اظہار خیال بنام عورت


لڑکی یا عورت دونوں ہی لفظ ایک خاص جنس کی پہچان کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ عورت یا زن لفظ مادہ یا مونث انسان کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

دنیا بھر میں عورت ہی موضوع بحث کیوں ہے؟ ہر شخص، جماعت، مذہب پرست، آزاد خیال سوچ کے حامل افراد عورت ہی کے موضوع کو کیوں حساس ترین موضوع سمجھ کر کچھ اظہار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ دنیا بھر کے مذاہب بھی عورت کے متعلق اپنی اپنی رائے رکھتے ہیں۔ غرض کہ عورت تاریخ کے ہر دور میں موضوع بحث رہی جس کو ہمیشہ سے مرد کے تابع ہی سمجھا گیا۔ لیکن موجودہ زمانے میں ترقی یافتہ ملکوں میں عورت اور مرد کو مساوی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عورتوں اور مردوں کے معاشرے میں مرد اور عورت کو مساوی حقوق دلوانے کے لیے ضرورت ہے۔ جس کے لیے دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح جان پہچان لیں۔ ایک دوسرے کو جاننے اور پہچاننے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی نفسیات سے اچھی طرح واقفیت حاصل کر لیں، جس کے بعد ہی ایک دوسرے کے حقوق کو سمجھا جا سکتا ہے۔

اگر جنس کے حوالے سے بات کریں تو محبت مرد بھی کرتا ہے او عورت بھی، لیکن محبت کے بارے میں دونوں کے نظریات میں نمایاں فرق ہے۔ مرد محبت کرنا چاہتا ہے لیکن عورت کا خیال یہ ہوتا ہے کہ اس سے محبت کی جائے۔ مرد چاہتا ہے کہ اس کے کارناموں کی عزت کی جائے اسے سراہا جائے۔ لیکن عورت چاہتی ہے کہ خود اس کی عزت کی جائے اسے سراہا جائے۔ مرد محبوب کی خدمت میں اپنے کارنامے پیش کرنا چاہتا ہے لیکن عورت اپنی ذات پیش کرتی ہے۔

مرد کی محبت کا دائرہ وسیع ہوتا ہے یعنی وہ اپنی آئیڈیل سے اور بیوی دونوں سے محبت کرتا ہے۔ لیکن عورت صرف اپنے شوہر سے محبت کرتی ہے۔ مرد محبوب کی خوشی کے لیے زیادہ سے زیادہ کام کرنا چاہتا ہے لیکن عورت شوہر کے کام کو اپنا رقیب سمجھتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ کامیاب مفکروں ادیبوں، شاعروں، ڈاکٹروں، لیڈروں، تاجروں اور وکیلوں وغیرہ کی بیویاں اپنے شوہروں پر اعتبار نہیں کرتی؟ اور ان کے پیشوں کو اچھی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔

مرد کار نمایاں انجام دینا چاہتا ہے لیکن عورت ذاتی برتری کو ترجیع دیتی ہے۔ مرد کی شخصیت میں خود پسندی ہوتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ خود غرض ہوتا ہے۔ اسی طرح عورت کی محبت کا مرکز مرد ہوتا ہے وہ اپنے من مندر میں شوہر کے بت کو بٹھاتی ہے۔ وہ شوہر اور بچوں کی خدمت میں اپنے آپ کو بھول سکتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہ ہو کہ اس کی محبت بے لوث اور بے غرض بھی ہو سکتی ہے۔

ہم ایک زمانے سے عورت کو ناقص عقل سمجھتے آرہے ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔

مرد تسخیر کائنات کے معاملے میں ذہین ہے اور عورت شخصی معاملات میں مثلاً خدمت، مامتا، آرائش و زیبائش وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس اور فلسفہ میں عورت کا حصہ انتہائی کم ہے اگر عورت نے سائنس اور فلسفہ میں کار نمایاں کم انجام دیں تو اس کہ یہ ہرگز مطلب نہیں کہ وہ ناقص و العقل ہے۔ ذہین دونوں ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ دونوں کے میداں الگ الگ ہیں۔ عورت کی ذہانت عقلی کم اور وجدانی زیادہ ہے وہ کسی واقعے کی تفصیلات کا تجزیہ کیے بغیر اپنی جذباتی قوت احساس اور وجدان کی مدد ایک نتیجہ اخذ کر لیتی ہے۔

عورت اپنے احساسات اور وجدان سے نتیجہ نکالتی ہے جبکہ مرد غور و فکر اور اپنی منطق پر زیادہ بھروسا کر تا ہے۔ عورت جذباتیت کی وجہ سے زیادہ جانبدار اور متعصب ہو سکتی ہے کسی بات کا ردعمل عورت پر جلد اور مرد پر دیر میں ہوتا ہے۔ مرد کچھ کہنے اور کرنے سے پہلے غور و فکر کرے گا لیکن عورت کو جو کچھ کرنا وہ فوراً کر گزرے گی۔

زندگی میں امور خانہ داری میں جب ایک دوسرے کی نفسیات، طور طریقے کو نہیں سمجھ پائیں گے تب تک ایک دوسرے کے حقوق سے بھی بے خبر رہیں گے۔ جس سے خوشگوار زندگی کہیں دفن ہوتی نظر آئی گی مردوں و عورتوں کے حقوق اس وقت تک صلب ہوتے رہیں گے جب تک زندگی کے اصل حقوق کے متعلق وہ نا بالغ رہیں گے۔

دنیا پھر کے مذاہب مردوں اور عورتوں کے حقوق کے متعلق اپنے اپنے فلسفوں سے بھرے پڑے ہیں لیکن بعض جگہوں پر ان کی وضاحت ابھی بھی ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔

بدھ مت کے پیروکاروں میں عورتوں کے متعلق یہ نظریہ بھی پایا جاتا ہے لکھا گیا ہے کہ

”گوتم بدھ نے اگرچہ عورتوں کو اپنی جماعت میں جگہ دی تھی اور مردوں کی طرح عورتیں بھی بھکشونیاں بن سکتی تھیں لیکن حقیقت میں بدھ مت کا اصل مقصد عورتوں کو مردوں سے دور رکھنا ہی تھا کیونکہ بدھ مت میں تیاگ اور بیراگ کا ایک بڑا مقام ہے، حظ نفس کا نہیں۔ گوتم بدھ نے عورتوں کی مذمت نہیں کی لیکن ساتھ ساتھ صلاح دی کہ لوگ عورتوں کے خطرے سے بچے رہیں اور جہاں تک ممکن ہو، عورتوں سے دور رہیں۔ بدھ کے خیال میں مثالی زندگی وہ ہے کہ عورتوں سے دور رہا جائے اور ممکن ہو تو کسی بھی حالت میں ان سے ملے بغیر زندگی گزاری جائے۔“

عورتوں سے متعلق ایک بار مہاتما بدھ نے اپنے خاص شاگرد آنند سے کہا تھا:
آنند نے کہا: ”لیکن اگر انہیں دیکھنا پڑے تب؟“
بدھ نے فرمایا: ”بہت خبر دار رہو آنند۔“

پھر بھی مہاتما بدھ نے اپنے عام پیروکاروں اور گرہستوں کو یہ نصیحت کی تھی کہ جہاں تک ممکن ہو اپنی عورتوں کو اپنا دوست سمجھو اور ان پر یقین رکھو۔ عام بھگتوں (متقیوں ) کو یہ نصیحت کی کہ ماں باپ کی خدمت، بیوی اور بچوں کی صحبت اور پرسکون محنت ہی سب سے بڑی دعا ہے۔

مختصر یہ کہ ہر مذہب ہر فکر کے لوگ اپنے انداز سے ہی زندگی گزارنے کے طریقے سامنے لاتے ہیں لیکن نفسیاتی پہلو کو جانے بغیر زندگی گزارنا ایک مشکل عمل ہے لہذا اگر کسی بھی جگہ پر عورتوں یا مردوں کے بنیادی حقوق سلب ہو رہے ہوں تو ان کے لیے آواز اٹھانا ضروری ہے اگر یہ سب جانے انجانے میں ہو رہا ہو تو حقوق سلب کرنے کی روایت کا دم نکالا جا سکے۔ جس کے لیے کرہ ارض پر عورت کو اپنی ذمے داری ادا کرنی ہو گی اور مرد کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہو گی۔ بھر ہی معاشرہ ایک اچھا اور پر سکون معاشرہ بن سکے گا جس کے لیے عورت کا کردار ایک مثال قائم کر سکتا ہے۔

سید اظہار باقر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید اظہار باقر

سید اظہار باقر ترمذی نے انگیزی ادب کی تعلیم پائی ہے۔ سماجی مسائل پر بلاگ لکھتے ہیں ۔ ان سے سماجی رابطے کی ویپ سائٹ ٹوٹر پر @Izhaar_Tirmizi نیز https://www.facebook.com/stirmize پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

syed-izhar-baqir has 11 posts and counting.See all posts by syed-izhar-baqir

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments