کلچرل ڈے، سیلیبریشن اور آج کل


آج کل یعنی موجودہ دنوں میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں ہم اپنی اپنی زبانوں اور قوموں کی ثقافتی پروگراموں کے پیدائشی دن کی طرح ان کی سالگرہ مناتے ہیں۔ اس دن پورا دن اپنی مخصوص ثقافت کے پہناوے، رقص و سرود، خوراک، اور دیگر متعلقات کے ساتھ ہم جڑے رہتے ہیں۔ میں چونکہ کراچی میں رہتا ہوں اور کراچی بذات خود ایک کثیر اللسانی شہر ہے اور صرف ہمارے ملک کے نہیں، ہمارے خطے ہی کے نہیں، بلکہ دنیا کی، کسی حد تک ثقافت یا پھر تہذیب کی جھلک ہم یہاں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

ایک وقت تھا کہ ہمارے گاؤں دیہات کے قریب شہروں میں سالانہ میلے اور ہفتہ وار بازار لگا کرتے تھے اور ان میلوں اور بازاروں میں ہمارے ثقافتی رنگ اور ثقافتی آہنگ کے نمونے اجاگر کیے جاتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اور تغیر پذیری یا بدلاؤ کے ساتھ ان ثقافتی میلوں اور بازاروں کی کمی ہوتی گئی اور پھر سرے سے ناپید ہوتے گئے۔ گاؤں قصبوں، قصبات شہروں اور شہر میٹروپولیٹن میں تبدیل ہوتے گئے۔ لوگوں کی نکل مکانی کی وجہ سے اپنی ثقافت دوسروں میں اور دوسروں کی ثقافت اپنے میں مدغم ہوتے گئے۔

ویسے بھی ثقافت کوئی جامد شے نہیں بلکہ یہ تہذیب کی گود میں پلتے پلتے یا اپنے اپ میں بڑھتے بڑھتے تہذیب کا روپ دھارتی چلی جاتی ہے۔ ثقافت برخود بری یا بھل نہیں ہوتی یہ میرے اور اپ کے اطوار اور طریقہ کار سے اچھی یا بری کہلاتی ہے۔ ثقافت کی اچھی چیزوں پر ہم فخر کرتے ہیں یا اپناتے ہوئے اتراتے ہیں لیکن برے پہلووں پر سبکی محسوس کرتے ہیں اور اپناتے ہوئے اترانے کے بجائے کتراتے ہیں۔ ثقافت کی عملی شکل تہذیب کی صورت میں سامنے آتی ہے۔

کبھی کبھار یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ گڈ مڈ ہو کر شہری اور دیہاتی تصادم کی شکل میں ایک دوسرے کے سامنے آ جاتے ہیں وہ اس طرح کہ ثقافت کا تعلق کلچر یا ایگریکلچر سے ہوتا ہے اور اس کا تانا بانا گاؤں ہی سے جڑا ہوا ہوتا ہے جبکہ تہذیب کا تعلق سوک سوسائٹی سے ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ثقافت کا تعلق حالات سے زیادہ اور تہذیب کا واسطہ آلات سے کما حقہ ہوتا ہے۔ کسی وقت ایک بندہ مہا کا کلچرڈ ہوتا ہے لیکن شہر کی تہذیبی زندگی کے آلات سے نبرد آزما نہیں ہو پاتا اور ڈھگا، پینڈو، دیہاتی، اجڈ، اور پتہ نہیں کیا کیا گردانا نہیں جاتا۔

بعینہ ہی ایک بندہ مہا مہا کا تہذیب یافتہ ہو گا لیکن گاؤں میں آ کر وہاں کے حالات و واقعات میں مس فٹ ہوتا ہے۔ اور گاؤں والے ان کو اپنے لحاظ سے ”القابات اور خطابات سے نوازتے ہیں۔ دنیا کی تہذیب یافتہ معاشروں میں اب گاؤں، گاؤں نہیں رہے بلکہ گاؤں بھی شہری زندگی کا ایک حصہ ہیں اس لئے وہاں اب لوگ زندگی کے شروعات بھی تہذیب ہی سے کرتے ہیں وہاں پر ثقافت اپ کو عجائب گھروں میں ملے گا۔ وہ لوگ ہماری طرح ایک دن کی ثقافت کے روادار نہیں وہ چوبیس گھنٹوں کے لئے تہذیب یافتہ ہیں۔

وہ جو چیز گاؤں میں پہنتے ہیں وہ شہر میں بھی پہنتے ہیں اور جو شہر میں زیب تن کرتے ہیں وہ گاؤں میں بھی ان کے لباس کا حصہ ہو گا۔ وہ جہاں بھی جائیں گے، کسی بھی ملک میں جائیں گے اسی پہناوے میں جائیں گے۔ ہماری طرح نہیں کہ ایک دن تو ہم اپنا ثقافتی دن کے موقعہ پر تو کلاہ لنگی، دھوتی، پگڑی۔ پٹکہ۔ شلوار قمیص، کرت پاجامہ، چپل۔ کھسہ، قراقول، وغیرہ وغیرہ تو پہن لیں گے لیکن اگر کوئی عام دنوں میں اس لباس میں کہیں شہر، آفس یا کسی شاپنگ مال میں نظر آیا تو پھر وہ غریب تماشا بن کر ہی لوٹ کر جائے گا۔

یعنی دوسرے لفظوں میں یہ کیسی ثقافت ہے جس کو اپناتے بھی ہیں اور عام دنوں میں عام لوگوں کے بھیج اکر اس کی نفی بھی کرتے ہیں یا برے یا آکورڈ بھی لگتے ہیں۔ معاف کیجئے یہ تو مجھے کبھی کبھار مسجد کی بان سے بنی ہوئی یا پلاسٹک کی ٹوپی کی مانند لگتا ہے کہ ایک طرف تو اللہ باری تعالی ’کے سامنے تو پہن کر جاتے ہیں لیکن جیسے ہی وہی ٹوپی پہن کر اگر کوئی بھول کر بھی باہر نکل آئے تو دوسرے نمازیوں کا مذاق بنتا ہے۔ اسی بات کو بنیاد بنا کر اب زیادہ تر مسجدوں میں اب یہ ٹوپیاں اس منطق کی وجہ سے نہیں رکھی جاتی ہے کہ جس ٹوپی میں آپ عام لوگوں کے سامنے نہیں جا سکتے وہ پہن کر کیسے اللہ تعالی‘ جیسی بڑی ہستی کے سامنے جا سکتے ہیں۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کون سی ثقافت ہوگی جو ایک دن کے لئے تو ہمیں بھلی لگے لیکن سال کے تین سو چونسٹھ دن بری یا آکورڈ لگے۔ یا دیگر تہذیب یافتہ اقوام کی طرح ہم اس ثقافت میں دنیا کے کھونے کھونے میں نہیں جا سکتے بلکہ ان ہی اقوام کے تہذیب میں اپنے اپ کو ان کے سامنے پیش کرے اور اپنی ثقافت کو اس لیے نظر انداز کریں کہ اس میں جٹ، جاہل، گنوار، ڈھگا، پینڈو، دیہاتی، اجڈ کم تعلیم یافتہ، کم تہذیب یافتہ یا ان پڑھ نظر نہ آئیں۔

کلاہ، پٹکہ، پگڑی، پگ یا دستار کسی نہ کسی حوالے سے ہمارے ہی خطے کا اجتماعی ثقافتی ورثہ ہے۔ لیکن جو کچھ اس کے ساتھ ہوا یا محسوس یا غیر محسوس طریقے سے کیا گیا یعنی ہم جب کسی فائیو سٹار ہوٹل یا ہائی فائی جگہوں پر جاتے ہیں تو اکثر یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ ایک پستہ قامت شخص کو یہ کلاہ، پٹکہ، پگ پگڑی یا دستار پہنایا ہو ہوتا ہے اور اپ کو فٹ سے دروازہ کھول کر سلام کرتا ہے۔ جس میں خودبخود ہمارے اس ثقافتی ورثے کی توہین چھپی ہوئی ہوتی ہے۔

اس طرح افغانستان میں تمام دنیا کی افواج کی موجودگی میں دستار میں بم رکھوا کر ایک دہشت گرد نے افغانستان میں امن کے پروسس کے سربراہ برہان الدین ربانی کو اڑایا اور دستار کو دہشت کے علامت کے طور پر پیش کیا گیا۔ لیکن ہمارے اہل دانش، اہل سیاست، اور اہل توفیق کو اتنی بھی توفیق نہیں ہوئی کہ اس غیر ثقافتی اور غیر تہذیبی حرکت پر کوئی احتجاج کرتے یا مذمت کے دو بول بولتے۔ اب اگر ہم اپنی اجتماعی سیاست کی طرف آتے ہیں تو وہ اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ عوام کو ڈلیور کریں، خواہ حکومت میں ہو یا حزب اختلاف لہذا ان کو تو لوگوں کو اکٹھا کرنے اور عددی سر کی پیمائش کرنے کے لئے اور ایسے تقریبات کو کیش کرانے کے لئے موقع درکار ہوتا ہے اور وہ اس موقعے سے بھرپور فائدہ لے لیتے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے لیڈران کی جنم دن اور برسی مناتے رہتے ہیں اب پتہ نہیں وہ اس عوامی ثقافتی تقریبات میں ثقافت کو زندہ رکھنے کے لئے شامل ہوتے ہیں یا اس کی برسی مناتے ہیں کیونکہ رقص و سرود تو سیاسی پارٹیوں کے دونوں تقریبات میں ہوتے ہیں چاہے جنم دن ہو یا پھر برسی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments