ہانی بلوچ: طلبہ کے حقوق کے لیے مصروفِ عمل کارکن کی وفات پر ساتھیوں کا خراجِ عقیدت


’کوئٹہ میں طلباء کے احتجاج کے دوران ایک دن ہم حیران ہوئے کہ ہانی بلوچ کے ہاتھ میں کینولا لگا ہوا تھا۔ اُن کے چہرے سے بھی یہ عیاں تھا کہ ان کی طبیعت بہت زیادہ ٹھیک نہیں لیکن اس کے باوجود وہ طلباء کے احتجاج میں شرکت کے لیے آئیں۔‘

ہانی بلوچ کی تنظیمی ساتھی سازین بلوچ بی بی سی کو بتا رہی تھیں کہ کیسے طالبعلم کارکن ہانی بیمار ہونے کے باوجود طلبہ کے احتجاجی مظاہرے میں شریک ہوئی تھیں۔

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں گذشتہ دو ہفتے سے زائد کے عرصے سے طلباء اور طالبات کی احتجاجی تحریک جاری ہے۔ طلباء اور طالبات یہ احتجاج پاکستان میڈیکل کمیشن کی جانب سے میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لیے آن لائن ٹیسٹ کے نظام کے خلاف کر رہے ہیں۔

اتوار کو ہانی بلوچ وفات پا گئی ہیں۔

سازین بلوچ نے ہانی کی اچانک موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کے حقوق کے لیے جدوجہد ان کو اپنی صحت سے زیادہ عزیز تھی یہی وجہ ہے کہ طبیعت ناساز ہونے کے باجود وہ احتجاج میں شرکت کرتی رہیں۔

اُنھوں نے بتایا کہ اگرچہ ہانی کا اس تحریک سے کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں تھا لیکن وہ یہ سمجھتی تھیں کہ طلباء اور طالبات کے ساتھ بے انصافی ہوئی ہے اس لیے صحت کی پرواہ کیے بغیر وہ اس تحریک میں صف اول میں رہیں۔

بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سیکریٹری جنرل چنگیز بلوچ نے کہا کہ ہانی بلوچ اگرچہ اب دنیا میں نہیں رہیں لیکن وہ اب ہمیشہ کے لیے جدوجہد کی ایک علامت بن گئی ہیں۔

ہانی بلوچ کون تھیں؟

ہانی بلوچ کوئٹہ شہر میں سمنگلی روڈ کی رہائشی تھی۔ ایف اے کرنے کے بعد اُنھوں نے سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی میں بی ایس ماس کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ داخلہ لیا۔

وہ اس وقت یونیورسٹی میں تھرڈ ایئر کی طالبہ تھی۔

وہ بلوچ قوم پرست طلباء تنظیم بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی مرکزی کمیٹی کی رکن تھی۔

تنظیم کے سیکریٹری جنرل چنگیز بلوچ نے بتایا کہ ہانی بلوچ ایک متحرک کارکن تھیں اور وہ نہ صرف تنظیم کے امور میں سرگرم رہتی تھیں بلکہ طلباء کو تعلیمی اور سیاسی حقوق کے لیے متحرک کرنے میں بھی پیش پیش رہتی تھیں۔

سازین بلوچ نے بتایا کہ 23 ستمبر کو جب طلباء گورنر ہاﺅس کے قریب دھرنا دینے کے لیے آئے تو سازین بلوچ وہاں موجود تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ساتھیوں نے یہ محسوس کیا کہ وہ زیادہ دیر تک وہاں نہیں بیٹھ سکتیں اس لیے اُن کو مشورہ دیا گیا کہ وہ گھر جائیں۔

سازین بلوچ نے کہا کہ ساتھیوں کے مشورے اور اصرار پر وہ دھرنے کو چھوڑ کر گھر چلی گئیں۔ ’چونکہ رات کو بہت سارے ساتھی گرفتار اور بہت سارے زخمی ہوئے جس کے (باعث) اگلے دو روز تک ہمارا ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔‘

اُنھوں نے کہا کہ جب گرفتار ساتھی رہا ہوئے تو ہمیں پتہ چل گیا کہ ہانی بلوچ وفات پا گئی ہیں۔

https://twitter.com/jam_kamal/status/1442084116195942400

میڈیکل کالجوں کے انٹری ٹیسٹ کے خلاف پیش پیش

سازین بلوچ نے بتایا کہ ہانی ان کی نظریاتی ساتھی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہانی بلوچ 13 ستمبر سے احتجاج کے آغاز کے ساتھ ہی طلبہ کے احتجاج میں شریک رہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ اُن کے چہرے سے یہ لگ رہا تھا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے لیکن ہم نے کبھی ان کو پیچھے ہٹتے ہوئے نہیں دیکھا۔

سازین نے بتایا کہ اُنھوں نے بیماری کا بہانہ نہیں بنایا بلکہ دوسروں کو حوصلہ دینے کے لیے میدان میں رہیں۔

سازین بلوچ کے مطابق جب ایدھی چوک پر پولیس نے احتجاج میں شریک طلباء پر لاٹھی چارج کیا تو ہانی بلوچ وہاں بھی موجود تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک مشکل صورتحال تھی لیکن اس کے باوجود ہانی نہ صرف وہاں کھڑی رہیں بلکہ طلباء اور طالبات کو حوصلہ بھی دیتی رہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس لاٹھی چارج کے دوران ان کا ہاتھ بھی معمولی زخمی ہوا لیکن ہم نے کبھی ان کو پیچھے ہٹتے نہیں دیکھا۔

’اگرچہ ہانی بلوچ کا تعلق متاثرہ طلباء اور طالبات سے نہیں تھا لیکن ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے وہ اس بات کو اپنی ذمہ داری سمجھتی تھیں کہ وہ اس احتجاج میں شریک ہوں۔‘

یہ بھی پڑھیے

سردار عطا اللہ مینگل کو ویرانے میں کیوں دفنایا گیا؟

بلوچستان کے مڈل کلاس طلبہ جو آزادی کی خاطر لڑ رہے ہیں

بلوچستان کا وہ قیدی جس کے پاس انصاف خود چل کر گیا

اسداللہ مینگل: بلوچستان کا ’پہلا جبری لاپتہ‘ نوجوان جس کی موت تاحال ایک معمہ ہے

ان کا کہنا تھا کہ ہانی بلوچ اس مارچ میں بھی شریک تھی جو طلباء نے گرمی میں بلوچستان یونیورسٹی سے ایدھی چوک تک کیا۔

’یونیورسٹی سے لے کر ایدھی چوک تک کا فاصلہ اچھا خاصا ہے مگر ہانی جلوس میں پیچھے نہیں بلکہ پیش پیش رہیں۔‘

اُنھوں نے کہا کہ جب وہ کینولا کے ساتھ احتجاج میں شرکت کے لیے آئیں تو تمام ساتھیوں نے کہا کہ آپ کو کم از کم اس حالت میں نہیں آنا چاہیے تھا لیکن ان کا جواب یہ تھا کہ پریشانی کی بات نہیں ہے بلکہ ہمیں احتجاج کی جانب توجہ دینی چاہیے کیونکہ طلباء اور طالبات کے ساتھ بے انصافی ہوئی ہے۔

لاپتہ افراد کی بازیابی کے مظاہروں میں بھی شرکت

کوئٹہ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے جو مظاہرے وغیرہ ہوتے رہے ہانی بلوچ ان میں بھی شرکت کرتی رہیں۔

لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ جب لاپتہ افراد کے حوالے سے کوئی مظاہرہ وغیرہ ہوتا تو ہانی بلوچ ان میں شرکت کے لیے آتی رہتی تھیں۔

طلباء اور طالبات نے بھی اتوار کے دن ہانی بلوچ کو خراج عقیدت پیش کرنے کی ریلی میں بڑی تعداد میں شرکت کی۔

سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی میں ماس کمیونیکیشن کی طالبہ نعیمہ زہری نے بتایا کہ ہانی ان سے جونیئر تھی۔

اُنھوں نے کہا کہ اگرچہ ڈپارٹمنٹ میں وہ زیادہ تر خاموش رہتی تھیں لیکن کبھی کبھار وہ جس نوعیت کے جوتے اور چادر پہنتی تھی اس سے وہ عملی کامریڈ لگتی تھی۔

ان کے ایک قریبی عزیز اور تنظیمی ساتھی اورنگزیب بلوچ نے بتایا کہ وہ ایک باہمت اور نظریاتی کامریڈ تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں لڑکیاں تو دور کی بات ہے، لوگ اپنے لڑکوں کو بھی سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہانی بلوچ ہر قسم کی قدغنوں کی پرواہ کیے بغیر سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور شرکت کرتی رہیں۔

’ہمارا ایک قدامت پسند سماج ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ ہانی کے سامنے بھی بہت ساری رکاوٹیں تھیں لیکن وہ اس سماج کی تمام قدغنوں سے بغاوت کرتے ہوئے نہ صرف طلباء بلکہ دیگر لوگوں کے حقوق کے لیے فرنٹ لائن پر موجود رہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments