تاریخ کا گلشن اور اختلاف کی مہک


آج ذرا تاریخ کے گلشن سے اختلاف کی مہک کشید کرتے ہیں۔ سال 93 ہجری کا ہے۔ مدینہ میں انس کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام مالک رکھا گیا۔ شہاب زہری ایسے جلیل القدر اور عالی مرتبت استاذ سے فیضان علم حاصل کرنے کے بعد اس بچے نے فقط سترہ سال کی عمر میں مسند درس و تدریس کی سنبھالی۔ یہ بچہ پھر فقہیہ، مجتہد، اور محدث بنا جس کے علم کی دھاک چہار دانگ عالم میں پھیلی۔ امام مالک کی عظمت کا اندازہ احمد بن شعیب علیہ الرحمتہ کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے کہ ”امام مالک سے بڑھ کر علم الحدیث میں کوئی بھی مامون و معتبر نہ تھا“ (تہذیب التہذیب) ۔ امام مالک نے رسالت مآبﷺ کی قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ صرف اس قبر والے سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا، باقی سب سے اختلاف ممکن ہے۔

لیکن یہاں معاملہ کچھ یوں ہے کہ ہر شخص نے ایک عظیم سپاہ تیار کر رکھی ہے جس کے ہاتھ میں سوشل میڈیا کا مہلک ہتھیار ہے جو ہر مخالف پر صاعقہ بن کر برس رہا ہے۔ ان دنوں پروفیسر احمد رفیق اختر کے مخالفین زیر عتاب ہیں۔ پروفیسر صاحب آدمی تو معقول معلوم ہوتے ہیں مگر نہ جانے ان کو کیا سوجھی کہ قیامت کی پیشین گوئی کر دی۔ اگر حافظہ دھوکہ نہیں دے رہا تو گورنمنٹ کالج کے خطاب میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ اس دنیا کی زیادہ سے زیادہ عمر تین سو پینتالیس سال رہ گئی ہے۔ قرآن بار بار اس بات کو بیان کرتا ہے کہ قیامت کا علم صرف خدا کو ہے، مگر پروفیسر صاحب کو نہ جانے کیسے الہام ہو گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کانفرنس کا عنوان ”عصری تہذیبی مسائل اور سید ہجویر کی تعلیمات“ تھا۔ یاسر جواد نے سوال اٹھایا تھا کہ کیا سید ہجویر کو خود بھی اپنے دور کے مسائل کا علم تھا؟

مغربین کے سازشی تو سائنس کی بدولت قدم چاند پر ٹکا رہے ہیں اور ہمیں عصر حاضر میں سید ہجویر کی تعلیمات سے رہ نمائی درکار ہے۔ کیا قرآن اور مجموعہ احادیث ناکافی ہو گیا ہے؟ ایک طویل سیاہ رات اس دھرتی پر چھائی ہوئی ہے کہ مہتاب بھی جس میں چمکتا نہیں اور آفتاب بھی شب پاش بنتا نہیں۔ کبھی مومن کی تعریف یہ بھی پڑھی تھی کہ وہ زمانے سے ہم آہنگ ہوتا ہے اور اپنا حال یہ ہے کہ زمانے سے تو کیا ہم تو ماضی سے بھی ہم آہنگ نہیں کہ تعلیم حاصل کرنے کی خصلت عشروں سے ترک کر رکھی ہے۔

ہر کوئی یہی نعرہ مستانہ بلند کر رہا ہے کہ اسلام کو نافذ کر دو اور پھر دیکھو کہ پلٹا زمانہ کیسے کھاتا ہے۔ اخلاقیات پر توجہ کوئی نہیں اور نعرہ اسلام کے نفاذ کا ۔ بخاری میں سیدہ عائشہ سے مروی ہے کہ نبوت کے ابتدائی آٹھ سالوں میں صرف آخرت کے متعلق آیات نازل ہوتی رہیں۔ اور آخرت کے متعلق جتنی بھی آیات ہیں وہ سب اخلاقیات کو درست کرتی ہیں۔

یہاں کوئی اقرار بھی تو نہیں کرتا کہ میں اخلاقی برائیوں کے گڑھے میں ہوں۔ تبدیلی تو تب آئے جب افراد آمادہ ہوں۔ کسی فرقے کا متعصب امام چاہتا یہ ہے کہ اسلام نافذ ہو جائے مگر اسلام وہی ہو جس کی تشریح اس کے اکابرین نے کر رکھی ہو۔ اسلام کے نفاذ سے ایک واقعہ یاد آیا جس کو سن کر آپ بھی محظوظ ہوں گے۔

غامدی صاحب بتا رہے تھے کہ ایک ریٹائرڈ جنرل ان کے پاس آئے جن کی آنکھوں سے آنسو مانند کسی دریا کے رواں تھے۔ یہ جنرل پانچ سینئر جنرلز میں شامل تھے اور آرمی چیف بننے کے امیدوار تھے۔

غامدی بیان کرتے ہیں کہ ہم نے استفسار کیا کہ میاں روتے کیوں ہو؟

جنرل صاحب فرمانے لگے کہ میں نے کتنے سالوں سے یہ تہیہ کیا ہوا تھا کہ آرمی چیف بنتے ہی مارشل لاء کے حالات پیدا کروں گا اور اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوں گا۔ مقصد پیش نظر یہ تھا کہ اقتدار سنبھالتے ہی ملک میں اسلامی نظام کو نافذ کروں گا۔

لوگوں کی ذہنیت دیکھیے کہ کس قدر پست ہے۔ یہ اسلام ہے یا جرمانے کا کوئی قانون ہے جو بہ یک جنبش قلم نافذ کر دیا جائے گا۔ شکر ہے کہ موصوف آرمی چیف نہ بنے وگرنہ حضرت ضیاءالحق کا ظہور دوبارہ ہو جاتا اور گھٹن ماحول میں بڑھ جاتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments