروڑ روپے متعدد دیگر ذرائع سے آئے ہیں۔‘

مولانا کلیم صدیقی کون ہیں؟

مولانا کلیم صدیقی کو انڈیا کے نمایاں مسلم سکالرز میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ ان کا تعلق مظفرنگر میں کھاتولی علاقے کے پھلت گاؤں سے ہے۔ وہ گلوبل پیس سینٹر اور جامعہ ولی اللہ ٹرسٹ کے صدر ہیں۔

سنہ 1987 میں انھوں نے اس گاؤں میں جامع امام ولی اللہ اسلامیہ کے نام سے ادارہ بنایا تھا جسے وہ اب تک خود چلاتے ہیں۔ ان کے مدرسے میں قریب 300 طالبعلم عربی، اُردو اور قرآن کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ فی الحال کووڈ کے باعث یہاں آن لائن تعلیم دی جا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا میں مسلمان خواتین کی انٹرنیٹ پر ’نیلامی‘

انڈیا میں مسلمانوں پر سر عام تشدد ’ایک معمول بن گیا ہے‘

’کوئی نہیں جانتا پسند کی شادی کرنے والے پنکی اور راشد کہاں گئے‘

آسام میں مسلمان شہری کی لاش کی بےحرمتی: ’ہمارا معاشرہ خون کا پیاسا ہو گیا ہے‘

سات ستمبر کو انھوں نے ممبئی میں ’نیشن فرسٹ اینڈ نیشن پیراماؤنٹ‘ نامی ایک تقریب میں شرکت کی تھی۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت اس تقریب میں مہمانِ خصوصی تھے۔

کلیم صدیقی کا خاندان دلی میں شاہین باغ کے علاقے میں رہتا ہے۔ لیکن خاندان کے دوسرے افراد ان کے آبائی گاؤں میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کے ایک بیٹے کا دودھ کا بڑا کاروبار ہے۔

ان کے پڑوسی کیا کہتے ہیں؟

مولانا کلیم کے پڑوسی محمد شاہنواز عالم بھی پھلت کے رہائشی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’مولانا کلیم ایک معتبر زمیندار خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی ابتدائی تعلیم پھلت گاؤں کے مدرسے میں ہوئی۔ انٹرمیڈیٹ کھاتولی میں ہوا۔ انھوں نے میرٹ کالج سے بی ایس سی اور ایم ایس سی کیا۔‘

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ مظفرنگر کے علاوہ بھی وہ کئی مدرسے چلاتے ہیں جبکہ وہ ملک بھر میں غریب مسلمان بچوں کی تعلیم اور سماجی بہتری کے کام میں پیش پیش رہتے ہیں۔

شاہنواز کا کہنا ہے کہ ہریانہ میں سوامی اگنیویش کے ساتھ انھوں نے شراب پر پابندی عائد کرنے کی مہم میں حصہ لیا تھا۔ انھوں ملک میں اور ملک سے باہر مذہبی تقاریب میں مدعو کیا جاتا ہے۔

پولیس، انڈیا

مولانا کلیم صدیقی پر کیا الزامات ہیں؟

ان کی گرفتاری کے بعد پولیس نے ان پر جبری تبدیلی مذہب کا الزام لگایا ہے۔ لیکن پھلت اور آس پاس کے دوسرے گاؤں کے لوگ اس بارے میں کچھ یقین سے نہیں کہہ سکتے۔

مظفرنگر میں تھانہ چھپر کے رہائشی 43 سالہ اروند کاشپ جمعرات کو پولیس سٹیشن گئے اور انھوں نے مولانا کلیم کے خلاف سخت اقدامات کا مطالبہ کیا۔

اروند کا دعویٰ ہے کہ کچھ سال قبل خدا گاؤں میں دو مسلم نوجوانوں نے انھیں اسلام قبول کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

مقامی صحافی یوگی تیاگی سے بات کرتے ہوئے اروند نے الزام عائد کیا کہ ’ان نوجوانوں نے مذہب تبدیل کرنے کے بدلے 10 لاکھ روپے اور شادی کی پیشکش کی تھی۔ جب میں تیار ہو گیا تو مولانا کلیم صدیقی نے مدرسے میں مجھے کلمہ سکھایا۔‘

’میرا نام اروند سے اکبر رکھ دیا گیا۔ لیکن تبدیلی مذبب سے قبل جو لالچ مجھے دی گئی تھی اس کی تکمیل نہ کی گئی۔ اسی وجہ سے میں ہندو جاگرن منچ کے ذریعے دوبارہ ہندو مذہب میں داخل ہو گیا ہوں۔ کچھ ماہ قبل میں پولیس کے پاس شکایت لے کر گیا۔ میں نے شکایت نامے کے ذریعے انصاف کی اپیل کی لیکن اب تک پولیس نے مولانا کے خلاف اقدام نہیں کیا جنھوں نے میرا مذہب تبدیل کرایا تھا۔‘

پھلت کے رہائشی دنیش چوہدری حیران ہیں کہ مولانا کلیم کو غیر قانونی تبدیلی مذہب کے کیس میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر مولانا یہ کر رہے ہیں تو انھوں نے ایسا اپنے گاؤں میں بھی کیا ہو گا۔ یہاں کسی کا مذہب تبدیل نہیں کیا گیا۔ کسی کو مولانا پر شک نہیں۔ وہ ہر کسی کی مدد کیا کرتے تھے۔ تو اب وہ اس گروہ میں کیسے شامل ہو گئے ہیں۔ انھیں زبردستی پھنسایا جا رہا ہے، ہم بس یہی جانتے ہیں۔‘

امان سنگٹھن کے صدر مولانا مفتی ذوالفقار علی اس بات پر حیران ہیں کہ مولانا کلیم کو گرفتار کیا گیا ہے اور وہ اس کے پیچھے کسی سازش کا دعویٰ کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’کچھ دن قبل مولانا کلیم صدیقی صاحب کو آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت کا دعوت نامہ موصول ہوا اور وہ ان کی دعوت پر وہاں گئے۔ کسی کے بارے میں ایسا کیسے سوچا جا سکتا ہے جسے آر ایس ایس کے پروگرام میں بلایا جاتا ہو۔ اب پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کی تفتیش کر رہے ہیں۔ اگر وہ کسی فنڈنگ میں ملوث تھے تو انھیں آر ایس ایس کی تقریب میں کیوں بلایا گیا؟ اگر ان کی سرگرمیاں مشکوک تھیں تو پولیس اور اے ٹی ایس اب تک کیا کر رہے ہیں۔‘

اس گرفتاری کا مطلب کیا ہے؟

مولانا کلیم کسی سیاسی جماعت سے منسلک نہیں تھے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت نے ان کی گرفتاری پر ردعمل دیا ہے۔ لیکن اس گرفتاری کے کچھ سیاسی اثرات ضرور ہوں گے۔

ان کے بھانجے محمد شاہنواز نے کہا ہے کہ ’یہ گرفتاری ایک سیاسی سازش کے تحت کی گئی ہے کیونکہ اگر پولیس اور اے ٹی ایس کو اس بارے میں علم تھا تو انھوں نے اب تک گرفتاری کیوں نہیں کی تھی؟ دوسری بات یہ کہ جو لوگ سامنے آ کر تبدیلی مذہب کا الزام لگا رہے ہیں وہ پہلے خاموش کیوں تھے؟‘

مظفرنگر کے مولانا صابر حسین کہتے ہیں کہ کسی بھی مسلمان مذہبی رہنما پر غیر قانونی تبدیلی مذہب اور بیرون ملک فنڈنگ کا الزام لگانا بہت آسان ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اب تک کسی الزام کو ثابت نہیں کیا جا سکا لیکن لوگوں کو پیغام دیا گیا ہے کہ مذہبی رہنما اس کام میں ملوث ہیں۔ لیکن سچ سب کو معلوم ہے۔‘

سماج وادی پارٹی کے ایک رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ گرفتاری صرف سیاسی مقاصد کے لیے کی گئی ہے جب اترپردیش میں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔

ان کے مطابق ’حکومت مغربی اترپردیش میں جاٹ مسلم اتحاد پر برہم ہے اور اسے توڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ صوبے کے مغربی حصے سے لسانی فسادات کے چھوٹے واقعات سامنے آرہے ہیں اور یہ سب کو معلوم ہے۔‘

’کچھ لوگ اس گرفتاری پر مشتعل ہوں گے۔۔۔ تبدیلی مذہب جیسے الزامات سے ہندو مسلمانوں سے نفرت کریں گے۔ لیکن ایسا کوئی اقدام مغربی اترپردیش میں کامیاب نہیں ہو گا۔‘

مقامی صحافی یوگیش تیاگی کہتے ہیں کہ علاقے میں مولانا کلیم کی شخصیت کو اچھا سمجھا جاتا ہے اور انھیں لوگ ایک معتبر مذہبی رہنما قرار دیتے ہیں۔ لیکن اس گرفتاری کے بعد لوگ حیران ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب یہ خبر آئی کہ اے ٹی ایس نے مولانا کو حراست میں لیا ہے، لوگوں کی بڑی تعداد احتجاج کرنے نکلی۔ کافی ہنگامہ ہوا تھا‘۔

’جب گرفتاری اور بیرون ملک فنڈنگ جیسی چیزیں سامنے آئیں تو کوئی مظاہرہ نہیں ہوا۔ لیکن لوگ واقعی اس گرفتاری پر غصے میں ہیں۔‘

پاکستان کے بھی ایک مخصوص مذہبی طبقے نے اس گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

عالم دین مفتی محمد تقی عثمانی نے ٹوئٹر پر پوسٹ کیے گئے اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ’بھارت میں حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی صاحب جیسی خالص غیر سیاسی اور دعوتی شخصیت کی گرفتاری موجودہ بھارتی حکومت کی کھلم کھلا مسلمان دشمنی کا نہایت گھناؤنا مظاہرہ ہے۔ ان کا جرم اس کے سوا اور کیا ہے کہ ان کے ذریعے بہت سے لوگ مشرف با سلام ہوئے ہیں؟‘

مولانا کلیم صدیقی کے وکیل ابوبکر سباق بتاتے ہیں کہ یہ معاملہ سیاست سے متاثر ہے۔

بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘اے ٹی ایس نے تین صفحات پر مشتمل ایک فرقہ وارانہ پریس نوٹ میڈیا کو جاری کیا، لیکن میں عدالت میں موجود تھا اور وہاں ریمانڈ حاصل کرنے کے لیے جو درخواست دی گئی اس میں ایسا کچھ نہیں تھا۔’

انھوں نے کہا کہ میڈیا کو جو پریس نوٹ دیا گیا اس میں قومی سطح پر جبری مذہب تبدیل کرنے کے الزامات سے لے کر، آبادی میں عدم توازن اور حکومت کا تختہ پلٹ کر اسلامی حکومت نافذ کرنا اور ہزاروں کی تعداد میں ہندؤوں کو مسلمان بنانے جیسے الزامات ہیں۔

‘مگر عدالت میں الزام لگایا گیا کہ مولانا مدرسے چلاتے ہیں، دعوت کا کام کرتے ہیں اور جو لوگ مزہب تبدیل کرتے ہیں ان کے دستاویزات بنواتے ہیں اور کئی عرب ممالک سے فنڈ لیتے ہیں۔ اور وہ یہ سب کام عمر گوتم کے ساتھ مل کر کرتے ہیں۔’

انھوں نے کہا کہ ‘غیر ملکوں سے آنے والے فنڈز قانون کے تحت آتے ہیں اور یہ کام کرنے کے لیے مولانا کے پاس حکومت کا جاری کردہ لازمی لائسنس موجود ہے۔’

سباق کہتے ہیں کہ پولیس کے پاس ابھی تک ایک بھی براہ راست گواہ یا ثبوت نہیں ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ‘اگر آپ پورے کیس کو دیکھیں تو ایک اس میں ایک صاف سیاسی زاویہ نظر آ رہا ہے۔ حکومت بیک فٹ پر ہے۔ یو پی میں انتخابات ہیں اور ان کے پاس سماج کو بانٹنے کا کوئی اور حربہ نہیں ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32485 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments