سی پیک، اس کے طویل مدتی منصوبے (ایل ٹی پی) اور بلوچستان


بہترین تزویراتی اہمیت رکھنے اور چین کو بحر ہند تک مختصر ترین راستہ فراہم کرنے کی وجہ سے بلوچستان سی پیک کا اہم ستون ہے۔ جو کہ چین کے ون بیلٹ ون روڈ (اوبور) پہل کے اہم ترین منصوبوں میں سے ایک ہے۔ ایران کے ساتھ 400 ارب ڈالر کے معاہدے کے بعد بلوچستان اور اس کی گوادر بندرگاہ کی وسعت چین کے لیے مزید اہمیت کی حامل ہو گئی ہے۔ دوسری طرف بلوچستان میں سی پیک کے حوالے سے لوگوں میں خاص کر ماہرین اور دانشوروں میں بحث چھڑی ہوئی ہے کہ آیا سی پیک اس پسماندہ صوبے کے لیے گیم چینجر کی حیثیت رکھتی ہے یا نہیں۔

64 بلین امریکی ڈالر کی یہ سرمایہ کاری بلاشبہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے جو بالآخر ملک میں بنیادی ڈھانچے کی مضبوط کر کے توانائی کے مسائل کو دور کرے گا۔ جبکہ دوسری طرف بلوچستان کے لیے بقول موجودہ وزیراعلیٰ کے کہ سی پیک میں صوبے کا کل حصہ 4.5 فیصد ہے جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ سی پیک کے حوالے سے اس وقت صوبہ ترقیاتی منصوبوں اور اس کی پیش رفت میں کمزوریوں کو ظاہر کرتی ہے۔ اگر صوبے میں طویل المیعاد منصوبہ (ایل ٹی پی) نافذ ہو جاتا ہے تو یہ تمام فریق (چین، پاکستان کی وفاقی حکومت اور بلوچستان) کے لئے ترقی اور خوشحالی کا باعث ہوگا۔

حکومت پاکستان کی سی پیک کے حوالے سے بنائے گئے آفیشل ویب سائٹ کے مطابق، بلوچستان میں سی پیک کی چھتری کے تحت منصوبوں میں گوادر اور بوستان میں 2 خصوصی اقتصادی زون کا قیام، گوادر میں 300 میگاواٹ کول پاور پلانٹ منصوبہ، خضدار۔ بسمہ، نوکنڈی۔ پنجگور، کوئٹہ۔ ژوب کی شاہراہوں تعمیر شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قلات۔ چمن، نوشکی۔ دالبندین، ​​سوراب۔ وشاب، اور گوادر۔ تربٹ ایکسپریس وے بھی اس منصوبے کا حصہ ہے۔ مزید یہ کہ گوادر ائرپورٹ کی تعمیر، گوادر میں ہسپتال کا قیام، گوادر میں فری زون ڈویلپمنٹ، گوادر ایسٹ بے ایکسپریس وے کی تعمیر، اور گوادر ہی میں ایک ٹیکنیکل ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ بھی سی پیک کا حصہ ہیں۔ کوئٹہ ماس ٹرانزٹ ریلوے پروجیکٹ جو سی پیک کے پہلے مرحلے میں شامل تھا اور 6 ویں جے سی سی اجلاس میں منظور بھی کیا گیا تھا بدقسمتی سے اسے 7 ویں جے سی سی اجلاس میں منسوخ کر دیا گیا۔

طویل مدتی منصوبہ (TLP 2015/2030 ) سی پیک کی ایک جامع دستاویز ہے جو پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک کے مختلف شعبوں میں تعاون کے حوالے سے ہے۔ اس دستاویز کے مطابق سی پیک معیشت کی بہتری، بنیادی عوامی خدمات کی فراہمی، روزگار کی تخلیق، موسمیاتی تبدیلی، پائیدار ترقی، مربوط نقل و حمل کے نظام کی تعمیر، شاہراہوں کی تعمیر، ہوا بازی، ریلوے، صنعت میں تعاون، معدنی وسائل کی تلاش اور ترقی پر توجہ مرکوز کرے گا۔ معدنی وسائل کے پروسیسنگ زونز، صنعتی پارکس اور صنعتیں شروع کرنا بھی اس منصوبے کا حصہ ہے۔

یہ دستاویز زرعی شعبے کی اپ گریڈیشن، انفراسٹرکچر کی ترقی، پانی کی بچت کو فروغ دینے، جدید زرعی زونز کی تعمیر، درمیانے اور کم پیداوار والی زمینوں کی ترقی، ڈرپ ایریگیشن ٹیکنالوجی اور پانی کی فراہمی کے منصوبوں اور فصلوں کی کاشتکاری میں تعاون پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ زرعی مصنوعات، نقل و حمل اور جدت میں بہتری، کیڑے مار ادویات اور کھادوں کی فراہمی اور کٹائی کے عمل میں بہتری جیسے عوامل بھی اس دیرپا منصوبے کا حصہ ہیں۔

سی پیک کا یہ طویل المدتی منصوبے مویشیوں کی دوائیوں اور ویکسینوں کی فراہمی، ان کی افزائش، جنگلات کے شعبے میں تعاون، خوراک کے ذرائع بڑھانے، آبی وسائل اور ماہی گیری میں بھی تعاون کا عہد کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، ایل ٹی پی نے آبی وسائل کے نظام کی بہترین، ریگستانوں کی ترقی، ساحلی پٹی میں سیاحت کی ترقی کے لئے کام، پانی، نکاسی اب کے نظام، اور پبلک ٹرانسپورٹ میں تعاون کر کے مقامی اداروں کی مدد، پیشہ وارانہ تربیتی مراکز کے قیام اور سماجی بہبود کا شعبے میں تعاون کی یقین دہانی کراتی ہے۔

دوسری طرف صوبے کی محرومیاں انگت اور قابل توجہ ہیں۔ پانی کی کمی اور بنیادی ڈھانچے کی کمزوری نے زراعت اور لائیو سٹاک کے شعبوں کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ جبکہ نقل و حمل کا مسئلہ کئی دہائیوں سے درد سر بنا ہوا ہے۔ صوبے میں ایک دو رویہ سڑک نہیں ہے جس کی وجہ سے حادثات میں مرنے والوں کی تعداد دہشت گردی سے ہونے والی ہلاکتوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ مزید براں توانائی کا شعبہ کئی دہائیوں پہلے والی صورتحال کی تصویر ہے صوبے میں بجلی کی طلب 1800 میگاواٹ کے لگ بھگ ہیں جبکہ 700 سے 800 میگاواٹ فراہم کی جاتی ہیں۔

انرجی ٹرانسمیشن لائنیں بہت زیادہ بوسیدہ ہونے کے باعث بجلی کا مزید لوڈ برداشت نہیں کر سکتیں۔ سی پیک کی چھتری کے تحت ملک بھر میں 500 kv کے 13 گرڈ اسٹیشن بنائے جائیں گے، جہاں بلوچستان کا حصہ صفر ہے۔ اس کے علاوہ 500 کلو میٹر ٹرانسمیشن کی 1000 کلومیٹر کی 2 لائنیں سی پیک کے ذریعے تعمیر کی جائیں گی، دونوں لائنیں بلوچستان سے باہر تعمیر ہوں گی۔

سی پیک کے طویل المدتی منصوبے کے لیے بلوچستان اہم ترین مقام بن سکتا ہے، بشرطیکہ بہترین حکمت عملی اختیار کی جائے۔ صوبے کی 772 کلومیٹر ساحلی پٹی سیاحت، ہوا اور شمسی توانائی کے لئے جنت بن سکتی ہے۔ دوسری طرف، فشریز، لائیو سٹاک اور زراعت میں سرمایہ کاری ملک اور صوبے کی تقدیر بدل سکتی ہے جس سے چینی حکومت کو بھی دور رس فوائد حاصل ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان قدرتی وسائل کا اہم ترین صوبہ ہے جہاں (پاکستان کے ارضیاتی سروے کے مطابق 50 ٹریلین امریکی ڈالر) کے قدرتی وسائل جیسے کرومائٹ، کوئلہ، ماربل، آئرن، آئرن کور، زنک، سلفر، کاپر، جپسم وغیرہ موجود ہیں جس میں سی پیک کے طویل مدتی منصوبے کے ذریعے سرمایہ کاری کر کے یہ شعبہ تمام سٹیک ہولڈرز کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔

بلوچستان جو کہ سی پیک کے زمینی راستے کا 62 فیصد فراہم کرتا ہے بحر ہند تک چین کی مختصر ترین رسائی کی بدولت سی پیک کی شہ رگ ہے، صوبے کو بنیادی ڈھانچے، توانائی، پانی، لائیو سٹاک، زراعت اور معدنی ترقی میں سرمایہ کاری کی قلت جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ اگرچہ سی پیک صوبے میں انفراسٹرکچر میں کچھ بہتری لائے گا۔ لیکن منزل ہنوز دور است۔ شمسی اور ہوا کی توانائی، زراعت، لائیو سٹاک، پانی کے انتظام کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی نیلی معیشت میں سی پیک کے طویل المدتی منصوبے کے ذریعے سرمایہ کاری نہ صرف صوبے میں سماجی اور اقتصادی میدانوں میں انقلاب برپا کر سکتا ہے بلکہ وفاق کی معاشی ترقی میں بھی مدد ملے گی۔ حکومت بلوچستان کو گہری نیند سے بیدار ہو کر وفاقی حکومت اور چین کو ان شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیے قائل کرنا چاہیے جو کہ سی پیک کے طویل المدتی منصوبے کی دستاویز میں درج ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments