انڈیا، پاکستان تعلقات: انڈیا کے ’ذہنی معذور' شخص کی 23 سال بعد پاکستان سے واپسی


انڈیا کی وسطی ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع ساگر سے تعلق رکھنے والے پرہلاد سنگھ راجپوت ایک پاکستانی جیل میں 23 سال قید کاٹنے کے بعد حال ہی میں اپنے گھر واپس پہنچے ہیں۔

وہ انڈیا سے پاکستان کیسے پہنچے تھے یہ راز ابھی تک کوئی نہیں جان پایا اور دوسری طرف اُن کی رہائی اور گھر واپسی کی کہانی بھی کچھ کم دلچسپ نہیں ہے۔

اُن کے اہلخانہ اور گاؤں کے لوگوں کے مطابق پرہلاد سنگھ ذہنی طور پر معذور ہیں۔ وہ سنہ 1998 میں گاؤں سے اچانک غائب ہو گئے تھے اور دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک گم رہنے کے بعد 31 اگست 2021 کو واپس اپنے گاؤں پہنچے ہیں۔

ان کی بازیابی کے لیے ان کے خاندان کے افراد، پولیس افسران اور سماجی کارکنوں نے دو سال سے زیادہ عرصہ تک کوششیں کی ہیں۔

ایک بڑا معمہ اُن کے پاکستان پہنچنے کے حوالے سے ہے۔ انڈیا کے ضلع ساگر سے تقریباً 40 کلومیٹر دور گورجھمر علاقے میں گھوسی پٹی گاؤں ہے۔ قومی شاہراہ سے اس گاؤں کا فاصلہ تقریبا دو کلومیٹر ہے۔ پرہلاد سنگھ راجپوت اسی گاؤں سے غائب ہوئے تھے۔ اُس وقت اُن کی عمر 33 سال تھی۔

اس وقت اس علاقے میں نہ تو کوئی اچھی سڑک تھی اور نہ ہی آمد و رفت کا کوئی اچھا ذریعہ، لیکن پھر بھی پرہلاد سرحد پار کر کے پاکستان پہنچ گئے۔

مگر ان کے پاکستان پہنچنے کے راز سے پردہ اس لیے بھی نہیں اٹھ پا رہا ہے کیونکہ فی الحال وہ کچھ بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

پرہلاد کے پاکستان سے واپس آنے کے بعد ہم اُن سے ملنے ان کے بھائی کے گھر گئے۔ پربلاد کچھ نہیں بولتے۔ جب ہم نے اُن سے پوچھا کہ وہ پاکستان کیسے پہنچے تھے تو وہ جواب میں صرف مسکراتے رہے۔

پرہلاد پاکستان کیسے پہنچے؟ ان کے اہلخانہ کے پاس بھی اس کا جواب نہیں ہے۔

ان کے چھوٹے بھائی ویر سنگھ راجپوت نے کہا کہ ’ہم نہیں جانتے کہ وہ وہاں کیسے پہنچے۔ جب ہم نے ان سے پوچھا تو وہ کچھ بتا نہیں پا رہے ہیں۔ ان کی ذہنی حالت شروع سے ہی ٹھیک نہیں تھی۔ اس لیے ان سے زیادہ پوچھنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔‘

ویر سنگھ نے بتایا کہ ’لوگ کہتے ہیں کہ اس علاقے سے پہلے پیاز اور ٹماٹر پاکستان بھیجے جاتے تھے اور سامان ٹرک کے ذریعے بارڈر کے پار بھیجا جاتا تھا۔ ممکن ہے کہ وہ اسی طرح کسی ٹرک میں بیٹھ کر چلے گئے ہوں یا ڈرائیور نے اپنا کام کرنے کے لیے انھیں بٹھا لیا ہو اور وہاں سے وہ سرحد پار کر گئے ہوں۔‘

پاکستان میں ہونے کی خبر 2014 میں ملی

اس خاندان کو سب سے پہلے سنہ 2014 میں پرہلاد کے پاکستان میں ہونے کی خبر ملی۔ اس وقت پولیس نے ان کی والدہ گلاب رانی سے پوچھ گچھ کی تھی۔

پرہلاد کے بھائی کے مطابق ان کی والدہ گلاب رانی انھیں مسلسل یاد کرتی تھیں اور اُن کی آخری خواہش تھی کہ وہ انھیں ایک بار ضرور دیکھیں۔ لیکن گلاب رانی سنہ 2016 میں فوت ہو گئيں۔

پرہلاد پانچ بھائیوں اور تین بہنوں میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ ان کے ایک بھائی کی ان کی گمشدگی کے دوران وفات ہو چکی ہے۔ خاندان کے پاس رہنے کے لیے تھوڑی سی زمین ہے۔ گھر کے لوگ کچھ دوسرے چھوٹے موٹے کام کرتے ہیں۔

31 اگست کو ان کے گاؤں گھوسی پٹی میں تہوار کا ماحول تھا کیونکہ پرہلاد 24 سال بعد پاکستان سے واپس آئے تھے۔ پاکستان کے ساتھ انڈیا کے تلخ تعلقات کی وجہ سے لوگ انھیں دیکھنا بھی چاہتے تھے کہ وہ پاکستان کی جیل میں رہنے کے بعد کیسے واپس آنے میں کامیاب ہو پائے ہیں۔

مقامی لوگ اور رہنما اُن سے ملنے آ رہے ہیں۔ مقامی میڈیا میں پرہلاد کے حوالے سے کچھ خبریں بھی شائع ہوئیں کہ وہ کن حالات میں پاکستان میں رہتے تھے اور ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا تھا۔ لیکن ان کے خاندان نے کہا ہے کہ پرہلاد کچھ بتانے سے قاصر ہیں۔

30 اگست کو پرہلاد کو پاکستان کی جیل سے رہا کیا گیا اور شام پانچ بجے کے لگ بھگ انھیں واہگہ، اٹاری سرحد پر تعینات انڈین فوج کے حوالے کر دیا گیا۔ اس کے بعد فوج نے انھیں ضلع ساگر کے پولیس افسران اور پھر پولیس نے انھیں ان کے بھائی ویر سنگھ کے حوالے کیا۔

ریکارڈ کی تلاش

ان کا واپس آنا بھی ایک طویل عمل کا حصہ تھا جو سنہ 2019 میں شروع ہوا تھا۔ ان کے پاکستان میں ہونے کے بارے میں معلومات ملنے کے بعد خاندان نے ان کی واپسی کی کوششیں شروع کر دیں۔ ان کا سکول ریکارڈ نکالا گیا۔ پرہلاد نے تیسری جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی۔ ان کی مارکس شیٹ سکول میں موجود ریکارڈ سے نکالی گئی۔

پرہلاد نے سنہ 1974-75 میں گھوسی پٹی کے گورنمنٹ پرائمری سکول میں تعلیم حاصل کی تھی۔ سکول میں پڑھانے والے ایک استاد کملیش کمار مشرا نے کہا: ’اتنا پرانا ریکارڈ حاصل کرنا آسان نہیں تھا۔ لیکن ریکارڈ مل گیا اور خاندان نے ان کاغذات کو اپنی اپیل میں استعمال کیا تاکہ اسے آسانی سے واپس وطن لایا جا سکے۔‘

یہ بھی پڑھیے

بھٹک کر پاکستان آنے والی ’ہندوستان کی بیٹی‘ کو آج بھی اپنے گھر کی تلاش

’جب تک مجھ میں آخری سانس ہے میں اُن کا انتظار کروں گی‘

پاکستان کے پہلے وزیر قانون جنھوں نے اپنے آخری ایام انڈیا کی جھگیوں میں گزارے

گاؤں والے انھیں ’پریشان کرنے والے شخص‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ گاؤں میں حجام کا کام کرنے والے گجودھر سین کا کہنا ہے کہ وہ اُن کی حرکتوں سے پریشان رہا کرتے تھے۔ انھوں نے بتایا: ’بچپن میں وہ دکان پر آ کر مختلف طریقوں سے پریشان کرتا تھا۔ اس وقت بھی اس کی ذہنی حالت اچھی نہیں تھی۔‘

دوسری طرف گورجھمر میں رہنے والے دیپک وشوا کرما کا کہنا ہے کہ پرہلاد کی واپسی خاندان کے لیے بہت بڑی بات ہے۔ انھوں نے کہا: ’یہ شخص نہ تو بات کر سکتا ہے اور نہ ہی ٹھیک سے سمجھ سکتا ہے، پھر بھی وہ پاکستان کی جیل سے واپس آیا ہے۔‘

آسان واپسی نہیں تھی

گورجھمر تھانہ علاقہ کے انچارج اروند سنگھ ٹھاکر نے بتایا کہ اس معاملے میں کافی عرصے سے خط و کتابت جاری تھی۔ اروند سنگھ ٹھاکر نے کہا کہ ’ہم سے وقتاً فوقتاً یہاں سے کاغذات بھیجنے کے لیے کہا جاتا، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ یہ پرہلاد وہی ہے جو اس علاقے سے غائب ہو گیا تھا۔‘

اروند سنگھ نے بتایا: ’سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سفارت خانے کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے۔ وہاں سے ڈاک اور خط و کتابت کے ذریعے پاکستان میں انڈین سفارت خانے کے ساتھ بھی مستقل رابطہ برقرار تھا۔

سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نے اس کے لیے گورجھمر سٹیشن کو نوڈل ایجنسی بنایا تھا۔ پولیس کے لیے بھی یہ ایک طویل اور صبر آزما مرحلہ تھا کیونکہ وہ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ وہ پرہلاد جس کی معلومات وہ بھیج رہے تھے وہی شخص ہے یا کوئی اور۔ لیکن آخر میں انھیں یقین ہو گیا کہ یہ وہی پرہلاد ہے۔

اس سوال پر کہ پاکستان کو کیسے پتہ چلا کہ یہ شخص مدھیہ پردیش کے ساگر ضلع سے تعلق رکھتا ہے؟ ساگر کے ایس پی اتل سنگھ نے کہا کہ ’جیل میں تفتیش کے دوران اس نے ضلع ساگر کا نام لیا تھا۔ اس کے بعد وہاں کی حکومت نے یہ معلومات دیں۔ اس کے بعد ساگر سے لاپتہ ہونے والے لوگوں میں سے پرہلاد نامی شخص کی تلاش کی گئی۔

حکام نے کیا بتایا؟

اتل سنگھ نے بتایا کہ وہ حکومت ہند کی مختلف ایجنسیوں سے مسلسل رابطے میں رہے۔ انھوں نے جو بھی معلومات چاہیں وہ فوری طور پر فراہم کر دی گئیں تاکہ پرہلاد کی رہائی جلد سے جلد ہو سکے۔

سماجی کارکن سید عابد حسین بیرون ملک پھنسے ہوئے لوگوں کو ان کے وطن واپس آنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر انڈیا کا کوئی شخص پاکستان میں پھنس جائے تو وہاں سے جلد نکلنا آسان نہیں ہے۔

پاکستان سمیت کئی خلیجی ممالک میں پھنسے ہوئے بہت سے لوگوں کو واپس لانے میں کامیابی حاصل کرنے والے سید عابد حسین کے مطابق ’جب کوئی شخص پاکستان میں پھنس جاتا ہے تو سب سے پہلے وہاں کی حکومت اسے جاسوس سمجھتی ہے اور خود کو بے قصور ثابت کرنے میں کافی وقت لگتا ہے۔‘

عابد حسین کہتے ہیں کہ پہلے پاکستان کی سرحد پر باڑیں نہیں تھیں اور لوگ بھٹکتے ہوئے وہاں پہنچ جاتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’کسی بھی شخص کو پاکستان سے باہر لانا آسان نہیں ہے جبکہ دوسرے ممالک سے لانا نسبتاً آسان ہے۔‘

ایسی صورتحال میں پرہلاد نے پاکستانی حکام کو اپنی بے گناہی کی یقین دہانی کیسے کرائی ہو گی اس بارے میں کوئی قیاس آرائی ہی کی جا سکتی ہے۔ عابد اب تک اپنی کوششوں سے پاکستان سے سنیل اویکے اور جتیندر ارجن وار کو لانے میں کامیاب رہے ہیں جبکہ وہ ایک اور شخص راجو لکشمن کو لانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔

جب کوئی شخص پاکستان میں ہوتا ہے تو عابد پہلے اسلام آباد میں انڈین ہائی کمشنر کو خط لکھتے ہیں اور اس کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ اس کے بعد عام طور پر ہائی کمشنر وہاں کی حکومت سے بات کرتے ہیں۔ اس کے بعد معاملہ دونوں ممالک کے قوانین کے مطابق آگے بڑھتا ہے۔

عابد نے یہ بھی بتایا کہ جب کوئی شخص پکڑا جاتا ہے تو غیر قانونی دستاویز یا ملک میں غیر قانونی داخلے کے نام پر اسے چار سال کی سزا ہوتی ہے اور تقریباً سبھی کو یہ سزا پوری کرنی ہوتی ہے۔ اس کے بعد ہی واپسی کی بات شروع ہو پاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments