افغانستان میں طالبان: کابل کے مکین جنھیں گھریلو سامان ساتھ لے جانے کی بھی مہلت نہ ملی


افغانستان
’میں قندھار میں اکثر اپنی اہلیہ سے مذاق میں کہتا تھا کہ میں دوسری شادی کروں گا۔۔۔ وہ جواب میں کہتی تھیں کہ میں دیکھتی ہوں کون سی خاتون آپ سے شادی کرنے کے لے تیار ہوتی ہے۔‘

صحافی عبداللہ (نام تبدیل کیا گیا ہے) کے مطابق جب وہ قندھار سے کابل منتقل ہوئے تو ان کے بچے تو بہت خوش تھے لیکن ان کی اہلیہ اُداس رہنے لگیں۔

عبد اللہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے اپنی اہلیہ سے کئی بار اُداسی کی وجہ پوچھی تو وہ کہتیں کہ اُنھیں اپنے شہر (قندھار) کی یاد آ رہی ہے لیکن کئی دن بعد ان کی اہلیہ نے خاموشی توڑ دی اور ان سے پوچھا: ’مجھے یقین نہیں آ رہا کہ آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں اور دوسری بیوی کو اتنا اچھا گھر بنا کر دیا ہے۔‘

افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے اب تک ہزاروں افغان اپنا گھر بار چھوڑ کر جا چکے ہیں اور ان میں سے اکثر خاندانوں کو اتنا موقع بھی نہیں مل سکا کہ وہ روزمرہ استعمال کی اشیا اکھٹی کر سکتے، یہاں تک کہ خالی کیے گئے چند گھروں میں پکائے ہوئے تیار کھانے بھی موجود تھے جنھیں کھانے کا موقع گھر والوں کو نہیں مل سکا۔

صحافی عبداللہ (نام تبدیل کیا گیا ہے) نے بھی سقوط کابل کے بعد کرائے پر ایک ایسا ہی گھر لیا جسے اس کے مکین کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’جب ہم یہاں آئے تو تھرموس میں بنائی گئی چائے تیار پڑی تھی، فریج کھانے پینے کی اشیا اور پھلوں سے بھرا ہوا تھا، خواتین کے کپڑے، برتن، چپل اور گھر میں استعمال ہونے والی تمام چیزیں اس گھر میں موجود تھیں۔‘

یہ ساری چیزیں دیکھ کر ان کی اہلیہ کو محسوس ہوا کہ شاید یہ واقعی عبداللہ کی دوسری اہلیہ کا گھر ہے۔

افغانستان

عبداللہ نے ہنستے ہوئے بتایا کہ اُس کے بعد اُنھوں نے اپنی بیوی کو سمجھایا کہ یہ میری دوسری بیوی کا گھر نہیں بلکہ کابل کے اکثر مکین اپنے گھروں کو ایسے ہی چھوڑ کر چلے گئے ہیں کیونکہ اُنھیں گھریلو سامان فروخت کرنے یا ساتھ لے جانے کا موقع ہی نہ مل سکا۔

عبداللہ نے بتایا کہ یہ صرف اسی مکان کا حال نہیں بلکہ اکثر خاندان ایسے ہی اپنے گھروں کر چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ گھر میں نصب گیزر تک آن تھا اور واش رومز میں مرد اور خواتین کے الگ الگ چپل پڑے تھے۔

عبدالسلام دارالحکومت کابل کے خیرخانہ مینہ علاقے میں 15 اگست تک ایک گارڈ کی حیثیت سے کام کر رہے تھے لیکن اب ان کے پاس چھ ایسے خالی مکان ہیں، جو پندرہ اگست کے بعد مالکان نے اُن کے حوالے کیے اور اپنے خاندان سمیت کابل چھوڑ کر بیرون ملک چلے گئے۔

عبدالسلام کے مطابق پہلے کی نسبت کابل میں مکانوں کے کرائے تقریباً ساٹھ فیصد سے بھی زیادہ کم ہوئے ہیں۔

عبدالسلام کہتے ہیں چھ مکانوں میں سے پانچ مکان کرائے پر دے دیے ہیں جبکہ ایک مکان اب بھی خالی پڑا ہے۔

’تین مکان میں نے ایسے خاندانوں کو کرائے پر دیے ہیں جو افغانستان کے دیگر صوبوں سے یہاں آئے ہیں اور اب یہاں سے بھی بیرون ملک جانے کی کوشش میں ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

’کہا تھا نا شادی کر لو، اب طالبان ہاتھ مانگیں گے تو ہم کیا کریں گے‘

وہ افغان جو ملک چھوڑ نہ سکے طالبان کے سائے میں ان کی زندگی کیسی ہے؟

طالبان کی ’جبری‘ میزبانی: گُل بی بی کے پاس کھانا پکانے سے انکار کی گنجائش نہیں

افغانستان

یاد رہے کہ کابل پر طالبان کنٹرول کے بعد بیشتر ممالک اُن افغانوں کو وہاں سے نکال چکے ہیں اور اب بھی نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں جنھوں نے گذشتہ بیس برسوں میں سابق افغان حکومتوں، فوج، پولیس، میڈیا اور بین الاقوامی این جی اوز کے ساتھ کام کیا۔

اس کے باوجود کہ طالبان کی جانب سے تمام افغانوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جا چکا ہے لیکن اب بھی بیشتر افغان کہتے ہیں کہ ’طالبان کے اعلانات اور عملی اقدامات میں تضاد ہیں۔‘

عبدالسلام نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان مکانات میں فرنیچر سے لے کر کچن کے برتن اور ایک یا دو مکانوں میں تو حتیٰ مرد اور خواتین کے کپڑے بھی پڑے ہیں اور جانے والے خاندانوں نے اُنھیں بتایا کہ ’یہ سب کچھ کرایہ دار استعمال کر سکتے ہیں۔‘

تاہم عبدالسلام کہتے ہیں کہ اُنھوں نے گھر کرائے پر دینے سے قبل مرد اور خواتین کے کپڑے اکٹھے کر کے ایک محفوظ جگہ پر رکھ لیے ہیں۔

صحافی عبداللہ نے بھی سکیورٹی گارڈ عبدالسلام سے مکان کرائے پر لیا ہے اور اس گھر کا ماہانہ کرایہ اب دو سو ڈالر ہے۔

جب عبداللہ سے پوچھا گیا کہ سقوط کابل سے پہلے اس گھر کا کرایہ کتنا ہو سکتا تھا؟ تو اُنھوں نے کہا کہ ’کم از کم چھ سو ڈالر۔‘

عبداللہ ایک بین الاقوامی میڈیا کے ادارے کے ساتھ منسلک ہیں اور اُن کے ادارے نے اُنھیں رواں سال جون میں قندھار سے افغان دارالحکومت کابل بُلا لیا تھا۔

’مجھے اور میرے بہت سارے کولیگز کو ہمارے ادارے نے اس لیے کابل بلا لیا تھا کیونکہ دیگر صوبوں سے کابل میں پھر بھی سکیورٹی بہتر تھی۔‘

اگرچہ اب عبداللہ کے کئی ساتھی بیرون ملک جا چکے ہیں لیکن وہ اور اُن کے کچھ ساتھی اب بھی دارالحکومت کابل میں موجود ہیں۔

عبداللہ بتاتے ہیں کہ سقوط کابل کے بعد اُن کے ادارے نے اُنھیں بتایا کہ وہ کرائے پر ایک گھر لے لیں اور قندھار سے بچوں کو بھی وہاں شفٹ کر لیں کیونکہ اُن کے مطابق ’ہوٹل میں رہ رہ کر میں تھک چکا تھا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’جب میں نے یہ گھر اور اُس میں پڑی چیزیں دیکھی تو سخت افسوس ہوا اور میرے ذہن میں بار بار یہ خیالات آتے رہے کہ پہلے یہاں بسنے والا خاندان کن حالات میں اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جلدی جلدی یہاں سے نکل گیا ہو گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32542 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments