حکومتی نو رتنوں کے بنائے ذہن


میڈیا نام کا جو جانور ہے اس کے حقیقی خدوخال کا سنجیدہ مطالعہ کینیڈا کے ایک محقق نے شروع کیا تھا۔ نام تھا اس کا ہر بڑٹ مارشل میک لوہان۔ ٹیلی وژن کو اس نے گہری تحقیق کے بعد Idiot Boxپکارا۔ اصرار کیا کہ اس کے ذریعے محض شوبازی ہوسکتی ہے۔ سنجیدہ گفتگو نہیں۔ انٹرنیٹ کے فروغ سے کئی دہائیاں قبل اس نے دریافت کرلیا تھا کہ دنیا ایک عالمی گائوں میں تبدیل ہونے والی ہے جہاں جغرافیائی دوریاں بے معنی ہوجائیں گی۔ کسی دور دراز قصبے میں بھی کوئی اہم واقعہ ہوگیا تو اس کے مثبت یا منفی اثرات تمام عالم کے لئے سانجھے ہوں گے۔

میک لوہان کی شخصیت اور اس کی جانب سے ہوئی تحقیق مگر اس کالم کا موضوع نہیںمیں تو محض خبردار کرنا چاہ رہا ہوں کہ نومبر کے مہینے سے اپنا ہیٹر اور گیزر چلانے سے قبل سو بار سوچیئے گا۔ گیس کے اس کے بعد جو بل آئیں گے وہ آپ کا دماغ چکرا دیں گے۔ جو ہونے جارہا ہے اس کی بابت چند دن قبل ہی اس کالم میں چند اشارے دئیے تھے۔ بدقسمتی مگر یہ رہی کہ ان کی جانب مناسب توجہ نہیں دی گئی۔

ہمیں تلخ حقائق کو بھانپنے اور جانچنے سے محروم رکھنے کی خاطر سوشل میڈیا ایجاد ہو چکا ہے۔ فیس بک اور ٹویٹر پر چسکہ فروشی کا غلبہ ہے۔ لوگوں کو بدنام کرنے والی وڈیوز میسر نہ ہوں تو ہم اپنے تعصبات کو جلاہلانہ ضدکے ساتھ پھیلانا شروع ہوجاتے ہیں۔ ہمارے خیالات کو ان کے مخالفین جنونی شدت سے رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں رونق لگ جاتی ہے۔

سوشل میڈیا کے پھیلائے ہیجان پر قابو پانے کا طریقہ امریکہ جیسے ملک بھی دریافت نہیں کرپائے ہیں جہاں انٹرنیٹ اور سمارٹ فون ایجاد ہوئے تھے۔ سوشل میڈیا مگر ابلاغ واظہار کا محض ایک پلیٹ فارم ہے۔ لوگوں کی آگاہی کے لئے ریڈیو اور ٹی وی چینل بھی ہیں۔ اس کے علاوہ میری دانست میں ابلاغ کا مؤثر ترین ذریعہ اخبار ہے۔ صحافت کے بنیادی تقاضوں کو فقط یہ ذریعہ ہی ہمیشہ مدنظر رکھتا ہے۔ اس کے ذریعے دی گئی ’’خبر‘‘ کو سو جتن کے بعد مصدق رکھنے کی کوشش ہوتی ہے۔

بدقسمتی مگر یہ ہوگئی ہے کہ میرے جیسے قلم گھسیٹ صبح اُٹھ کر کچھ لکھنے سے قبل فیس بک اور ٹویٹر کا جائزہ لیتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر کیا بک رہا ہے۔ جو موضوع سب سے زیادہ رش لے رہا ہو اس کی بابت اپنے خیالات کے اظہار سے دیہاڑی لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس روش پر غور کرتے ہوئے میک لوہان کی یاد ستائی۔ آج سے کئی دہائیاں قبل اس نے سادہ ترین الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ The Medium is the Message۔ آسان ترین اردو میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو خیال شاعری میں ادا ہوسکتا ہے وہ نثر کے ذریعے بیان نہیں ہوسکتا۔ اس حقیقت کو تسلیم کرلیں تو یاد رکھنا ہوگا کہ اخبار سوشل میڈیا نہیں۔ یہ ریڈیو اور ٹیلی وژن بھی نہیں۔ اس کے لئے لکھتے ہوئے ہمیں وہی بات اجاگر کرنے کی کوشش کرنا چاہیے جو فقط اخبار نامی ذریعہ ابلاغ کے ذریعے ہی تفصیل سے بیان کی جاسکتی ہے۔

دانشورانہ دِکھتی تمہید کے بعد بڑھتے ہیں بنیادی حقیقت کی طرف اور وہ یہ ہے کہ پاکستان میں قدرتی گیس کے جو ذخائر موجود تھے وہ ہم کئی دہائیوں سے بے دریغ انداز میں خرچ کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ ہمارے ہاں جو گیس باقی رہ گئی ہے وہ اب ہماری اجتماعی طلب کے لئے کافی نہیں۔ ہمیں گیس اب دیگر ممالک سے منگوانا پڑ رہی ہے۔ ہمارے ہمسایے میں ایران قدرتی گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔ ہم پائپ لائن کے ذریعے وہاں سے گیس منگوا کر اپنی اجتماعی طلب بآسانی پوری کر سکتے ہیں۔

ایران کو مگر اس کے ایٹمی پروگرام کی وجہ سے بین الاقوامی اداروں نے امریکہ کی ایما پر شدید اقتصادی پابندیوں میں جکڑ رکھا ہے۔ ہم وہاں سے گیس منگوانا شروع ہوگئے تو امریکہ جو ہماری ٹیکسٹائل مصنوعات کا سب سے بڑا خریدار ہے انہیں اپنے ہاں آنے سے روک دے گا۔ ہم بین الاقوامی منڈی سے کٹ جائیں گے۔

ایران کے علاوہ قطر بھی قدرتی گیس سے مالا مال ہے۔ سمندری تجارت کی نگاہ سے دیکھیں تو ہمارے قریب بھی ہے۔ اسی باعث وہاں سے پاکستان کی ضروریات کے مطابق گیس منگوانے کا طویل المدت معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کی بابت مگر ہزار ہا جائزوناجائز سوالات اٹھے۔ سکینڈل بن گیا۔ شاہد خاقان عباسی توانائی کے وزیر ہوا کرتے تھے۔ نواز شریف کی نااہلی کے بعد ہمارے وزیر اعظم بھی ہوگئے۔ احتساب بیورو  نے مگر انہیں سنگین مقدمات میں جکڑ رکھا ہے۔ شاہد خاقان عباسی کا حشر دیکھتے ہوئے عمران حکومت اور اس کے توانائی کے شعبے والے مدارالمہام دیگر ممالک سے گیس کے سودے کرنے سے قبل سوبار سوچنے کو مجبور ہیں۔ وزارتِ توانائی کے افسر کسی فائل پر دستخط کرنے کو آمادہ نہیں ہوتے۔

احتساب بیورو کے پھیلائے خوف کی وجہ سے عمران حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد آنے والے ہر سرد موسم میں گیس کا بحران نمودار ہونا شروع ہوگیا۔ غلام سرور خان اس شعبے کے پہلے وزیر تھے۔ نہایت رعونت سے گیزر کو عیاشی ٹھہراتے رہے۔ گیس کے مگر جو بل آرہے تھے وہ سب سے زیادہ شہری متوسط طبقے کے اس حصے کو متاثر کررہے تھے جنہوں نے 2018 کے انتخاب میں تحریک انصاف کو بڑھ چڑھ کر ووٹ دیا تھا۔ غلام سرور خان کو ان کی تسلی کے لئے قربانی کا بکرا بنادیا گیا۔ ان کے علاوہ گیس کے معاملات کی نگہبانی کے لئے جو ٹیکنوکریٹ وزیر اعظم کے مشیر بنائے گئے تھے یکے بعد دیگرے استعفیٰ دینے کو مجبور ہوئے۔ آخری قربانی تابش گوہر نامی ٹیکنوکریٹ کی ہوئی ہے۔

گیس کے عام صارف ہوتے ہوئے میرے اور آپ جیسے لاوارث پاکستانیوں کو اس امر میں ہرگز کوئی دلچسپی نہیں کہ توانائی کی وزارت میں کس کی ماں کو ماسی کہیں۔ ہم تو فقط یہ چاہتے ہیں کہ موسم سرما کے دوران ہمیں اپنے گھر اور استعمال کا پانی گرم رکھنے کے لئے گیس باقا عدگی سے ملتی رہے۔ اس کے عوض جو ماہانہ بل آئے وہ ہمارے گھریلو بجٹ کے لئے بھونچال کا باعث نہ ہو۔ آنے والے موسم سرما میں لیکن مذکورہ بھونچال کو ٹالنا ناممکن نظر آرہا ہے۔

حکومتی نورتنوں کو ممکنہ بھونچال کا بخوبی اندازہ تھا۔ اسی باعث نہایت ثقیل انگریزی میں سمریاں تیار ہوئیں جن کے ذریعے وزیر اعظم کو سمجھانے کی کوشش ہوئی کہ گیس کے صارفین کو مائل کیا جائے کہ وہ اپنے گھر گرم رکھنے کے لئے وہ آلات استعمال کریں جو بجلی سے چلتے ہیں۔ یہ تجویز دیتے ہوئے یہ حقیقت بھلا دی گئی کہ ہمارے ہاں بجلی بھی نسبتاََ سستے داموں میسر نہیں ہے۔ میرے گھر مثال کے طورپر بجلی کا بل اس مہینے کے آغاز میں اتنا ہی آیا جتنا گزشتہ مہینے آیا تھا جبکہ ہمارے اندازے کے مطابق ہم نے گزشتہ کے مقابلے میں اب کی بار کم بجلی خرچ کی تھی۔ پاکستان کے ہر شہر سے شکایتیں موصوف ہورہی ہیں کہ بجلی کے صارفین اپنے ہاں آئے بلوں کو زبردستی لیا بھتہ شمار کررہے ہیں۔ حکومتی نورتن مگر وعدہ کر رہے ہیں کہ ہم نے اگر ہیٹر اور گیزر بجلی سے چلانا شروع کردئیے تو وہ ہمیں گیس کے مقابلے میں ہر صورت سستے محسوس ہوں گے۔ حکومتی وعدوں پر لیکن صارف اعتبار کو تیار نہیں۔ حکومتی نورتن لہٰذا ذہن بنائے ہوئے ہیں کہ ہمیں گیس استعمال کرنے کی سزا دی جائے۔ ہمیں گمراہ کرنے کے لئے اس کے لئے انگریزی کا جو لفظ استعمال ہوتا ہے وہ مجھ ایسے نام نہاد پڑھے لکھے شخص کو بھی سمجھ نہیں آتا۔ اس کی تشریح کرتے ہوئے اگرچہ Punitive یعنی سزا کا لفظ یقینا استعمال ہو رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments