نایاب ہیرے ۔۔۔۔۔


تنقید تو ایک فطری عمل ہے اور سچائی کو آشکار کرنے کے لئے تنقید اتنی ہی ضروری ہے جتنی انسانی زندگی کے لئے آکسیجن۔ لیکن اگر تنقید صرف تنقید بن جائے تو پھر دو آنکھیں اور مٹھی بھر دماغ رکھنے والا بھی اندھا و مفلوج بن کر شدت پسندی کی طرف گامزن رہتا ہے۔ شاید اسی لئے انسانی سوچ کو متوازن رکھتے کے لئے دنیا کا ہر مذہب اور ریاستی قانون شدت پسندی کی نفی اور میانہ روی اور رواداری پر زور دیتا ہے۔

میرا مادر وطن پاکستان معرض وجود میں آنے سے پہلے ہی جو لوگ تحریک پاکستان سے وابستہ تھے وہ دو قسم کی سوچوں میں منقسم ہو چکے تھے مگر شدت پسندی کی جو لہر 1980 کی دہائی سے شروع ہوئی وہ شاید ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔

ایک طرف تو وہ طبقہ ہے جو اپنی جان مان دھن اپنے ملک اور اس کے حفاظتی اداروں پر نچھاور کرنے اور مارنے مرنے تک کے لئے چوبیس گھنٹے تیار رہتا ہے اور ہر جائز و ناجائز کو حب وطنی کے نام پر تسلیم کرتے ہوئے مادر وطن کی حرمت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا۔

دوسری طرف وہ طبقہ ہے جو جمہوریت اور آزادی رائے پر اتنا اندھا یقین رکھتا ہے کہ اکثر و بیشتر قومیت اور جنم دینے والی مٹی کے حق تک کو یکسر نظر انداز کر دیتا ہے۔ یعنی حقوق کی جنگ لڑتے لڑتے فرائض سے مکمل غافل رہتے ہیں۔ اس طبقہ میں دو قسم کے لوگ ہیں۔ چند ایک تو وہ لوگ ہیں جو پاکستان مخالف غیر ملکی طاقتوں کے ایجنڈے پر ڈالروں کے عوض کام کرتے ہیں مگر اکثریت شوقیہ فنکاروں کی ہے۔ جو یا تو آزادی رائے اور جمہوریت کے نام پر ڈالرز گروپ کی تقلید کرتے ہوئے ایک خود رو پودے کی طرح یا تو جھاڑی بن جاتے ہیں یا پھر بالکل فری اپنے جنم دینے والے معاشرے سے خوب نفرت اور غداری کے سرٹیفکیٹ لیتے ہیں۔ ڈالرز گروپ کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ تاریخ میں اکثر لوگ پیسوں کی خاطر یا اقتدار کی خاطر اپنی جنم دھرتی سے بے وفائی کر گزرتے ہیں مگر میرا آج کا آرٹیکل شوقیہ فنکاروں کے لئے ہے۔

تو صاحب عرض کچھ یوں ہے کہ صاحب الفاظ نے پچھلی تین دہائیوں میں 80 سے زائد ممالک بھی پھرے اور دنیا کی ٹاپ 10 قدیم و جدید تہذیبوں اور قوموں پر تحقیق بھی کی۔ مگر اس طرح کے شوقیہ فنکار اتنی بڑی تعداد میں کسی بھی ملک میں نایاب پائے۔ جو تنقید نہیں بلکہ صرف اور صرف تنقید کرتے ہیں۔ یہ نایاب ہیرے صرف ایک شیشے والی عینک پہنے رکھتے ہیں اور رات دن قومیت و فرائض سے غافل صرف ون وے ٹریفک چلاتے ہیں۔

انسان جب تہذیب سے نا آشنا تھا تب جنگلوں پہاڑوں میں جانوروں کی طرح رہتا تھا مگر پھر تہذیبوں نے انسان کو مہذب بنایا۔ مذاہب نے انسان کو حقوق و فرائض کا پابند کیا اور پھر ریاست کا تصور ابھرا۔ دنیا کی ہر قدیم و جدید ریاست نے اپنے شہریوں کو ایک قانون میں جکڑا تاکہ انسان ایک وحشی نما نہ بن جائے۔

پوری دنیا اور خصوصی طور پر جدید دنیا کے تمام ممالک ان کی اسٹیبلشمنٹ چلاتی ہے مگر کسی شہری یا صحافی کی جرات نہیں کہ آزادی اظہار رائے کے نام پر ریاستی اداروں کے خلاف تحریک چلائے یا پھر رات دن صرف نادیدہ ذرائع کی بنیاد پر ریاست مخالف الزامات لگا کر ملک دشمن ایجنڈے لانچ کرے۔ مگر میرے مادر وطن میں شب و روز یہ تماشا چلتا ہے۔ سیاسی پارٹیاں اور ایجنڈے والے کچھ لوگ ان نایاب ہیروں کی خدمات لے کر یہ پتلی تماشا سرعام کرتے ہیں اور ریاستی اداروں کو دھمکاتے تک ہیں۔ مگر نایاب ہیرے صرف اسی خوش فہمی میں ساتھ بھی دیتے ہیں اور خوش بھی رہتے ہیں کہ ہم بھی لبرل اور انقلابی لوگ ہیں۔ اور شاید فیض احمد فیض اور حبیب جالب کے قبیلے سے ہیں۔

جدید اور آزاد دنیا کی بات کریں تو امریکہ جیسی سپر پاور اپنی اسٹیبلشمنٹ کے اس قدر نرغے میں ہے کہ پینٹاگون والوں کی بغیر مائیک کے دی ہوئی آواز وائیٹ ہاؤس کی دیواروں تک گونجتی ہے۔ میرا دوسرا ملک برطانیہ جسے لوگ مادر جمہوریت کہتے ہیں ان کی اسٹیبلشمنٹ اس قدر مضبوط ہے کہ دو سال قبل جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ برطانیہ آئے تو مئیر آف لندن صادق جاوید کو مکمل طور پر الگ رکھا گیا حالانکہ سیاسی لحاظ سے برطانیہ میں وزیراعظم کے بعد سب سے طاقتور عہدہ مئیر آف لندن کا ہوتا ہے۔

برطانوی وزیر داخلہ ساجد جاوید کو بھی مکمل الگ رکھا گیا حالانکہ کسی بھی بیرونی وفد کے لئے وزیرداخلہ کی منظوری و شمولیت قانونی طور پر بھی اہم سمجھی جاتی ہے۔ اس کے باوجود نہ تو آزادی اظہار رائے کی تحریکیں چلیں اور نہ ہی وزرا کی جانب سے کوئی ایجنڈے لانچ کیے گئے۔ کیونکہ یو قومیں سمجھتی ہیں کہ جو آزادی اظہار رائے اپنی ہی قومی سلامتی کے خلاف ہو وہ کون سی آزادی اور کون سی جمہوریت ہے؟

صاحب ہم بخوبی سمجھتے ہیں اور اعتراف کرتے ہیں کہ ہمارے اداروں کا سیاسی کردار کچھ زیادہ ہی ہے جو کہ نہیں ہونا چاہیے۔ مگر یہ بھی جانتے ہیں کہ اکثر ترقی پذیر ممالک میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار اس سے ملتا جلتا ہی پایا جاتا ہے۔

ہماری عرضی اپنے بھٹکے ہوئے دوستوں یعنی دوسرے الفاظ میں ان نایاب ہیروں سے ہے کہ اپنی ماں دھرتی کا صرف اور صرف منفی چہرہ ہی نہیں دکھاتے بلکہ مثبت پر بھی بات کرتے ہیں۔ ہمیشہ منفی بات کا پرچار اور مثبت بات سے لاعلمی انسان کو اندھا و بہرہ کر دیتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں دے دے کر اپنی قوم اور ملک کو کوسنا یہ کہاں کا انصاف ہے۔

ھم یہ بھی مانتے ہیں کہ اپنی ماں دھرتی کہیں کہیں بنجر بھی ہو گی۔ کہیں کہیں بیمار بھی نظر آئے گی۔ مگر ہم نے بنجر ماں دھرتی کو زرخیز اور بیمار ماں کا علاج کروانا ہے یا پھر رات دن کوسنا ہے۔ کیونکہ ماں کو چومتے اور پیار کرتے اس کا چہرہ یا رنگ نہیں دیکھے جاتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments