عمران خان کے پاس ارب پتی بننے کا نایاب موقع


پروپیگنڈا کا  ایک خاص طریقہ اس پر اصرار اور تواتر کے ساتھ ایک  ہی بات کو دہراتے رہنا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کو اسی  ہتھکنڈے کے  تحت اس  قدر دہرایا ہے کہ کوئی بھی پاکستانی سیاسی امور بات کرتے ہوئے دانستہ یا نادانستہ  یہ تسلیم کرنے پر مجبور محسوس کرتا ہے کہ ’ماضی کے سیاست دانوں نے بدعنوانی تو کی ہے‘۔

اس ایک اقرار کے بعد موجودہ حکومت کی سیاسی نااہلی کا مقدمہ کمزور ہوجاتا ہے اور ان  کوتاہیوں پر بات نہیں کی جاسکتی جن کی وجہ سے عمران خان کی قیادت میں پاکستان  کو اس وقت معاشی پریشانی، بیروزگاری  ومہنگائی میں ہوشربا اضافے اور عالمی سطح پر شدید سفارتی تنہائی جیسی صورت حال کا سامنا ہے۔ حتی کہ ملکی سلامتی کو لاحق خطرات جیسےاہم ترین موضوع بھی پس پشت ڈال دیا جاتے ہیں اور  یہ سوچنے سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ  افغانستان میں بھارتی پراکسی عناصر کے زوال پذیر ہونے کے  بعد وہ کون سی وجوہات ہیں کہ  اس  طرف سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا اور یہ عوامل کب تک قائم رہ سکتے ہیں۔ اگر طالبان کے طرز عمل اور پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات  کا مطالعہ کیا جائے تو اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ مالی وسائل  کی شدید ضرورت مند طالبان  حکومت سرمایہ کاری اور مالی تعاون کے بدلے بھارت سمیت کسی بھی ملک  کو سہولتیں دینے  پر آمادہ ہوگی۔  طالبان دنیا سے  مالی امداد  کی درخواست کرتے ہوئے صرف یہی ایک مطالبہ کررہے ہیں، پھر انہیں امریکہ بھی فرشتہ دکھائی دینے لگتا ہے تو بھارت آخر کب تک دشمن کے درجے پر فائز رہے گا۔

تاہم   طالبان کی کامیابی کو پہلے ملت اسلامیہ اور پھر پاکستان کی کامیابی قرار دیتے ہوئے اس بات پر سکھ کا سانس لیا جارہا ہے کہ  اب  پاکستان کو صرف  مشرقی  محاذ پر بھارت سے نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہے۔  اہل پاکستان کو پاک فوج کی دلیری اور بے پناہ صلاحیتوں کے بارے میں جو سبق ازبر کروایاجاتا ہے، اس کی روشنی میں   عام شعور میں یہ راسخ کروادیا گیا ہے کہ بھارت نے اگر پاکستان پر حملہ کرنے کی جرات کی تو  اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ پاک فوج  نہ صرف  حوصلہ و شجاعت میں برتر ہے بلکہ تکنیکی لحاظ سے بھی اس کی صلاحیتیں بھارت سے کئی گنا  زیادہ ہیں۔ اس حوالے سے صرف آئی ایس آئی کے بارے میں پاکستانی حکومتی ترجمانوں کے بیانات کا جائزہ ہی لے   لیا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ یہ انٹیلی جنس ایجنسی دنیا کی بہترین ایجنسیوں میں شامل ہے۔

 گزشتہ دنوں جب نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم نے سیکورٹی اندیشے اور ٹیم پر  حملہ کی انٹیلی جنس رپوٹ کی روشنی میں اچانک پاکستان کا دورہ منسوخ کیا اور پاکستان آئی ہوئی ٹیم کو واپس  بلالیا تھا تو وزیر داخلہ سے وزیر اطلاعات تک نے اسی دلیل کی بنیاد پر اس فیصلہ کو مسترد کیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ہماری ایجنسی دنیا کی بہترین ایجنسی ہے، تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جس خطرہ کا اسے پتہ نہیں ، اس کے بارے میں امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا جیسے ملکوں کی ایجنسیوں  کو پتہ چل جائے۔  حالانکہ کسی خفیہ منصوبہ بندی کے بارے میں کسی بھی ایجنسی کی خبر درست ہوسکتی ہے اور کسی سے بھی اندازے کی غلطی سرزد ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ ایسے میں کبھی یہ نہیں پوچھا جاتا کہ پاکستانی حکومت کے پاس وہ کون سے اعداد و شمار ہیں جن کی بنیاد پر آئی ایس آئی کو دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی شمار کیا جاتا ہے؟  کوئی ایسا سوال کرنے کی حماقت کر بیٹھے تو موجودہ ماحول میں اس پر دشمن کا ایجنٹ ہونے کا لیبل لگا کر  ہائیبرڈ وار فئیر کا مرتکب قرار دینے میں دیر نہیں لگتی۔

اسی صورت حال کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کے سابقہ سب حکمران تو بدعنوان اور مفاد پرست ٹھہرے لیکن عمران خان کی حکومت میں شامل  گھسے پٹے مہروں اور گرگ  بارہ دیدہ  سیاست دانوں کی حرکتوں  پر  بھی کوئی شبہ کا اظہار نہیں کرسکتا ۔ خواہ کوئی وفاقی وزیر ایک بیان سے قومی ائیر لائن کو دنیا کے تمام اہم ممالک میں پابندی لگوانے کا باعث بنے یا  سپریم کورٹ میں کوئی وزیر باصفات غریب ہمسایوں کو ہراساں  کرنے کا قصور وار پایا جائے یاپھر قومی احتساب بیورو سرکاری بڑی مچھلیوں کے خلاف کارروائی کرنے کا اعلان کرکے اپنے ہی اعلانات سے  پیچھے ہٹ جائے لیکن ایماندار وزیر اعظم   کی دیانت اور نیک نیتی پر کوئی سوال نہیں اٹھتا کیوں  کہ   انہوں نے الزام تراشی کے ہنر کو  جدید انداز دے کر اسے اپنی سیاسی مہم جوئی میں اہم ترین ہتھکنڈے کے طور پر استعمال  کیا ہے۔

حتی کہ  بیرون ملک دورہ کے دوران غیر ملکی سربراہان حکومت سے ملنے والے تحائف کے بارے میں معلومات کو  بھی   بین الملکی تعلقات کی   حساسیت کے عذر پر قومی راز کی حیثیت دے دی گئی ہے۔ لیکن منظر نامہ پر کوئی سوال نہیں کہ  ایسے شفاف لین دین میں جہاں ایک سربراہ حکومت جذبہ خیر سگالی کے طور پر کوئی تحفہ پاکستانی لیڈر کو دیتا ہے تو اس کی معلومات کیوں کر دو ملکوں کے تعلقات پر منفی طور سے اثر انداز ہوسکتی ہیں۔  پوری  دنیا جانتی ہے کہ ایسے تحائف کا تبادلہ دو افراد کے درمیان نہیں بلکہ دو ممالک کے درمیان ہوتا ہے۔   جب ایک ملک کی طرف سے ایسی خیر سگالی کا اظہار ہو اور لینے والا ملک عوام کو اس سے مطلع کردے تو اس سے دو طرفہ تعلقات میں اعتماد اور بھروسہ بڑھتاہے۔  البتہ  ’دیانت دار وزیر اعظم‘  کی منطق نرالی ہے اور اس منطق کو  دوسروں پر الزام تراشی اور اپنی دیانت کی جھوٹی بت تراشی کے  سراب میں چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

عمران خان  نے الزام تراشی کا جو ہتھکنڈا اپوزیشن لیڈروں کے خلاف ’کامیابی‘ سے استعمال کیا  اور نامکمل تصویر کو چوری اور ڈاکے کی مکمل کہانی بنا کر پیش کیا گیا ۔  جو الزام کسی عدالت میں ابھی تک ثابت نہیں ہوسکے، ان کے بارے میں پورے یقین کے ساتھ یہ دعویٰ  کیا گیاکہ اس طرح ملک کا خزانہ لوٹ کر بیرون ملک ذاتی اکاؤنٹس میں دولت جمع کروائی گئی ہے۔ اب اسی ہتھکنڈے کو افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی سفارتی مایوسی اور خارجہ پالیسی کی ناکامی  کو چھپانے کے  لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ تازہ ترین اقدام کے طور پر  وزیر اعظم نے امریکی اخبار  واشنگٹن پوسٹ میں ایک مضمون میں افغانستان میں امریکی عسکری ناکامی کے علاوہ سیاسی و سفارتی ہزیمت کی عبرت ناک تصویر پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اب اس ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دے کر  اپنی ہزیمت چھپانے کی کوشش کی   جارہی ہے حالانکہ  امریکہ اور اس کے حلیف ملکوں کو طالبان کے ’سر پر ہاتھ‘ رکھتے ہوئے  ان کے لئے اپنے خزانوں کے منہ کھول دینے چاہئیں تاکہ وہ بھی دوحہ معاہدے کے مطابق اپنے وعدے پورے کریں اور مالی پریشانیوں میں مبتلا ہوکر ایک بار پھر دہشت گردوں کو  ’پروان ‘ چڑھانے کا کام شروع نہ کردیں۔

’سفارتی بلیک میلنگ ‘  میں یہ خطرناک اور افسوسناک طریقہ اختیار کرتے ہوئے عمران خان جو دلائل استعمال کرتے ہیں اس میں  آصف زرداری   کو  ’پاکستان کا سب سے بدعنوان لیڈر‘ قرار دیتے ہوئے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ انہوں نے ڈرون حملوں کے بارے میں امریکیوں سے کہا تھا  ’انسانی جانوں کے ضیاع  سے مجھے کوئی  پریشانی نہیں ہے، یہ امریکیوں کا مسئلہ ہے‘۔  اس کے بعد نواز شریف کو بھی اسی ڈھب کا لیڈر قرار دیا گیا۔ یہ تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) پر منحصر ہے کہ وہ ان الزامات کا کیسے جواب دیتی ہیں لیکن  ریکارڈ کی درستی کے لئے عمران خان کو یہ ضرور بتانا چاہئے تھا کہ اگر وہ 2001 سے ہی  افغاانستان میں امریکی جنگ کے خلاف تھے اور پرویز مشرف نے اس جنگ میں شرکت کرکے ملک و قوم کا بے حد نقصان کیا تھا تو انہوں نے خود 2002 کے ریفرنڈم میں پرویز مشرف کی حمایت کیوں کی تھی؟ یا جس سابقہ فوجی لیڈر کو وہ ایک ایسی جنگ شروع کرنے کا قصور وار ٹھہرا رہے ہیں جس میں پاکستان  کے80ہزار شہری مارے گئے اور اسے ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا مالی نقصان ہؤا، اسے انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لئے موجودہ شفاف حکومت نے کیا اقدام کیا ہے؟

افغانستان کے بارے میں اختیار کی گئی  ہر پالیسی کی معمار پاک فوج  ہے۔ ماضی میں بھی کسی  سویلین حکومت کا اس حوالے سے کوئی کردار نہیں تھا جیسا کہ موجودہ سیاسی حکومت عسکری قیادت کے فیصلوں کے سامنے بے بس ہے۔ اس حقیقت کو پاکستانی ہی نہیں پوری دنیا  جانتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک امریکی تجزیہ نگار اور جنوبی ایشیا  کی ماہر کرسٹینا فئیر  نے سی این این پر عمران خان کی حیثیت کو ’اسلام آباد کے مئیر سے بھی کم تر ‘قرار دیا ہے۔  عمران خان  اکثر کہتے ہیں کہ   پاکستان میں ان پر جو الزام لگائے جاتے ہیں ، اگر ایسی الزام تراشی مغرب میں کی جاتی تو وہ ہتک عزت کا مقدمہ کرکے ارب پتی بن جاتے۔   اب ان کے پاس موقع  ہے  کہ وہ اس تجزیہ نگار کے خلاف امریکی عدالت میں مقدمہ کرکے اربوں روپوں کا ہرجانہ وصول کرسکتے ہیں۔ البتہ اس کے لئے انہیں اپنے ’بااختیار وزیر اعظم‘ ہونے کا دستاویزی ثبوت امریکی عدالت میں پیش کرنا ہوگا۔ جہاں  فواد چوہدری یا شہزاداکبر کے دعوے ’ثبوت ‘ کے طور پر پیش نہیں ہوسکیں گے۔

وزیر اعظم کو جان لینا چاہئے کہ الزام تراشی کا فائدہ  عارضی اور عبوری ہوتا ہے۔ پاکستان کے  جذباتی لوگوں کو  ضرور نعروں کے  ذریعے وقتی طور سے گمراہ کیاجاسکتا ہے۔ لیکن عالمی سفارت کاری میں جذباتی نعروں اور بے بنیاد دعوؤں کی بنیاد پر کسی مؤقف کو تسلیم کروانا ممکن نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments