ن کا بحران اور ش کی اُڑان


.

سب ستاروں اور اشاروں کا کھیل ہے۔ وطن عزیز کی تاریخ میں ایک باب ایسا بھی ہو گا جس میں ورق ورق پر داستان کوہ قاف درج ہو گی۔ پریوں، دیو کی کہانیاں اب سچ سی لگنے لگی ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ ہم الف لیلوی داستان ہی نہ بن جائیں۔

مشہور انگریزی ناول نگار جارج اورویل نے ایک شہرہ آفاق ناول ’1984’ 1949 میں لکھا جس کا مشہور زمانہ ’بگ برادر‘ کا کردار آج بھی ادب کی دُنیا میں زندہ ہے۔

’بگ برادر از واچنگ یو‘ یا ’بڑے بھائی تمہیں دیکھ رہے ہیں‘ اس کی مشہور لائن ہے اور ناول ریاست میں بڑھتی ہوئی مطلق العنانیت سے متعلق ہے۔ ہمارے ہاں جب بھی ’ویڈیو گردی‘ ہوتی ہے مجھے یہ ناول اور کردار بےحد یاد آتا ہے۔ مقاصد کے حصول کے لیے کسی کی عزت تار تار ہو جائے کوئی مضائقہ نہیں۔ مطلق العنانیت آخری منزل پہ ہے جہاں خوف کے ساتھ ساتھ غصہ بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔

بہرحال دیکھنے والی آنکھیں اور سُننے والے کان اپنی من پسند خبریں ہی سُننا اور دیکھنا چاہتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ صحافت ہو یا سیاست حقائق اپنی پسند کے مطابق توڑے اور مروڑے جاتے ہیں۔

اس ہفتے کا آغاز شہباز شریف کے لیے اچھی خبر سے ہوا۔ لگتا ہے شہباز شریف کے ستارے اپنی چال بدل رہے ہیں۔ لندن کی عدالت نے شہباز شریف کو منی لانڈرنگ کے مقدمے میں بےقصور ثابت کر دیا ہے۔ یہ انہونی ہے یا ہونی اس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہو گا۔

یاد رہے کہ پاکستان کی عدالتوں نے عمران خان کو ’صادق اور امین‘ قرار دیا تھا۔ خیر متبادل کا مقابلہ ہے لہٰذا لندن کی عدالت کی گواہی ہی بڑی گواہی سمجھی جائے گی۔ شہزاد اکبر کے تمام دعوے، ٹی ٹی کی تفصیلات اپنی جگہ مگر ابتدائی معلومات کے مطابق پاکستان، دبئی اور لندن کے اکاؤنٹس کی چھان بین ہوئی اور گذشتہ 20 برس کے ریکارڈ چیک کیے گئے۔ عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ شہباز شریف اور سلمان شہباز بےگُناہ ہیں البتہ شہزاد اکبر نے ان تفصیلات کو مُسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ شہباز شریف اور سلیمان شہباز کی مبینہ بریت کی خبر درست نہیں اور یہ کہ نیشنل کرائم ایجنسی نے خود فنڈز منجمد کیے تھے اور خود ہی اُن پر مزید کوئی تفتیش نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اب جو بھی ہو اخلاقی فتح بہرحال شہباز شریف کی ہوئی ہے۔ یعنی سمندر پار بھی ستارے کام کر رہے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے اندر بھی شہباز شریف فتح کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔ ن لیگ کی اندرونی محاذ آرائی اب کُھل کر سامنے آ چکی ہے۔ جماعت کے پختہ اور جیتنے والے سیاستدان شہباز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں۔

شہباز اور نواز

بظاہر خاندانی مقابلے میں شہباز شریف کا مقام اعلیٰ ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہ ہوا اور نتیجتاً شہباز شریف روٹھ گئے۔ منانے کے لیے بڑے میاں صاحب کیا جتن کریں گے اس کا فیصلہ شاید جلد ہو جائے تاہم گذشتہ چند اہم اجلاسوں سے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی غیرحاضری نے ایک صاف اور واضح پیغام دے دیا ہے۔ اُدھر اُن کی جماعت کے چند سینیئرز نے بھی ’اب نہیں تو کبھی نہیں‘ کا مشورہ دیا ہے۔

شہباز شریف کے ستاروں کی اُڑان اُس وقت اونچی ہوئی جب اُن کی سربراہی میں کنٹونمنٹ انتخابات میں کامیابی اور ’کام کو ووٹ دو‘ کا نعرہ اپنا کام دکھا گیا۔ غیر سیاسی نعروں سے پرہیز نے کنٹونمنٹ انتخابات میں ’غیرجانبداری‘ پر مہر ثبت کر دی یوں یقین دہانی کرائی گئی کہ اگلے انتخابات ’شفاف‘ کروائے جائیں گے۔ بہرحال کون جیتا ہے تیری زُلف کے سر ہونے تک۔

بیانیے کی عملی جنگ میں بھی شہباز شریف اگلے محاذ پر ہیں اور مفاہمت کے ساتھ ساتھ مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ راہ و رسم بھی ٹھیک ہے اور پارلیمانی سیاست میں ہم آہنگی کے ساتھ اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں جو انتخابات سے قبل یا بعد میں ’قومی حکومت‘ کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔

شہباز شریف کی ’اُڑان‘ اب اُسی وقت رُک سکتی ہے اگر نواز شریف وطن واپس آ گئے ورنہ پاکستان میں موجود ن لیگ ’ش‘ کے ہاتھ تقریباً جا چکی ہے۔

ن لیگ کو ش کے ہاتھ جانے سے روکنے اور بیانیوں کی جنگ میں بٹی ن کو بچانے کے لیے نواز شریف کو واپسی کا فیصلہ کرنا پڑ سکتا ہے۔ دیکھنا یہ بھی ہے کہ ن میں تیزی سے سرایت کرتی ’ش‘ کے مقابلے میں شدید تحفظات رکھنے والی ایک اور ’ش‘ کب منظر عام پر آتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments