برطانیہ میں پیٹرول سپلائی میں تعطل، فوج طلب کرنے پر غور


برطانیہ
برطانیہ میں ٹینکر ڈرائیوروں کی کمی کی وجہ سے پیٹرول کی ترسیل میں خلل ایک بحران کی صورت اختیار کر گیا ہے اور پیٹرول کی سپلائی کو معمول پر لانے کے لیے فوج کی مدد حاصل کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔

لندن سمیت برطانیہ کے مختلف حصوں میں پیٹرول پمپوں پر گزشتہ چند روز سے گاڑیوں کی میلوں لمبی قطاریں نظر آ رہی ہیں اور لوگوں نے آنے والے دنوں میں پیٹرول نہ ملنے کے خدشات کی وجہ سے اپنی ضرورت سے زیادہ پیٹرول خریدنا شروع کر دیا ہے۔

وزیر اعظم بورس جانسن کی حکومت کے وزراء مسلسل اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ملک میں پیٹرول کی کوئی کمی نہیں صرف وقتی طور پر پیٹرول پمپوں تک تیل کی ترسیل ٹینکر ڈرائیوروں کی کمی کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے۔

فوج بلانے کی تجویز

برطانیہ میں پیر کو شائع ہونے والے تقریباً تمام اخبارات میں یہ خبریں شائع ہوئی ہیں کہ اس بحران سے نمٹنے کے لیے جہاں بہت سے دیگر اقدامات پر غور کیا جا رہا ہے وہاں فوج سے مدد طلب کرنے کی تجویز پر بھی سوچ بچار کی جا رہی ہے۔ تاہم بورس جانسن کی کابینہ میں شامل ایک وزیر نے اس خبر کی تردید کی ہے کہ حکومت ٹینکر چلانے کے لیے فوج بلا رہی ہے۔

حکومتی وزیر کی تردید کے باوجود بعض اخبارات نے کہا ہے کہ وزیر اعظم بورس جانسن اور ان کی کابینہ کے چند سینئر وزرا اس تجویز پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔

برطانیہ کے مقتدر اخبار گارڈین نے کہا ہے کہ وہ ’آپریشن ایسکلن‘ کو بہتر بنا کر استعمال کریں گے۔ یہ آپریشن یا منصوبہ کسی سمجھوتے کے بغیر بریگزٹ ہونے کی صورت میں پیدا ہونے والی ممکنہ ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے بنایا گیا تھا جس میں سینکڑوں فوجیوں کو اسی ٹینکروں پر مشتمل ’ریزور فلیٹ‘ کو چلانے کے لیے بلایا جانا تھا۔

برطانیہ

PA Media

کیا ملک میں پیٹرول کی قلت پیدا ہو گئی ہے؟

حکومت کی کئی وزراء نشریاتی اداروں پر بار بار آ کر اس بات پر زور دے رہے ہیں ملک میں پیٹرول کی کوئی قلت نہیں ہے۔

ماحولیات کے وزیر جارج ایسٹس نے پیر کو کہا کہ ‘ملک میں کوئی قلت نہیں ہے۔’ انھوں نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ لوگ معمول کے مطابق پیٹرول خریدیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ‘اگر ذرائع ابلاغ پر اس کے بارے میں اتنی خبریں نہ آتیں اور عوام ان خبروں سے متاثر نہیں ہوتے تو یہ مسئلہ آسانی سے حل کیا جا سکتا تھا۔’

لیکن یہ بات بہت واضح ہے کہ پیٹرول پمپوں پر پیٹرول نہیں مل رہا۔

ماحولیات کے وزیر جارج ایسٹس نے ڈرائیورں کی کمی کے بارے میں کہا کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ ان کے بقول پیٹرول پمپوں پر صرف اس لیے قطاریں نظر آ رہی ہیں کہ لوگ ضرورت نہ ہونے کے باوجود پیٹرول خرید رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

سعودی تیل کی کہانی، یہ دولت کب آئی اور کب تک رہے گی؟

’سیاہ سونا‘ دنیا کی سب سے قیمتی شے کیسے بنا؟

بلوچستان میں سمگل شدہ ایرانی پیٹرول پاکستانی پیٹرول سے مہنگا کیسے ہو گیا؟

’یہاں پانی، بجلی سڑک نہیں لیکن سمگل شدہ ایرانی تیل کی فراوانی ہے‘

انھوں نے کہا کہ یہ صورت حال جلد معمول پر آ جائے گی جب پریشانی میں ضرورت سے زیادہ پیٹرول خریدنے والوں کا رش کم ہو جائے گا۔

دوسری طرف پیٹرول ایسوسی ایشن نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں پیٹرول فروخت کرنے والے دو تہائی پمپوں پر پیٹرول ختم ہو گیا ہے۔ ایسوسی ایشن کے بقول ملک کے کل آٹھ ہزار پیٹرول پمپوں میں سے ساڑھے پانچ ہزار پمپوں پر پیٹرول ختم ہو گیا ہے۔

کاروبار کے وزیر کوارسی کوراٹینگ نے اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے سنہ 1998 کے مسابقت کے قانون سے پیٹرول کے کاروبار کو استثنیٰ دینے کا اعلان کیا اور عوام کو یقین دلایا ہے کہ ملک میں پیٹرول کی سپلائی برقرار رکھنے کے لیے حکومت کے پاس طویل عرصے سے ہنگامی پلان موجود ہیں۔

برطانیہ میں لاری ڈرائیوروں کی کمی

برطانیہ میں لاری ڈرائیوروں کی کمی نے حالیہ مہنیوں میں سپر مارکیٹوں سے لے کر فاسٹ فوڈ کے کاروبار کو بھی متاثر کیا ہے۔

گزشتہ چند دنوں سے ڈرائیور دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے پیٹرول کی سپلائی متاثر ہو رہی ہے اور لوگ سراسیمگی میں اپنی ضرورت سے زیادہ پیٹرول خرید رہے ہیں اور پیٹرول پمپوں پر میلوں لمبی قطاریں لگنے لگی ہیں۔

برطانیہ

پیٹرول فروخت کرنے والی کمپنیوں کا موقف

پیٹرول فروخت کرنے والی بڑی کمپنیوں شیل، ایکسن موبل اور گرینرجی نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ لوگوں کی طرف سے پیٹرول کی مانگ میں اچانک اضافے کی وجہ سے سپلائی پر اضافی بوجھ پڑا ہے اور یہ صرف اور صرف آنے والے دنوں میں پیٹرول نہ ملنے کے خدشات کی وجہ سے ہو رہا ہے۔

پیٹرول فروخت کرنے والی کمپنیاں موٹرویز پر قائم پیٹرول پمپوں کی سپلائی کو برقرار رکھنے کو ترجیح دے رہے ہیں اور شہروں کے اندر قائم پیٹرول پمپوں پر کمی ہو رہی ہے۔

برطانیہ

عارضی ویزوں کے اجراء کا فیصلہ

حکومت نے ڈرائیوروں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے لاری ڈرائیوروں کے لیے فوری طور پر پانچ ہزار عارضی ویزے جاری کرنے کا اعلان کیا تھا جو کرسمس تک کے عرصے کے لیے ہوں گے۔ اس کے علاوہ حکومت نے پولٹری کی صنعت میں کام کرنے والوں کے لیے بھی پانچ ہزار پانچ سو ویزے جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس ضمن میں حکومت لاری ڈرائیوروں یا ‘ایچ جی وی’ لائنسنس رکھنے والے دس لاکھ ڈرائیوروں کو بھی خطوط ارسال کر رہی ہے تاکہ ان کو ڈرائیوری کرنے کی ترغیب دی جا سکے۔ اس کے علاوہ چار ہزار ایچ جی وی ڈرائیوروں کو ہنگامی بنیادوں پر تربیت دینے کا منصوبہ بھی بنایا جا رہا ہے۔

برطانیہ میں پالیسی آف لاجسٹک کی ڈائریکٹر ایلزبھ ڈی جونگ نے بی بی سی کو بتایا کہ ویزا جاری کرنے میں چند دن نہیں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ صنعت کو درکار افرادی قوت کے لیے لیے زیادہ اور لمبے عرصے کے ویزے چاہیے ہوں گے اور موجودہ صورت حال میں ڈرائیوروں کے لیے اچھی اجرتیں حاصل کرنے کا موقعہ پیدا ہو گا۔

انھوں نے بتایا کہ بریگزٹ یا یورپ یونین سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد سنہ 2019 کی دوسری سہ ماہی اور 2021 کے دوران برطانیہ سے 72000 ڈرائیور واپس چلے گئے ہیں۔

اس کے بعد عالمی وباء کی وجہ سے ایچ جی وی کے لائیسنس جاری کرنے کے سلسلے میں بھی تعطل آ گیا جس سے صورت حال مزید بگڑ گئی۔ ڈرائیونگ لائسنس جاری کرنے والے ادارے کے مطابق اس وقت 54 ہزار درخواستیں التواء میں پڑی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments