بچے کے تعلیمی شعبے کا انتخاب اور والدین


آج کل کے بڑھتے ہوئے تعلیمی رجحان میں ہر ماں باپ یہ چاہتا ہے کہ ان کے بچے ڈاکٹر، انجینئر، ٹیچر، پائلٹ یا تو آرمی افسر بنیں۔ لہذا دوران تعلیم ان کو یہ بات باور کروا دی جاتی ہے کہ بیٹا تم ڈاکٹر بنو گے، تم انجینئر بنو گے یا تم پائلٹ بنو گے وغیرہ وغیرہ۔ جیسے ہی بچہ میٹرک کا امتحان پاس کرتا ہے تو اسے والدین کی مرضی سے ایف اس سی، آئی سی ایس یا ایف اے وغیرہ میں داخل کروا دیا جاتا ہے۔ اب اس سارے عمل کے دوران وہ بچہ جس نے اپنی زندگی گزارنی ہے یا جس نے اپنی دلچسپی کے مطابق اپنے شعبے کا انتخاب کرنا ہے اسے اس فیصلے میں شامل ہی نہیں کیا جاتا یا یوں سمجھ لیں کہ سیدھا اپنی مرضی سے داخل کروا دیا جاتا ہے۔ بچے کی رضامندی، اس کی دلچسپی اور ہم آہنگی کو سرے سے ہی نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ بالکل یہی صورت حال انٹر میڈیٹ کرنے کے بعد ہوتی ہے

مثلاً ایک بچہ جس نے ایف اس سی میڈیکل یا انجنیئرنگ کے ساتھ پڑھا ہو لیکن بعد میں اس کی دلچسپی میڈیکل یا سائنس فیلڈ کی بجائے کسی آرٹس فیلڈ میں ہو جاتی ہے جیسا کہ وہ انگلش کے شعبے میں دلچسپی رکھتا ہو اور اسے اپنے تعلیمی کیرئیر کے طور پر اپنانا چاہتا ہو یا کہ وہ وکیل بننے میں دلچسپی رکھتا ہو، اسے سیاست کا شوق ہو اور وہ اسے بطور مضمون پڑھنا چاہتا ہو، اسے اردو ادب سیکھنے کا شوق ہو یا اسلامی علوم کو سیکھنے کی طرف اس کا رجحان پیدا ہو گیا ہو یا بعض پچوں میں دور جدید میں گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ آئی ٹی اور مختلف ڈیجیٹل پروگرامز میں دلچسپی بڑھ جاتی ہے اور وہ اسے اپنے کیرئیر کے طور پر اس کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں تو اس سارے پس منظر میں والدین بجائے اس کے کہ وہ اپنے بچوں کے انتخاب یا دلچسپی کو مدنظر رکھیں وہ اس کی کھل کر مخالفت کرتے ہیں اور یہ بات ان کو باور کروا دی جاتی ہے کہ اگر تم پڑھو گے تو اسی فیلڈ میں، یہی ٹھیک ہے اور بس اس کے علاوہ کچھ نہیں۔

یہاں ایک چیز بہت اہم دیکھی گئی ہے بلکہ میں نے اس کا بذات خود تجربہ بھی کیا ہے اور قریب سے تجزیہ بھی کیا ہے کہ اکثر و بیشتر والدین چاہتے ہیں کہ ان کا بیٹا جس شعبے میں داخلہ لے اس شعبے کا بہت زیادہ سکوپ ہونا ضروری ہے چاہے بچے کا اس شعبے کی طرف رجحان ہے یا نہیں حالانکہ یہ بات بالکل حقیقت کے منافی ہے کیوں کہ کسی بھی فیلڈ کا سکوپ اس کو اپنانے والا خود بناتا ہے۔ جب بچہ اک ایسے مضمون کو پڑھے گا کہ جس میں اسے دور دور تک کوئی دلچسپی نہیں ہے تو وہ اپنے تعلیمی میدان میں بھلا کیسے کامیاب ہو گا، کیسے وہ اس فیلڈ کا سکوپ بنائے گا۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ بعض اوقات بچے اپنے والدین کے ڈر سے بھی یہ بات کہنے سے ہچکچا جاتے ہیں کہ وہ اس فیلڈ یا شعبے میں داخلہ لینا چاہتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ والدین اور بچوں میں بات چیت کا فقدان ہونا ہے جو اس معاملے پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے یا یوں سمجھ لیجیے کہ بچہ اپنے دل کی بات کھل کر اپنے والدین کو نہیں بتا سکتا کہ وہ جس فیلڈ میں اس کا داخلہ کروانا چاہتے ہیں اس میں اس کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔

اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچے کی اس فیلڈ میں دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے نا تو وہ اچھے سے اپنی ڈگری مکمل کر پاتا ہے بلکہ اس کی مثال اک ایسے بھٹکے ہوئے مسافر کی سی ہوتی ہے جو کہ سفر تو کرتا ہے اور خوب کرتا ہے لیکن کوئی سمت، ٹھکانہ یا منزل نہیں ہوتی۔ اس طرح اس بچے کو بھی یہ سمجھ نہی آتی کہ وہ آگے کیا کرے؟ ، اس کا مستقبل کیا ہے؟ ان سب سوالات کا جواب اس کے پاس اس وقت نہیں ہوتا۔ وہ اپنی زندگی میں کنفیوزڈ ہو کر رہ جاتا ہے۔

اس لئے اس سارے عمل کے دوران والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے سے مشورہ کریں ان سے پوچھیں کہ وہ کس شعبے میں دلچسپی رکھتا ہے، اس کا شوق کیا ہے؟ وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟ کیوں کہ تعلیم حاصل کرنا، اس پر توجہ دینا والدین یا کسی اور شخص کا کام نہیں بلکہ محض اسی بچے کا کام ہے جس نے آگے بڑھ کر اس پیشے کو اپنانا ہے اور تعلیم حاصل کرنا ہے۔

یا اگر بچہ اور والدین اس معاملے میں کنفیوژن کا شکار ہیں تو مناسب راہنمائی کے لئے کسی اچھے کیرئیر کونسلر کے پاس بچے کو لے جایا جائے تاکہ بچے کی اچھی کیرئیر کونسلنگ ہو سکے۔ وہ اپنے شوق، دلچسپی اور انتخاب کے بارے میں بتا سکے کہ وہ اس مضمون میں دلچسپی رکھتا ہے اور دوسرے مضمون میں اس کی دلچسپی نسبتاً کم ہے۔ کیرئیر کونسلر اس معاملے میں کافی مد کر سکتے ہیں کہ وہ بچے اور والدین کو کسی نتیجے تک پہنچنے میں مدد کر سکتے ہیں۔

اس لئے اس سارے عمل کے دوران بچے اور والدین کا ربط قائم ہونا بہت ضروری ہے تا کہ بچہ اپنے والدین سے اپنے شعبے کے انتخاب بارے بتانے میں کسی قسم کا کوئی ڈر، پریشر یا پریشانی نہ محسوس کرے۔ اور سب سے بڑھ کر والدین کو بھی چاہیے کہ وہ بچے کے تعلیمی مستقبل کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ تنہا نہ کریں بلکہ اس سے مشورہ کیا جائے، اسے اعتماد میں لیا جائے اور اس کی دلچسپی بارے دریافت کیا جائے کہ آیا کہ وہ رضامند ہے یا نہیں۔ اس کے شوق کو مدنظر رکھا جائے اور اس کی بات کو اہمیت دی جائے اور سنا جائے کہ وہ آخر کیا کرنا چاہتا ہے تاکہ کل کو بچے کا مستقبل روشن اور کامیاب ہو۔ اسے کوئی منزل ملے کوئی سمت مل سکے۔ اور سب سے بڑھ کر زندگی میں آگے بڑھ کر کامیاب آدمی بن سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments