خواہشات کے گچھے


دنیا خواہشات کا گھر ہے جو ہمارے دل و دماغ کی سجاوٹ کا وہ آئینہ ہے، جس میں خواہشات کی تصویر بار بار بن کر کبھی ٹوٹتی اور کبھی بکھرتی ہے۔ ظاہر ہے جو چیز بار بار نظر آئے گئی اس کی کشش ثقل حسرتوں کا جہاں آباد کر لے گی اور وہ چیز انسان کے مصمم ارادے میں شامل ہو جائے گی پھر انسان کے لیے جتنا ممکن ہو گا وہ اس کے حصول کے لیے شب و روز تگ و دو شروع کر دے گا۔

اگر اس بات کا فطری جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی فطرت کو خواہشات کے انبار نے جکڑ رکھا ہے جو ہر وقت ہر روح و قلب میں اچھل کود رہے ہوتے ہیں۔ لیکن جب ان خواہشات کی گرفت مضبوط ہو جاتی ہے تو یہ طبیعت میں بے چینی کی لہریں پیدا کر دیتی ہیں۔ پھر یہ لہریں زور زور سے اچھل کود کر قلب و ذہن میں ایسا شور پیدا کرتی ہیں اور اپنے اظہار کی نت نئی تدبیریں بنا کر باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ سب سے پہلے کس جگہ اپنا راستہ بناتی ہیں۔ اگر اس بات کا ترجیحی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے۔

ان کی آہٹ سب سے پہلے

دماغ کے حسی پردوں سے آ کر ٹکراتی ہیں اور ہیرے کان میں سرگوشیاں کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ چونکہ یہ غائبی آوازوں کا تلاطم ہوتا ہے جو انسان کو یک دم چوکنا کرتا ہے اور کہتا ہے اے بنی آدم! اٹھ اپنے ہاتھ میں ایمان کا عصا تھام لے اور اپنی خواہشات کی پیروی کر ، وہ جو تیرے دل و دماغ میں بڑے زور و شور سے خواہشات کی آندھی چل رہی ہے

انہیں روکنے کی بھرپور جدوجہد کر ورنہ یہ خواہشات تیرے خیالات میں اس قدر آگ لگا دیں گئی کہ تو اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے گا۔ یہ تیرے وجود کو رسیوں سے باندھ لیں گی تو ان کے ساتھ زور آزمائی بھی کرے گا لیکن تیری قوت جاتی رہے گی اور ساتھ ہی تیری قوت حیات بھی سلب ہو جائے گی۔ تو بے بس ہو چکا ہو گا، تیرے اندر کے جذبات مجروح ہو چکے ہوں گے،

تو چاروں طرف سے گھیرا جا چکا ہو گا۔ میں ان باتوں کو سوچ ہی رہا تھا کے اچانک میری آنکھوں میں خواہشات کا عکس منتقل ہوا میں یک دم نیند سے جاگا تو میں نے اپنے ارمانوں میں ایک جلتی ہوئی شمع دیکھی۔ مجھے اپنے اردگرد روشنی ہی روشنی نظر آ رہی تھی۔ میرے اندر باہر روشنی کے کئی دروازے کھل چکے تھے۔ اچانک مجھے نئے خیالات کی آمد ہوئی اور میرے دماغ میں خواہشات کے گچھوں کی گرہیں لگتی گئی۔ میں گہری سوچ میں ڈوب گیا اور خود سے یہ سوال کرنے لگا کہ میں انہیں کیسے پورا کروں۔ اب میں اپنی ایک ایک خواہش کو ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھ کر دیکھتا ہوں تو مجھے نیچے قسمت کی ریکھائیں نظر آتی ہیں، میرے اندر ایک تلاطم پیدا ہو چکا تھا۔ کبھی میں اپنی خواہش کی لاج رکھتا اور کبھی اپنی بے بسی کا جائزہ لیتا۔

اچانک میرے دیکھتے ہی دیکھتے مجھے کچھ ایسے دکھائی دیا جیسے میرے وجود کے گرد ان خواہشات کے گچھوں کی

گرہ سخت ہوتی گئی۔ البتہ میں اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوں اور میرے ہاتھ میں اپنی حفاظت کے لیے سفری آلات بھی موجود ہیں۔ میں وہم و خوف کی روح سے نکل کر اپنے سفر پر گامزن ہو گیا۔

لیکن میرا وجود مجھے ملامت کی راکھ کھلا رہا تھا۔ میں پریشان بھی تھا اور خوش بھی۔ میرے اندر دونوں کیفیتیں موجود تھی جو مجھے احساس کمتری اور کبھی احساس برتری کے مرض میں مبتلا کر دیتیں۔ البتہ ایک پہلو نے مجھے جکڑ دیا جس نے مجھے ضدی بنا دیا وہ تھا اپنی خواہشات کے حصول کی تکمیل۔ لیکن اس میں ایک حیران کن مکاشفہ بھی تھا کہ

میں اپنی خواہشات سے آزاد بھی ہونا چاہتا تھا۔ لیکن مجھے دو قوتوں نے جکڑ رکھا تھا۔ ایک قوت مجھے ان کی تکمیل کے لیے ابھار رہی تھی، جبکہ دوسری مجھے آگے بڑھنے سے میرے قدم روک رہی تھی۔ میں مجبور و بے بس ہو گیا۔ البتہ جس چیز نے مجھے جکڑ لیا وہ میری خواہشات کے حصار تھے جو مجھ پر غالب آ چکے تھے۔

میں نے جو نہی اچانک اپنے وجود کے گرد دوبارہ نگاہ کی تو مجھے خواہشات کی کونپلیں پھوٹتی دکھائی دیں۔ میں نے دیکھا وہ میرے دل کی زمین سے نمکیات حاصل کر رہی تھی۔ مجھ پر گہری سوچ کا بھوت طاری تھا اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے ان خواہشات کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی کہ انہوں نے مجھے دوبارہ صحت و توانا کر کے دوبارہ سفر پر گامزن کر دیا۔ اس دوران میں بار بار سوچ کا لقمہ کھاتا۔ وہ میرے بدن میں جزو خوراک کا سبب ضرور بنتا تھا۔ لیکن وہ توانائی میری خواہشات کی شہ رگ کو کاٹنے کے لئے کافی نہ تھی۔ میں بار بار اس عمل کو دہراتا ہوں۔ لیکن میری قوت مدافعت بحال نہیں ہوتی۔

میں اسی کشمکش میں کبھی آسمان کی طرف دیکھتا ہوں اور کبھی زمین کی طرف۔ البتہ بشر ہوتے ہوئے میری دلی کیفیت اور لگاؤ خواہشات کے گچھوں کی بنت کاری کی طرف راغب ہو گیا۔ میری آنکھوں میں ان کا بار بار جنم ہو رہا تھا۔ میری سرشت خواہشات کے حصار میں ڈوبی ہوئی تھی۔ میں ایک ایسی دنیا میں کھو چکا تھا جہاں صرف خواہشات کے موسم آباد تھے۔ پھر مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہو رہی ہے

اور مجھے پھر اچانک آواز آئی کہ تیرے سب ارادے فل ہو گئے ہیں۔ میری ہم کلامی کے سب وعدے ٹوٹ چکے تھے۔

بالآخر میں اوندھے منہ گر پڑتا ہوں اور کہنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ خواہشات کے حصار نے مجھے جکڑ لیا۔ انہوں نے میرے ہاتھ پاؤں باندھ لیے، میرے قلب و ذہن کو ماؤف کر دیا، میری قوت حیات سلب ہو گئی، مجھے غلامی کی بیڑیوں نے جکڑ لیا، حتیٰ کہ میں نے ایمان کا عصا بھی تھاما لیکن اس نے بھی میری کوئی مدد نہ کی پھر میں نے اپنی سوچ کے سارے دروازے کھولے لیکن مجھے کسی دروازے سے بھی امید کی کرن نظر نہ آئی۔

بالا آخر اس ساری آزمائش کے بعد میرے کانوں میں ایک ہلکی سی سرگوشی ہوتی ہے۔
اے میرے بیٹے!

اگر تجھے میری مدد کی ضرورت ہے تو اپنا ہاتھ آگے بڑھا۔ میں اسے تھام کر اپنی قوت کا زور اس میں منتقل کروں گا۔ تب تیرے لیے فتح اور کامیابی کا دروازہ کھل جائے گا۔ میں تیرے وجود کے گرد بندھی ہوئی خواہشات کو جلا کر راکھ کر دوں گا تو فقط مجھ پر ایمان رکھ میں تیرے لئے بڑے بڑے کام کروں گا۔ اگر تم مجھے آزما کر دیکھنا چاہتا ہے تو دنیا پر بھروسا کرنے کی بجائے میرا ہاتھ تھام لے۔ تب تیرے وجود کے گرد بنی ہوئی ہر فصیل گر جائے گی۔

یہ خواہشات کے گچھے تو ہوا کے ایک جھونکے سے گر کر تجھے آزاد کر دیں گے۔ تیرا جسم و روح خواہشات کی غلامی سے آزاد ہو جائے گا۔ میں نے دوبارہ سکھ کا سانس لیا۔ اب مجھے اپنے اندر ایک اطمینان کا چشمہ نظر آیا۔ اب میری روح پاک اور مطمئن ہے۔ میں نے دوبارہ اپنے دل میں مصمم ارادہ کیا کہ میں سوچنے سے پہلے اپنے خیالوں اور ارادوں کو خدا کے ہاتھوں میں دوں اور کسی بھی خواہش سے پہلے اس کی مرضی جانوں، تاکہ میں اپنے خدا پر ایمان دکھ کر آ گے بڑھتا جاؤں۔ بے شک آج وقت نے مجھے تنبیہ کردی تاکہ میں ضبط کرنا سیکھ لوں اور اپنی خواہشات کا دائرہ اتنا ہی رکھوں جن کی تکمیل میں رکاوٹیں حائل نہ ہو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments