دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں


صاحبان! ، مہربان! ، قدردان! یہ جو سانپ میں آپ کو دکھانے والا ہوں، اس کو میں بمشکل کوہ ہمالیہ کی بلند و بالا چوٹیوں سے پکڑ کر لایا ہوں۔ ایسا سانپ آپ نے زندگی میں نہیں دیکھا ہو گا لیکن قدرت خدا کی دیکھیں جب میں نے اس سانپ کو پکڑ لیا تو میرے ہاتھ وہ عظیم چیز لگی جس کا آپ تصور نہیں کر سکتے۔ سانپ تو اس نے کبھی نہیں دکھایا لیکن اپنا منجن، سلاجیت یا پھکی بیچ کر ، ہم اری آنکھوں میں دھول جھونک کر یہ جا وہ جا، زمانہ گزر گیا، لڑکپن اور جوانی میں ہم جیسے ہی جنرل بس اسٹینڈ پہنچتے، ہمیں اس طرح کے مجمعے باز اپنی اپنی کرشماتی چیزیں بیچتے نظر آتے۔

آج سے پچیس سال پہلے کا ذرا تصور کریں کہ جنرل بس سٹینڈ پر کیسے کیسے مداری اور بہروپیا قسم کے لوگ ہمیں ملتے تھے۔ کہیں جوس بیچنے والا اپنے ٹیپ ریکارڈر پر کیسٹ لگا کر سکرین ملے، بد ذائقہ اور مضر صحت جوس کے بارے میں یہ اعلان کر رہا ہوتا تھا کہ ”یہ وہ جوس نہیں جو نتھو نے بنایا اور پھتو بیچنے آیا۔ آپ کے سامنے مشینیں چل رہی ہیں۔ یہ لو میرے بھائی، یہ لو میرے ویر! ، یہ لو ماں جی! ، بڑا گلاس پانچ روپے اور چھوٹا گلاس دو روپے“ ، بس میں سوار ہوتے ہیں اپنی آنکھوں میں بہت زیادہ سرمہ لگائے کوئی سرمہ فروش آ جاتا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا کہ اس سرمے سے مکہ اور مدینہ بھی نظر آ سکتا ہے۔

شرط یہ ہے کہ انسان صاحب نظر ہو۔ گاہکوں کو متوجہ کرنے اور یہ ثابت کرنے کے لئے کہ بس کی آخری نشست والے اسے خریدنے پر آمادہ ہیں، ساتھ ہی خواہ مخواہ آواز لگاتا ”آیا بھائی جان! ، آیا اماں جی! ، تاکہ اس کی جنس جلد از جلد فروخت ہو سکے۔ ابھی یہ اتر رہا ہوتا تھا کہ ساتھ جنتری بیچنے والا بھی بس کے دروازے کا ڈنڈا پکڑے اپنی انٹری کا منتظر ہوتا۔ میں نے کبھی ایک آدھ بندے کو ہی جنتری یا سرمہ خریدتے دیکھتا تھا۔

جنتری بیچنے والے کے جانے کے بعد معدے کے لئے ہاضم پھکی بیچنے والا آ جاتا جس کا یہ اعلان ہوتا کہ قبض 70 بیماریوں کی جڑ ہے اور اس پھکی سے نہ صرف دائمی قبض سے نجات مل سکتی ہے بلکہ لکڑ اور پتھر بھی ہضم ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بس کا سٹینڈ پر وقت پورا رہنے میں ایک دو منٹ ہی رہتے ہوتے تھے کہ ایک باریش مولوی ہاتھ میں چندے کی رسید پکڑے، بس میں داخل ہوتا اور اعلان کرتا کہ آپ کے سامنے بس سٹینڈ کی مسجد زیر تعمیر ہے، بجری سیمنٹ بھی آ چکی ہے بس کچھ تعمیراتی سامان لینا ہے جس کے لئے صاحب دل لوگوں سے چندے کی اپیل ہے۔ نہ اس نے کبھی کسی کو رسید دی اور نہ ہی کوئی مانگتا تھا لیکن میرے پانچ سے چھ سال کالج کے دور میں وہ مسجد کبھی مکمل نہ ہو سکی البتہ یہ ہوا کہ وہ نحیف اور منحنی سا مولوی اس چندے سے ہوٹل کے مرغن کھانے کھا کھا کر موٹا ہو تا چلا گیا۔

وقت نے رفتار بدلی، جنرل بس سٹینڈ اجڑتے گئے۔ عوام تھوڑا عقل مند ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب حیثیت ہو گئے تو یہ شعبدہ باز، مداری اور بہروپیے بھی اپنی دکان بڑھا گئے۔ اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ اپنے اختتام کو پہنچے تو آپ کی یہ سب سے بڑی غلط فہمی ہے۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں، آپ کو ہر شعبہ ہائے زندگی میں یہ چھائے ہوئے نظر آئیں گے، فرق یہ ہے کہ اب ان کے انداز و اطوار اور لہجہ بھی مہذب ہو گیا ہے۔ شعبہ صحت کو دیکھ لیں، آپ کو یہ پھٹے لگانے والے، مجمعے باز کامیاب ڈاکٹر نظر آئیں گے۔

جس ڈاکٹر کی قابلیت کا ذکر، آپ کا کوئی دوست یا شناسا کر رہا ہو، ہو سکتا ہے اس کو ہر مریض لانے کا کمیشن ملتا ہو۔ جس ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا ہونے کے افسانے زبان زد عام ہوں، ہو سکتا ہے وہ ایسی کوئی تباہ کن سٹیرائیڈ ٹائپ دوائی مریضوں کو دے رہا ہو، جس سے اس کو وقتی طور پر افاقہ ہو لیکن بعد میں مزید کسی لاعلاج مرض کا شکار ہو سکے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے نواحی علاقے میں ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھا جسے لوگ ”ڈاکٹر ڈیکسا“ کے نام سے جاتے تھے، وقت کی گرد میں ہم اسے بھول گئے لیکن کل اس کے ہسپتال کے قریب سے گزر ہوا تو مریضوں کی ایک بڑی لائن دیکھی، دریافت کرنے پر علم میں آیا کہ موصوف کے پاس جیسے ہی کوئی مریض آتا ہے تو حیلے بہانے سے اس کو 1000 سے 1200 کی ڈرپ بمعہ انجکشن لگا کر اپنے ذاتی خزانے میں اضافہ کر رہے ہیں۔

ایسی کئی مثالیں، آپ کے ارد گرد موجود ہوں گی، جہاں مسیحا ہی ملک الموت بن کر دکھی انسانیت کو راہ عدم دکھا رہا ہوتا ہے۔ میری زندگی کا اکثر حصہ تعلیم کے میدان میں گزرا ہے، کسی اور شعبے کی بات کرنے سے پہلے ذرا تعلیم کو ہی دیکھ لیں، اگر آپ کے پاس کچھ رقم ہے تو ایسٹ انڈیا کمپنی ٹائپ کسی بھی غیر ملکی یونیورسٹی یا کالج کی فرنچائز لیں، لیکن شرط یہ ہے کہ آپ کے تعلیمی ادارے کا نام ذرا ثقیل، کثیف اور جناتی قسم کی انگریزی والا ہونا لازمی ہے۔

اس کے بعد آپ کو لوٹ مار کی اجازت ایسے ہی مل جاتی ہے جیسے بس میں پھکی بیچنے والے کو ملی ہوئی ہوتی تھی، شرط یہ ہے کہ آپ کے منجن کا برانڈ پاکستانی عوام میں مقبول ہو، ایک کام اور کریں کہ اپنی جیب بھرنے کے لئے حیلے بہانے سے کلر ڈے، فروٹ ڈے، ریفریشمنٹ ڈے، یوم صفائی کے ساتھ ساتھ جو بھی معمولات زندگی کے افعال آپ کے ذہن میں ہیں، ان کے نام پر آپ عوام کی جیبیں خالی کرتے رہیں۔ آپ کو بچے کے امتحانی گریڈ اور تربیت کے لئے پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں، وہ تو والدین کا فرض ہے جو وہ ہوم ٹیوشن سے پورا کریں گے کیونکہ وہ اتنی بھاری فیس ادا کر رہے ہیں، ان کو بھی تو خوف ہوتا ہے کہ اگر بچہ سکول کے معیار پر پورا نہ اترا، تو سکول سے خارج کر دیا جائے گا۔

باقی رہی اس کی دینی تربیت تو گھر پر ہی کوئی مولوی رکھ لیا جاتا ہے جو بچے کو نماز کے ساتھ ساتھ دعائے قنوت، نماز جنازہ اور بقیہ تمام فرائض اسلام سمجھائے کے ساتھ یاد بھی کروائے گا اور قرآن مجید ناظرہ بھی پڑھائے گا۔ دکھاوا اور نمود و نمائش کے ساتھ ساتھ، آپ کو کچھ ایسے بہی خواہ بھی رکھنے ہوں گے جو نہ صرف اپنے دوستوں میں آپ کی نادیدہ اور ماورائے عقل خوبیوں کا ذکر کر سکیں بلکہ اگر ممکن ہو تو آپ کے کارناموں کی تشہیر سوشل میڈیا پر بھی کر سکیں۔

یہ تو رہا تعلیمی اداروں میں منجن فروشی کا کردار، شاید آپ بس میں چندہ مانگنے والے مولوی کو بھول گئے ہوں جو عوام کو ثواب اور صدقہ جاریہ کے سبز باغ دکھا کر اپنا پیٹ فربہ اور گھر والوں کا پیٹ پالتا تھا۔ اب اس مولوی نے بس سٹینڈ چھوڑا، کسی ایک آدھ خوف خدا والے انسان سے دس بیس مرلے کا پلاٹ مدرسے اور مسجد کی تعمیر کے لئے بطور صدقہ جاریہ لیا اور اپنی دکان کھول لی، ساتھ ہی چندے کا سلسلہ بھی چل نکلا، میلاد ہو یا کونڈے، کسی کا جنازہ ہو یا قل خوانی، چہلم ہو یا عاشورہ محرم، مولوی صاحب ہر کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔

عاقبت تو شاید سنورتی یا نہ سنورتی، دنیا ایسا سنوری کہ مولوی صاحب نے پوش علاقے میں گھر بھی لے لیا اور ذاتی کاروبار بھی شروع کر لیا۔ ہو سکتا ہے میری اس بات سے کچھ مخصوص احباب اتفاق نہ کریں کہ ہر شعبہ زندگی میں سب انسان ایک جیسے نہیں ہوتے، تو مجھے ان کی اس بات سے اتفاق ہے، اس لئے تو عنوان بھی یہی دیا ہے کہ دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں، تعلیم، سیاست اور صحافت جیسے وسیع دشت کی سیاحی میں اپنی زندگی کے چند قیمتی سال گزارنے کے بعد کم از کم مجھے اب اتنی عقل آ گئی ہے کہ اگر آپ رزق حلال کھا کر خلوص نیت کے ساتھ زندگی کی اس دوڑ میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو پاکستانی معاشرے میں رہ کر یہ فریضہ انجام دینا نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن بھی ہے۔

سیاست میں قدم جمانے ہوں یا صحافت میں، تعلیم کے شعبے میں عوام کے جذبات اور بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھیلنا ہو یا صحت کے شعبہ میں رہ کر مریضوں کی زندگی داؤ پر لگانی ہو، آپ کو صرف ایک کام کرنا ہو گا، سچائی کو چھوڑ کر منافقت اور دیانت کی بجائے خیانت کا راستہ اپنانا ہو گا تا کہ لوگوں کے ساتھ ساتھ آپ کے قریبی رشتہ دار بھی واہ واہ کر سکیں۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے منہ پر ہی اپنے گاہک کو سچ بتائیں گے تو ہمارے معاشرے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے، اس لئے بہتر ہی آپ کسی کافر ملک کی راہ لیں، اسلامی جمہوریہ پاکستان، آپ جیسے دیانت دار، سچائی پرست اور کھرے بندے کے لئے نہیں بنایا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments