امریکہ، طالبان اور پاکستان


دنیا کی توجہ کا مرکز اس وقت افغانستان ہے۔ کیونکہ دنیا اب طالبان کی طرف دیکھ رہی ہے کہ وہ خود کو کیسے ماضی کے طالبان سے مختلف انداز میں پیش کر کے افغانستان کے بحران کے حل میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ افغانستان نے اگر واقعی ایک بڑے بحران سے خود کو بھی بچانا ہے اور خطہ کی سیاست کو بھی استحکام دینا ہے تو یہ کام کسی سیاسی تنہائی میں نہیں ہو گا۔ کیونکہ افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت بننا اور عملی طور پر حکومتی نظام کو چلانا یا اس نظام کی سیاسی ساکھ کو قائم کرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔

اس لیے اگر افغانستان نے مثبت انداز میں آگے کی سطح پر بڑھنا ہے تو یہ کام کسی بھی صورت میں عالمی تعاون بالخصوص امریکہ یا ان کے اتحادی ممالک کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہو گا۔ یہ دنیا کو طے کرنا ہو گا کہ وہ افغانستان کی تعمیر نو چاہتے ہیں تو یہ عمل ان کی سیاسی، سماجی اور معاشی حکمت عملی سمیت سفارتی یا ڈپلومیسی کی کوششوں کی سطح پر واضح اور شفاف انداز میں نظر آنا چاہیے۔

وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس سے جو خطاب کیا ہے اس میں بھی عالمی دنیا اور فورم کی توجہ افغانستان پر دلائی ہے اور ان کے بقول اس وقت طالبان اور افغانستان عالمی تعاون کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے چار اہم پہلووں پر بات کی ہے۔ اول ان کے بقول امریکہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ افغان بحران کے حل او راس کی تعمیر نو میں طالبان کا ساتھ دیں اور دونوں ممالک امریکہ اور طالبان ایک دوسرے کے لیے مدد گار یا پارٹنر کا کردار ادا کریں۔

دوئم افغانستان میں دہشت گرد گروپس کو غیر موثر کرنے کے لیے واشنگٹن اور اسلام آباد یعنی امریکہ اور پاکستان کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ سوئم دنیا کو تسلیم کرنا ہو گا کہ پاکستان کا افغان بحران کے حل میں جو کردار ہے وہ مثالی ہے اور ہم دنیا کے واحد ملک ہیں جس نے سب سے زیادہ قربانیاں اور عالمی دنیا سے تعاون کیا ہے۔ ہم پر الزام تراشیوں کی مدد سے افغان بحران حل نہیں بلکہ مزید خرابیوں کو پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔

چہارم عالمی دنیا کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اگر انہوں نے افغانستان کا ساتھ نہ دیا تو اس کے نتیجے میں وہاں مقامی لوگوں میں بھوک اور غربت بڑھے گی جو عالمی دنیا کے لیے ایک بڑا ردعمل پیدا کرے گا۔ اس لیے افغانستان کے بحران کے حل میں عالمی، علاقائی اور افغانستان کے درمیان مستقل بنیادوں پر نئی سوچ و بچار درکار ہے۔

اصل میں اس وقت دو ہی سیاسی آپشن ہیں۔ اول طالبان کو سیاسی طور پر تنہا چھوڑ دیا جائے اور دوئم طالبان کے ساتھ مل کر افغان بحران کو ہی حل کیا جائے۔ یقیناً اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک طالبان کے بارے میں ماضی کے بنیاد پر خدشات رکھتے ہیں بلکہ ان کو لگتا ہے کہ طالبان وہی ماضی کا کھیل دہرا سکتے ہیں۔ اس لیے دنیا طالبان کو تسلیم کرنے سے قبل بڑی سخت شرائط کی بات کرتی ہے او ران شرائط پر ہی طالبان کی کڑی نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔

ایک مسئلہ Inclusive Goverenment کا ہے۔ ابھی تک طالبان نے نہ تو اس سے مکمل انکار کیا ہے اور نہ ہی اس پر کوئی بڑی پیش رفت ہو رہی ہے۔ پاکستان کے بقول ہم اگر طالبان کو تسلیم کریں گے تو یہ فیصلہ سیاسی تنہائی میں نہیں بلکہ علاقائی اور عالمی مشاورت اور مفاد کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ اسی طرح پاکستان نے واضح کیا ہے کہ طالبان حکومت میں ازبک، تاجک اور ہزارہ افراد کی شمولیت کے بغیر مضبوط حکومت کا تصور ممکن نہیں۔

پاکستان اسی تناظر میں افغان طالبان یا حکومت سے مذاکراتی عمل کا حصہ بھی ہے۔ کیونکہ پاکستان کو بھی اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ پاکستان کا داخلی استحکام بھی افغان بحران کے حل سے جڑا ہوا ہے۔ ہمیں اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ خود طالبان کو بھی اپنے داخلی محاذ پر کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس لیے ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ محض بٹن دبا کر ہی سب کام عالمی یا ہماری توقعات کے مطابق کریں گے، درست نہیں۔ یقینی طور پر طالبان کو بھی وقت درکار ہے کہ وہ اپنے داخلی اور خارجی سطح کے مسائل کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے لیے اپنی حکمت عملی کو وضع کریں۔ اس لیے عالمی طاقتوں کو بھی جلد بازی کی بجائے طالبان کو وقت دینا ہو گا کہ وہ اپنی پالیسی میں دنیا کی قبولیت کو یقینی بنائیں۔

جہاں تک پاکستان اور امریکہ تعلقات افغانستان کے تناظر میں ہے تو پہلی بات یہ ہے کہ یہ رشتہ دونوں کے مفاد میں ہے اور کوئی بھی ایک دوسرے کو تنہا کر کے افغانستان کا حل تلاش نہیں کرسکے گا۔ پاکستان اور امریکہ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے او راس بات کا اشارہ بھی دونوں دے چکے ہیں کہ ہم مل کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ اصل مسئلہ شرائط کا ہے او راس میں دونوں ممالک یقینی طور پر اپنے اپنے سیاسی مفاد کو ترجیح دیں گے او راب محض ڈکٹیشن کی بنیاد پر ایک دوسرے کو نہیں چلایا جا سکے گا۔

ایک دوسرے کے معاملات کو سمجھنا اور اس کے مطابق حکمت عملی کو بنانا ہی دونوں ملکوں کے مفاد میں ہو گا۔ وزیر اعظم عمران خان نے افغان بحران کے حل میں گیند امریکہ کی کورٹ میں ڈالی ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ وہ پاکستان کے ساتھ بداعتمادی کے ساتھ چلنا چاہتا ہے یا واقعی دو طرفہ باہمی تعاون کے ساتھ مل کر مسئلہ کا سیاسی اور پرامن حل چاہتا ہے۔ پاکستان کسی بھی صورت میں امریکہ کو باہر نکال کر آگے نہیں بڑھنا چاہتا مگر امریکہ کو بھی پاکستان کے مفاد کو پیش نظر رکھنا ہو گا او ریہ ہی مسئلہ کا حل بھی ہے۔

ایک مسئلہ بھارت کا بھی ہے۔ افغان بحران کے حل میں ایک کلیدی کردار بھارت کا بھی بنتا ہے۔ لیکن مسئلہ محض پاک بھارت تعلقات کا ہی نہیں بلکہ افغان معاملات میں بڑھتی ہوئی بھارتی مداخلت کا بھی ہے۔ افغانستان میں جو کچھ طالبان کی سیاسی برتری کی صورت میں سامنے آیا ہے وہ یقینی طور پر اس خطہ کی سیاست میں بھارت کی بڑی سیاسی، سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر ناکامی بھی ہے جس کا ردعمل بھی بھارتی سطح پر دیکھنے کو مل رہا ہے۔

بھارت عملی طور پر امریکہ کی پشت پناہی کی بنیاد پر پاکستان دشمنی یا الزامات کی سیاست کو بنیاد بنا کر افغان بحران کے حل میں رکاوٹیں یا بگاڑ پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے بھارت، پاکستان اور طالبان کیا کچھ کرتے ہیں اس کا بڑا انحصار خود امریکہ کے طرز عمل سے بھی جڑا ہوا ہے کہ وہ بھارت کو کسی بھی سطح پر بطور پراکسی وار کے طور پر استعمال نہ کرے اور نہ پاکستان دشمنی کے ایجنڈے میں وہ بھارت کے ساتھ کھڑا ہو۔ کیونکہ اگر ہم افغان بحران کے حل کے تناظر میں چند بڑی مشکلات یا رکاوٹوں کا جائزہ لیں تو اس میں بھارت سرفہرست نظر آتا ہے اور بھارت کی اس ڈھٹائی کی بڑی وجہ بھی خود امریکہ ہے۔ اس لیے امریکہ کو بھی یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ اس تاثر کی نفی کرے کہ وہ پاکستان یا افغان حل کے مخالف ایجنڈا پر عملاً بھارت کے ساتھ کھڑا ہے۔

اسی طرح امریکہ چین تعلقات میں خطہ کی سیاست میں ایک بڑا تناؤ کا پیدا ہونا یا اس کی حمایت یا مخالفت میں مختلف بلاکس کی تقسیم میں منفی سطح کے ایجنڈے کو فروغ دینا بھی کسی کے مفاد میں نہیں۔ علاقائی سطح کے بلاکس ایک دوسرے کی مخالفت یا دشمنی بجائے دو طرفہ تعاون جن میں سیاسی اور معاشی امور سرفہرست ہیں کو توجہ دینی چاہیے۔ ماضی کے تنازعات، ٹکراؤ یا بداعتمادی کے ماحول سے نکل کر مستقبل اور معاشی سطح پر استحکام کو پیدا کرنے پر دینی چاہیے۔

اس لیے امریکہ، طالبان اور پاکستان کے درمیان اشتراک کار اور مستقبل کی باہمی پیش قدمی ہی بحران کے حل کی کنجی بن سکتا ہے۔ جو بھی امریکہ، طالبان اور پاکستان کے درمیان شرائط کے معاملات ہیں اس میں ایک دوسرے کے لیے لچک کا مظاہرہ پیدا کرنا اور ایک دوسرے کی قبولیت کو یقینی بنا کر ہی پرامن افغانستان کی طرف پیش قدمی ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments