لبرل ازم، سستی شہرت کا ذریعہ؟


اس تحریر کا مقصد کسی کی دل آزاری یا کسی کے نظریات کو چھیڑنا یا زک پہنچانا نہیں ہے۔ ایسے تمام دوست جو حقیقی معنوں میں اعتدال پسندی اور روشن خیالی پر نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ اس کا عملی پیکر ہیں ان کی میں دل کی گہرائیوں سے قدر کرتا ہوں۔ بچپن میں کہانیوں اور بڑے ہو کر ایک چیز کا مشاہدہ کیا اور یہ چیز اکثر ڈراموں میں دیکھنے کو ملی کہ چائلڈ لیبر اور بچیوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی خواتین /مردوں کے ہاں کام کرنے والے /والیاں چھوٹے بچے یا بچیاں ابتر صورتحال میں ہوتی ہیں۔ وہ سوشل خواتین /مرد جو سیمینار اور این جی اوز میٹنگ میں تو چائلڈ لیبر یا بچیوں کے حقوق کے لئے مرے جا رہے ہوتے خود وہ اپنے گھر میں ان کے حق پر غاصب بن کر بیٹھے ہوتے اور تذلیل کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال آج کل کے لبرلز یا لبرل ازم کی طرف گامزن افراد کی ہوتی ہے۔

کارل مارکس، لینن کی تعلیمات کا حوالہ دینے والے یہ افراد یہ بھول جاتے ہیں کارل مارکس اور لینن کی ساری زندگی میں کوئی ایسا لمحہ نہیں آیا کہ جس میں انہوں نے خود کو علم و حکمت کا خزانہ سمجھ کر کسی اور تذلیل کی ہو، یا پھر کسی اور عقائد کو سطحی قرار دے کر ٹھٹھہ اڑایا ہو، یا کسی اور کو کم علم یا جاہل قرار دیا ہو۔ لیکن میرے آج کل کے لبرل دوست خود اور اپنی ہی صف کے دیگر افراد کے علاوہ باقی سب کو مطالعہ پاکستان، ملا ازم اور جاہلیت کی پیداوار قرار دیتے ہیں۔

میرے نزدیک تو جیو اور جینے دو کی تھیوری کو اگر ایک لفظ میں بیان کرنا ہوتو وہ ہے ”لبرل ازم“ مگر یہ تھیوری آج کل تیزی سے ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ یہاں بڑے بڑے نثر نگار (خودساختہ) خود کو عقل کل سمجھ کر کسی اور کے نظریات کو جاہلیت، کسی اور کے الفاظ /خیالات کو بدبودار، کسی اور کو شخصیت کو نیچ ثابت کرنے کے فتوے دیتے ہیں، اور اس عمل پر واہ واہ کی داد سمیٹ کر لبرل کہلاتے ہیں۔ اسی طرح سے آزادی اظہار، آزادی نظریات اور رہن سہن مانگنے والے افراد کی عملی زندگی کو دیکھا جائے تو انہیں دوسرے کی خفیہ معلومات، اس کی شخصیت اور رہن سہن پر جو منہ میں آئے بولنے کا حق ہوتا ہے۔ مگر جب اگلا اسی (انہی کے طے کردہ آزادی اظہار رائے کے اصولوں ) آزادی کو استعمال کرتے ہوئے ان کے حوالے سے کوئی بات کرے تو یہ اس عمل کو شخصی آزادی پر حملہ کے طور پر لے کر پھر ہراسمنٹ یا عورت کارڈ کا استعمال کرتے ہیں۔

کیا کسی کے نظریے پر حملہ کر کے اس کو گھٹیا ثابت کرنا لبرل ازم ہے؟ کیا کسی کو صرف اس وجہ شدت پسند یا جاہل قرار دینا کہ وہ آپ کے نظریات، آپ کے قول و فعل سے اختلاف رکھتا ہے لبرل ازم ہے؟ کیا کسی کے آزادی اظہار پر جتھے بنا کر حملہ کرنے اور فتوی جات دینا لبرل ازم ہے؟

میرے ایک دوست ہیں یونیورسٹی کے زمانے سے لبرل ازم کی سیڑھیاں چڑھنا شروع ہوئے، ان سے جب بھی ملاقات ہوئی تو وہ کہتے تھے یار کسی بات کو سنجیدہ نہ لیا کرو اپنا تو کام ہے تعلقات بنانا اور یہ لوگ ان کے بقول ”لبرل“ بڑے بڑے عہدوں پر موجود ہیں تو کوئی بھی کام ہو آسانی سے ہوجاتا، شہرت الگ مل جاتی ہے۔ ویسے یہ ہے بھی حقیقت کیونکہ میڈیا میں ہوتے ہوئے میرا حلقہ احباب اور اثر و رسوخ اتنا نہیں رہا جتنا اس دوست کا کراچی سے خیبر تک حلقہ احباب اور اثر و رسوخ موجود ہے۔ اسی طرح کے کئی اور دوست ہیں جنہوں نے لبرل ازم کا لیبل صرف اس وجہ اپنے اوپر لگایا چونکہ وہ جلدی شہرت اور کامیابی چاہتے تھے۔

افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ قول کے لبرل اور فعل کے تنگ نظر ایسے افراد ہر طبقہ ہائے زندگی میں آسانی سے کامیابی کی منازل طے کرتے جاتے ہیں اسی طرح سے جس طرح میڈیا میں ایک مخصوص (طبقہ فکر/دینی نظریہ، مسلک) کے افراد نہ صرف ترقی کر جاتے ہیں بلکہ اجارہ داری رکھتے ہیں۔ بنی نوع انسان اپنی تخلیق سے اب تک دو نظریات میں ہی بٹے ہوئے آئے ہیں اور ہر انسان کو اپنے عقائد، نظریات اور تعلیمات پر عمل کرنے، پرچار کرنے کی مکمل آزادی ہی تو دی گئی ہے۔

جیسے کسی کو برقعہ نہ پہننے اور داڑھی منڈوانے پر کوڑے مارنے والا اپنے آپ کو ملا یا دین کا خدمت گار کہلانے کا حقدار نہیں ہے تو کسی کو برقعہ پہننے اور داڑھی رکھنے پر ملایا ذہنی پسماندہ قرار دینے والا بھی لبرل یا آزاد خیال قرار دیے جانے کا حقدار نہیں ہے۔ لبرل ازم تو دراصل مذہبی اور انتہائی آزاد خیالی کے درمیان وہ باریک سی لکیر ہے جس پر چلنے والوں کو آج لوگ کارل مارکس اور لینن کے نام سے جانتے ہیں۔ باقی سب منافقت کے زمرے میں ہی آتا ہے چاہے وہ متضاد قول و فعل والا ملا ہوں یا پھر آزاد خیالی کا پرچار کرنے والا فتوی ساز، ویسے بھی آج کل ایسے فتوی ساز نجی محفلوں میں لبرل ازم کو سستی شہرت کے حصول کا سستا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments