وجاہت مسعود کے خیالات


ممتاز صحافی، ادیب، نقاد اور کالم نگار جناب وجاہت مسعود کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ ان کا ماضی اور حال ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔ میرے جیسے چھوٹے لکھاری کے پاس الفاظ کا اتنا ذخیرہ ہی نہیں ہے۔ کہ ان کی شخصیت کا احاطہ کر سکوں۔ آج کل وہ روزنامہ جنگ میں باقاعدگی کے ساتھ کالم لکھ رہے ہیں۔ ان کے کالم صاحب ذوق لوگوں کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہیں۔

جو حضرات جغرافیہ، تاریخ، فلسفہ، ادب، سیاست اور اردو نثر سے شغف رکھتے ہیں۔ ان کو وجاہت مسعود کے کالم ضرور پڑھنے چاہیں۔ ایک تازہ کالم میں انہوں نے سیاست کی دنیا کی ایک قبیل کو مردہ روحوں سے تشبیہ دے کر ان کو ایک نئے معنی پہنا دیے ہیں۔ جو ان پر بڑے فٹ بیٹھے ہیں۔ بقول ان کے یہ مردہ روحیں ہماری سیاست سے تعلق رکھنے والے جمہوری ذہن کے مالک سیاستدانوں کو پیچھے دھکیل کر خود صف اول میں جگہ بنا لیتی ہیں۔ یہ آج کل اپنا گھناؤنا کردار ادا کرنے کے لئے دوبارہ سرگرم ہیں۔ ان کی باگیں ایک غیر مرئی قوت کے ہاتھوں میں رہتی ہیں۔

میں وجاہت مسعود کو اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ پی ٹی وی پر ایک ٹاک شو ہوسٹ کیا کرتے تھے۔ وہ شو سنجیدہ لوگوں میں بڑا مقبول تھا۔ جب وہ بات کرتے تھے۔ تو دیکھنے اور سننے والے مبہوت رہ جاتے۔ ان کا انداز بیان بڑا دل نشین ہوتا تھا۔ اردو کو اس کی روح کے مطابق بولنے کا ملکہ انہیں بخوبی حاصل تھا۔

قومی زبان اردو کا ذکر جسٹس جواد ایس خواجہ کے بغیر ادھورا رہ جاتا ہے۔ کیونکہ ان کے مختصر دور میں سپریم کورٹ نے اردو کو قومی زبان بنانے کا حکم جاری کیا تھا۔ مگر افسوس سے کہنا پڑھتا ہے۔ کہ کئی سال گزرنے کے بعد بھی اس حکم پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔ چونکہ ہمارے صاحب اختیار انگریزوں کی غلامی کے عادی ہونے کی وجہ سے انگریزی بولنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ محض اسی وجہ سے وہ اردو زبان کو رائج کرنے میں رکاوٹ ہیں۔ بس گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے لئے سالوں بعد ایک آدھ بار سپریم کورٹ نوٹس جاری کر دیتی ہے۔ اور حکومت کی جانب سے کوئی بہانہ گھڑ لیا جاتا ہے۔

پچھلے دنوں جناب وجاہت صاحب نے ایک ٹویٹ میں ایک نازک پودے کا ذکر کیا تھا۔ جو اسلام آباد کی نرسری میں کسی مرد مومن نے لگایا ہے۔ بقول ان کے اس پودے کی بڑی حفاظت کے ساتھ دیکھ بھال کی جا رہی ہے۔ مبادا اسے کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔ یا کوئی شرپسند اس معصوم کو اکھاڑ نہ پھینکے۔

ماضی بعید میں بھی اس تاریخی نرسری میں بے شمار پودے لگائے گئے تھے۔ جن میں سے اکثر بن کھلے مرجھا گئے۔ مگر ایک دو پودے ایسے بھی تھے۔ جو تناور درخت بنے۔ کچھ عرصہ قبل ایک دو مزید پودے بھی منتخب کیے گئے تھے۔ مگر ان کو محض اس وجہ سے نہیں لگایا گیا۔ کیوں کہ ان میں جڑ پکڑنے اور پھل دینے کی صلاحیت ہی نہیں تھی۔ لہذا ان پودوں کو ریجیکٹ کر دیا گیا۔

ریجیکٹ سے یاد آیا ایک جذباتی شخص نے چند سال پہلے اپنے مشہور زمانہ ٹویٹ میں Rejected لکھ کر حکومت وقت کے چھکے چھڑا دیے تھے۔ کل یا پرسوں کی بات ہے۔ ایک دوسرے جذباتی شخص نے اس راز سے پردہ اٹھایا ہے۔ کہ Rejected والا ٹویٹ کسی اور شخص کی ہدایت پر جاری کیا گیا تھا۔ موصوف اس وقت ایک اسلامی ملک میں سفارت کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔ سفیر صاحب کو کچھ عرصہ قبل ایک وڈیو میں ایک عربی رپورٹر کو انگلش میں انٹرویو دیتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

اس سے قبل جو پودے تناور درخت بنے تھے۔ وہ نرسری والوں کے لئے بڑا مسئلہ پیدا کر رہے ہیں۔ کیوں کہ نرسری کا بیشتر حصہ ان درختوں کی وجہ سے کور ہو چکا ہے۔ اور وہ حسب خواہش پھل بھی نہیں دے رہے۔ اس کے علاوہ ان پر چیلوں اور گدھوں نے بسیرا کر لیا ہے۔ ان کو کاٹا بھی نہیں جاسکتا۔ کیوں کہ ان کی جڑیں دور دور تک پھیل چکی ہیں۔ ان کے کاٹنے سے کسی بڑے نقصان کا اندیشہ ہے۔ اب ان کے اردگرد بڑی مضبوط فصیل کھڑی کردی گئی ہے۔ تاکہ وہ مزید خرابی پیدا نہ کرسکیں اور اپنی حدود میں رہیں۔ اس بات سے قطع نظر جو پودے لگائے جا ر ہے ہیں۔ وہ لوگوں کی مرضی اور خواہش کے مطابق پھل بھی دیں گے یا نہیں۔ مالک کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ بس وہ پودے سلیکٹ کرنے میں مگن ہے۔ اس مشہور زمانہ نرسری میں سندھ سے بھی لا کر ایک پودا لگایا گیا تھا۔ جو بہت پھیلنے لگا تھا۔ لہذا اسے دو تین سال بعد ہی کاٹ دیا گیا۔ تاکہ وہ کوئی مسئلہ پیدا نہ کرے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ نرسری کے مالک بھی وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

اب وہ بڑا محتاط ہو چکا ہے۔ وہ کسی ایسے پودے کی تلاش میں ہے۔ جس کی کاشت سے بعد میں اسے کوئی پریشانی نہ ہو۔ اور وہ اس کی مرضی کے مطابق پھل دے۔ بقول وجاہت صاحب وہ پودا اب لگایا جا چکا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ پودا ماحول دوست بھی ہو گا یا نہیں۔ اس کے لئے تھوڑا انتظار۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments