محفوظ اسقاط حمل کا عالمی دن یعنی ’سیف ابارشن ڈے‘: دنیا بھر میں خواتین کو اسقاطِ حمل سے متعلق کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے


سیف ابارشن ڈے، اسقاط حمل، خواتین، فون
Getty Images/BBC
کئی خواتین کو لگتا ہے کہ اسقاط حمل کے دوران وہ تنہا ہوتی ہیں اور لوگ ان کے بارے میں بُرے خیالات رکھنے لگتے ہیں
کیا قانون میں اسقاطِ حمل کی اجازت ہونی چاہیے؟ یہ سوال دنیا بھر میں زیر بحث آتا ہے۔

امریکی ریاست ٹیکساس میں حمل کے پہلے چھ ہفتوں کے بعد اسقاط حمل پر پابندی کا قانون رواں ماہ نافذ ہوا ہے جبکہ میکسیکو کی شمالی ریاست میں اسقاط حمل کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔

امریکہ میں تولیدی صحت کی تنظیم ’اپاس‘ کی سربراہ انو کمار کہتی ہیں کہ ’سچ یہ ہے کہ اسقاط حمل تک رسائی ہمیشہ سے مشکل رہی ہے۔‘

لیکن وہ سمجھتی ہیں کہ چیزیں صحیح سمت میں جا رہی ہیں۔ ’سنہ 1994 سے 40 سے زیادہ ملکوں نے اسقاطِ حمل سے متعلق قوانین میں نرمی اختیار کی ہے۔‘

لیکن اس بحث سے پیچھے کچھ ذاتی تجربات ہیں جو اکثر راز میں رہتے ہیں۔

محفوظ اسقاط حمل کے عالمی دن ’سیف ابارشن‘ پر ہم نے پانچ خواتین سے حمل ختم کرنے کے تجربات جاننے کی کوشش کی ہے۔ اُن کا تعلق دنیا کے مختلف حصوں سے ہے اور انھوں نے اپنے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی ہے۔

’میں اس شخص کو اپنے بچے کا والد نہیں بنانا چاہتی تھی‘

بینکاک کی سینڈرا کہتی ہیں کہ حمل کے پہلے آٹھ ہفتوں کے دوران انھوں نے اپنے جسم میں کچھ تبدیلیاں رونما ہوتے دیکھیں۔ انھوں نے پریگنینسی ٹیسٹ کروایا تو یہ مثبت آیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اس وقت تک معلوم ہو چکا تھا کہ میں اس شخص کو اپنے بچے کا والد نہیں بنانا چاہتی۔ وہ صرف سیکس کے لیے میرا دوست تھا اور مجھے اپنے کیریئر کو آگے لے کر بڑھنا تھا۔‘

انھیں تھائی لینڈ میں تمتانگ گروپ کے بارے میں معلوم تھا جو مقامی سطح پر محفوظ اسقاط حمل کے حوالے سے معلومات فراہم کرتا ہے۔ انھوں نے اس گروپ سے مدد مانگی۔ ’مجھے ایک کلینک کا پتہ چلا لیکن پروسیجر سے قبل رات کو میں پریشان تھی۔‘

کچھ عرصہ قبل تک تھائی لینڈ میں اسقاط حمل غیر قانونی تھا۔ یہ صرف ریپ یا انسیسٹ جیسے کیسز میں قانونی تھا، یا اگر ماں کی صحت شدید خطرے میں ہو۔ سینڈرا نے فیصلہ کیا کہ وہ اسقاط حمل کروائیں گی مگر مسئلہ یہ تھا کہ جب انھوں نے یہ فیصلہ کیا یعنی سنہ 2019 میں تو تب یہ غیر قانونی تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں سوچ میں پڑ گئی۔ کیا میں انھیں یہ بتاؤں گی کہ مجھے جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا یا میں انھیں مجبور لگوں گی اگر میں یہ کہوں کہ میں مالی طور پر بچے کو برداشت نہیں کر سکوں گی؟ میرے ذہن میں ہر طرح کے خیالات گردش کر رہے تھے۔‘

خاتون، تنہا

سینڈرا کہتی ہیں کہ اسقاط حمل کے سفر میں وہ تنہا محسوس کر رہی تھیں

اسقاط حمل کے روز انھیں سوال نامہ دیا گیا تاکہ وہ بتائیں کہ وہ کس طرح کے ذہنی تناؤ کا شکار ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے لگا میں تنہا ہوں اور یہ کہ سب میرے بارے میں بُرے خیالات رکھتے ہیں۔‘

’میں اس بارے میں اپنے سب سے اچھے دوست کو بھی نہ بتا سکی کیونکہ ہمارے کلچر میں اسقاط حمل کے خلاف سوچ عام ہے۔ ٹی وی شو میں یہ بتایا جاتا ہے کہ اسقاط حمل کرانے والی خواتین کے پیٹ میں ایک بچہ رہتا ہے جو انھیں ساری زندگی ڈراتا ہے۔‘

جب انھیں آپریٹنگ روم بلایا گیا تو ان کی پریشانی کم ہوئی۔ ’صرف 15 منٹ میں سب ختم ہو گیا۔ کچھ دیر آرام کے بعد میں واپس کام پر چلی گئی۔‘

’میں خود کو بتاتی رہی کہ سب ٹھیک ہے مگر ایک دن سوشل میڈیا پر اسقاط حمل کے بارے میں بُرے تبصرے پڑھے تو آبدیدہ ہو گئی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ انھیں امید ہے ایک دن خواتین کو اپنے جسم پر مکمل خود مختاری حاصل ہو جائے گی۔ ’قوانین چاہے جتنے مرضی نرم ہو گئے ہوں، اس بارے میں اب بھی ایک بدنامی کا تاثر ہے جو ہمیں کنٹرول کرتا ہے۔‘

’اسقاط حمل کے بارے میں کھل کر بات ہو گی تو برادری مضبوط ہو گی‘

امریکہ میں مقیم ایرن نے پہلا اسقاط حمل 28 سال کی عمر میں کروایا تھا۔ اُنھوں نے حال ہی میں 36 سال کی عمر میں ایک اور ابارشن کروایا ہے۔ وہ بی بی سی کو بتاتی ہیں کہ ’مجھے لگتا تھا کہ اتنے سارے اسقاطِ حمل کروانا عام نہیں۔‘

’مگر میں نے اسقاطِ حمل کے بارے میں اپنے حالیہ کام کے دوران جانا ہے کہ (متعدد) اسقاطِ حمل انتہائی عام ہیں۔‘

مگر اُن کا ماننا ہے کہ اس کے باوجود حمل ختم کروانے کے گرد موجود بدنامی اور شرمندگی کچھ خاص متاثر نہیں ہوئی۔

’اس کے بارے میں بات کرنا اب بھی کافی حد تک ممنوع سمجھا جاتا ہے، یہاں تک کہ خود کو ترقی پسند اور لبرل کہلانے والے گروپوں اور حتیٰ کہ تولیدی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپوں میں بھی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے امید ہے کہ اس میں جلد تبدیلی آئے گی۔‘

ایرن ایک امریکی تنظیم ’شاؤٹ یور ابارشن‘ کے ساتھ مل کر تولیدی حقوق کے لیے مہم چلا رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس سے اُنھیں اپنے اسقاطِ حمل کے تجربات کے بارے میں زیادہ کُھل کر بات کرنے میں مدد ملی ہے۔

’یہ میرے لیے بڑی تبدیلی ہے۔ جب میں نے یہ کام شروع کیا تھا تب مجھے ’اسقاطِ حمل‘ کا لفظ بھی بلند آواز بولنے میں مشکل ہوتی تھی۔ اب مجھے اسقاطِ حمل کے بارے میں بات کرنا بہت آسان اور نارمل لگتا ہے۔‘

حمل

ایرن کو حاملہ ہوتے ہی جسمانی اعتبار سے معلوم ہوجاتا تھا کہ وہ حاملہ ہیں

وہ ایک مذہبی خاندان میں پلی بڑھی تھیں جہاں اسقاطِ حمل کا تصور قابلِ قبول نہیں تھا۔ ’میں اسقاطِ حمل کروا کر بہت شرمندہ تھی اور میں نے اپنے دوستوں اور خاندان سے مدد نہیں مانگی۔‘

’خاص طور پر ایک حمل ساقط کروا کر مجھے نہیں لگتا تھا کہ میں دوبارہ اسقاطِ حمل کے لیے مدد مانگ سکوں گی۔‘

ایرن کو ایک مرتبہ ہی حیض نہ آنے پر یہ معلوم ہو گیا تھا کہ وہ حاملہ ہیں۔

’میں جب بھی حاملہ ہوتی میرا جسم فوراً مختلف محسوس ہونے لگتا۔ مجھے معلوم ہو جاتا کہ کچھ مختلف ہے۔‘

مگر اُنھیں کبھی بھی اسقاطِ حمل کے فیصلے میں مشکل نہیں پیش آئی۔

’میں ماں نہیں بننا چاہتی تھی اور میں اپنے کسی بھی تعلق میں بچے کو جنم نہیں دینا چاہتی تھی۔‘

اُن کے مطابق ’مجھے لگتا ہے کہ اس خیال نے تولیدی حقوق کی تحریک کو بہت نقصان پہنچایا ہے کہ ہر کسی کے لیے حمل ساقط کروانا ایک مشکل اور صدمہ انگیز فیصلہ ہوتا ہے۔‘

وہ اسقاطِ حمل کے بعد تنہائی کے احساس کو بیان کرتے ہوئے اُمید کا اظہار کرتی ہیں کہ اس متعلق بدنامی ختم ہو جائے گی۔

’اسقاطِ حمل ہمیشہ ہی عام رہا ہے مگر اس کے متعلق بیانیے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسقاطِ حمل بہت کم ہوتے ہیں اور انھیں صرف آخری قدم ہونا چاہیے۔‘

’ہم میں سے جتنے زیادہ لوگ اپنے اسقاطِ حمل کے بارے میں بات کریں گے، ہماری برادری اتنی زیادہ مضبوط ہو گی اور اس کے متعلق بدنامی ختم ہو گی۔ ہم اس میں ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں۔‘

’شرم کے باعث میں سماجی تنہائی کی شکار ہو گئی‘

انڈیا سے اندو بی بی سی کو بتاتی ہیں کہ ’میں 31 سال کی تھی اور میرا فون گم ہو گیا تھا۔ میں نیا فون لینے کے لیے گئی اور میرا جی مِتلانے لگا۔ اس وقت میرے پارٹنر نے مجھ سے کہا کہ مجھے حمل کا ٹیسٹ کروا لینا چاہیے۔‘

یہ ٹیسٹ مثبت آیا اور اُن کا واضح خیال تھا کہ وہ اسقاط حمل کروانا چاہتی ہیں۔

’میں بطور آرٹسٹ اپنا کریئر شروع ہی کر رہی تھی اور میرے پارٹنر بھی میرے ہم خیال تھے۔‘

وہ ایک گائناکالوجسٹ کے پاس گئیں جن کے ساتھ وہ سکول جایا کرتی تھیں اور یوں اُنھوں نے دواؤں کے ذریعے ’باآسانی‘ اپنا حمل ختم کروا کر لیا۔

مگر بعد میں جو ہوا اس سے اُنھیں دھچکا لگا۔

’اسقاطِ حمل کے بارے میں موجود بدنامی کی وجہ سے مجھے چُپ رہنا پڑا اور اس شرمندگی نے مجھے سماجی طور پر تنہا کر دیا۔‘

’اسقاط حمل کے بعد بے انتہا خون بہنے کے باعث میرا جی مِتلانے لگا اور مجھے ڈر لگنے لگا اور میں شدید روئی۔‘

حمل

اندو کہتی ہیں کہ وہ اسقاطِ حمل کے بعد تنہائی کا شکار ہو گئیں

ستمبر 2020 میں میڈیا تنظیم ’انڈیا سپینڈ‘ کی رپورٹ کے مطابق اسقاطِ حمل اب بھی انڈیا میں بدنامی سے گھرا ہوا ہے جہاں خواتین کی آواز ’بمشکل ہی کوئی تحریک پیدا کرتی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں: ’مجھے غصہ تھا کہ بھلے ہی ہم دونوں اس میں شریک تھے مگر مجھے اس سے جسمانی اور ذہنی طور پر گزرنا پڑا۔ ایک سال سے بھی کم عرصے میں، میں اینٹی ڈپریسنٹس (ذہنی دباؤ کم کرنے والی ادویات) پر آ گئی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ اس سے اُن کے مستقبل کے تعلقات متاثر ہوئے اور وہ ایک طویل عرصے تک سیکس کرنے سے ڈرنے لگیں۔ اس سے اُنھیں جذباتی سہارے کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔

’میں اب اس بارے میں سوچوں تو مجھے لگتا ہے کہ اگر میرے پاس اسقاطِ حمل کے متعلق بات کرنے کی گنجائش ہوتی تو چیزیں کافی مختلف ہوتیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

وہ ملک جہاں اسقاط حمل کی شرح پیدائش سے بھی زیادہ

’اسقاط حمل جرم نہیں ہونا چاہیے‘

اسقاط حمل کی اجازت نہ ملی، دس سالہ بچی ماں بننے پر مجبور

’اسقاطِ حمل برادری میں ایک گناہ سمجھا جاتا ہے‘

ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو کی جوسیلین نے چار ماہ قبل ہی اپنے دوسرے بچے کو جنم دیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھ میں چھاتیاں پھولنے، بھوک کی کمی اور تھکاوٹ جیسی علامات ظاہر ہونے لگی تھیں۔‘

جلد ہی اُنھیں معلوم ہوا کہ وہ دوبارہ حاملہ ہو چکی ہیں اور اُنھوں نے اسقاط حمل کروانے کا فیصلہ کر لیا۔ ’میرے بچے کی صحت وہ پہلی ترجیح تھی جس کے باعث یہ مرحلہ شروع ہوا۔ اسقاطِ حمل کے منفی طبی نتائج کے بارے میں خوف تھا مگر میں اپنے شوہر کی حوصلہ افزائی کے باعث اس سے ابھر پائی۔‘

حمل

جوسیلین چار ماہ پہلے دوسرے بچے کو جنم دینے کے بعد دوبارہ حامل ہو گئیں

اُنھوں نے اپنی برادری میں کسی کے بھی اسقاطِ حمل کے بارے میں نہیں سُنا تھا۔ ’اسقاطِ حمل یہاں بہت راز میں رکھا جاتا ہے اور اسے گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ اگر لوگوں کو اس بارے میں پتا چل جائے تو حمل ساقط کروانے والے کو بری نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔‘

جوسیلین کہتی ہیں کہ اُنھیں ڈاکٹر کو اسقاطِ حمل پر راضی کرنے کے لیے قائل کرنے میں کچھ وقت لگا۔ ’اُنھوں نے براہِ راست میرے فیصلے کو قبول نہیں کیا اور مجھے بہت مشورے دیے مگر میں نے یہ کرنے کے لیے اُن کی منت کی۔‘

اُنھوں نے رازداری کی خاطر یہ کام گھر پر کروانے کا فیصلہ کیا۔

’میں ڈری ہوئی تھی کیونکہ میں نے یہ پہلے کبھی نہیں کیا تھا مگر مجھ میں ہمت تھی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’نرسنگ عملے نے میری مدد کی اور یہ مکمل ہونے پر میں پرسکون محسوس کرنے لگی۔‘

جوسیلین کہتی ہیں کہ 31 سال کی عمر میں کروائے گئے اسقاطِ حمل کے باعث وہ مزید آگاہ ہو گئی ہیں۔ ’اب میں ایک اور حمل سے بچنے کے لیے برتھ کنٹرول پر ہوں۔ اس تجربے نے مجھے اعتماد دیا کہ یہ دوبارہ نہیں ہو گا۔‘

’میرا خواب ہے کہ ایک دن خواتین آزاد ہوں گی‘

میکسیکو کی ماریہ کو ڈاکٹر کے ساتھ پہلی ملاقات میں ہی حقیقت کا احساس ہو گیا تھا۔

وہ اس وقت 35 سال کی تھیں اور اسقاطِ حمل کروانا چاہتی تھیں۔ وہ اس خیال کے ساتھ پلی بڑھی تھیں کہ ’اسقاطِ حمل درحقیقت قتل ہے اور یہ انتہائی خطرناک ہوتا ہے اور اس میں ایسی مخلوق کا خاتمہ کر دیا جاتا ہے جو محسوس کرنا، بولنا اور سوچنا شروع کر چکی ہوتی ہے۔‘

مگر یہ سب تبدیل ہونے والا تھا۔ ’اس لمحے نے سب تبدیل کر دیا۔ ڈاکٹر نے مجھے یہ مرحلہ ایسے سمجھایا جیسے وہ میری کسی اور بیماری کا علاج بتا رہی ہوں۔‘

’اُنھوں نے مجھ سے سوالات نہیں کیے، مجھے ڈانٹا نہیں، مجھے غیر ذمہ دار نہیں قرار دیا۔ اس وقت مجھے اسقاطِ حمل سے متعلق بدنامی کے بوجھ کا احساس ہونے لگا۔‘

حمل

ماریہ کہتی ہیں کہ وہ اپنے خاندان سے اس بارے میں بات نہیں کر سکیں لیکن اُن کے شریکِ حیات نے اُن کا ساتھ دیا

وہ کہتی ہیں کہ اسقاطِ حمل قانونی ہونے کے باوجود میکسیکو سٹی میں محفوظ اسقاطِ حمل تک رسائی مشکل ہے۔ نجی طور پر ایسا کروانا بہت مہنگا ہے مگر اس کے باوجود اُنھوں نے رازداری کی خاطر نجی ادارے سے ہی اسقاطِ حمل کروایا۔

میرے خاندان کو میرے اسقاطِ حمل کے بارے میں علم نہیں۔ میں نہیں جانتی کہ اُن کا ردِ عمل کیا ہوگا۔ پر مجھے یقین ہے کہ ان میں سے کچھ لوگوں کے لیے یہ دردناک ہوگا، سب سے پہلے میری والدہ کے لیے۔‘

وہ اسقاطِ حمل کے بارے میں اپنے خاندان سے ہونے والی ایک بحث کو یاد کرتی ہیں جب 14 سال کی عمر میں اُن کی بہن حاملہ ہو گئی تھیں۔ ماریہ نے تجویز دی کہ اُنھیں اسقاطِ حمل کروانا چاہیے۔ ’وہ اس بات کو سوچ کر ہی اتنا برا مان گئے تھے اور پھر میں نے اس موضوع کو دوبارہ نہیں چھیڑا۔‘

ماریہ نے گھبراتے ہوئے اپنے شریکِ حیات کی موجودگی میں اسقاطِ حمل کروایا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اس میں شاید 30 منٹ یا اس سے کم وقت لگا ہوگا۔‘

’میرے لیے یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ اتنے کم وقت میں وہ مسئلہ حل ہو جائے گا جسے میں اتنا بڑا مسئلہ سمجھ رہی تھی جو میری زندگی بھر پر اثر ڈال دے گا۔‘

اب وہ 38 سال کی ہو چکی ہیں اور وہ بچے نہیں چاہتیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہم (میں اور میرے پارٹنر) نے اس قدر پیچیدہ دنیا میں ماں اور باپ کے فرائض سے آگاہی کے باعث ایسا نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

’میرا خواب ہے کہ ایک دن خواتین اپنی زندگیوں کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے مکمل آزاد ہوں گی، خاص طور پر یہ کہ ہمارے جسم کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ایک دن یہ خواب دنیا بھر کے لیے پورا ہو گا۔‘

٭شناخت کے تحفظ کے لیے نام بدل دیے گئے ہیں۔

اضافی رپورٹنگ از ایمیری ماکومینو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments