ناچتی ایڑیوں کی مقدس دُھول!


میں ناچتے لوگوں کے پاؤں سے اڑتی اس مقدس دھول کو دیکھتا تھاجس سے وہ بے خبر تھے ۔

ایک سو بیس ارب سے زائد کہکشاؤں پر مشتمل اس وسیع و عریض کائنات میں ایک ناقابل ذکر سیارہ زمین۔

اور اس پر موجود نقطے برابرایک گاؤں

جس میں گمنام انسانوں کے ایک گروہ میں چند لوگ ناچتے تھے اور ان کے پاؤں کے نیچے سے دھول اڑتی تھی۔

مقدس دھول۔

مجھے نہ ایک سو بیس ارب سے زائد کہکشاؤں سے غرض تھی نہ کرئہ ارض سے کوئی دلچسپی تھی اور نہ ہی شاید گاؤں میں موجود کسی سے۔

ڈھول کی بتدریج بڑھتی لے اور اس بڑھتی لے کے ساتھ ناچنے والوں کی بڑھتی سانس کی رفتار۔

بجلی کے قمقمے ابھی گاؤں نہیں پہنچے تھے۔مدھم روشنی کا ماخذ وہ لالٹینیں تھیں جن کے اندر دیے جلتے تھے

چند بھڑکتے تھے

چند کمزور پڑتے تھے

اور یہ ساری لالٹینیں گاﺅں کی دادیو ں اور نانیوں کے پاس تھیں جو دائرے کی شکل میں ریت پر بیٹھی تھیں۔

انکی گودوں میں ہمکتی تیسری نسل ، جس کی ناک بہتی تھی، اپنی اپنی گلیوں سے واقف ہو رہی تھی ۔

ابھی اپنی گلی کے نکڑ سے واپس آجاتی تھی کہ آگے واہمے تھے، اندیشے تھے ، وسعت اور اجنبیت تھی۔

تھوڑی دیر پہلے یہی دادیاں نانیاں ڈھولک کی ہلکی اور برسوں سے مروجہ ایک ہی تھاپ پر ماہیے ٹپے اور کلیاں گا رہیں تھیں ۔

اور اب دائرے کی شکل میں بیٹھی ان انسانوں کا رقص دیکھتی تھیں جن کو انہوں نے جنم دیا تھا۔

خون کی گردش نرم پڑ گئی ‘ بوڑھے چہروں پر جوانی بغیر کوئی نشانی چھوڑے رخصت ہو گئی

لیکن ان کی پیلاہٹ بھری آنکھوں میں جھانکنے سے آج بھی ساٹھ سال پہلے کے تاحد نظر پھیلے سرسوں کے کھیت نظر آتے تھے۔

کسی برس یہ پیلے پھول ان کے لیے کھلے تھے

ان دادیوں کے لیے یہ پھول ایک ہی دفعہ کھلے تھے

یہ حقیقت کھلتے سمے پھول جانتے تھے ۔۔ یہ نہ جانتی تھیں۔

ان دادیوں ، نانیوں کے محبوب ، آج بھی ان کی آنکھوں میں سر تا پیر سفید لباس میں ملبوس اونٹ کی مہار پکڑے،

یا فوج کی وردی پہنے گاﺅں چھٹی آتے دکھائی دیتے تھے۔

اس وقت گلی سے آتے محبوب کوسامنے سے دیکھنے کا حوصلہ کسے تھا۔ غلطی سے نظر پڑ بھی جاتی تو دھڑکتا دل پسلیاں توڑتا تھا۔

یہ کواڑ سے اپنے محبوب کو…. گلی سے جاتے ہوئے …. پیچھے سے دیکھتی تھیں اور ان کے ماہیوں اور دہڑوں میں چوڑے چکلے سینو ں کے بجائے ، کشادہ کمر اور اس کے حوالے سے استعارے جگہ پاتے تھے۔

وہ گلی سے جاتے جوان محبوب آج بھی لالٹینوں کی مدھم روشنیوں میں ان کی آنکھوں میں دکھائی دیتے تھے۔

کوٹھے تے کھیسی آ۔اک سانوں توں ماریا دوجا جگ پردیسی آ

بازار وکاندیاں مرچاں (بازار میں مرچیں بکتیں ہیں)

جیویں توں آکھے انج میں کرساں (تم جیسے کہو گے ویسے کروں گی)

دیگر ویلا اُڈے کبوتر سنگ بنڑ کے (عصر کے وقت کبوتر سنگ بن کر اُڑے)

ماری ماری پھرساں ڈھولے پچھے ملنگ بنڑ کے (محبوب کے پیچھے ملنگ بن کر ماری ماری پھروں گی)

بازار، وکاندا سرمہ (بازار میں سرمہ بکتا ہے)

وے موڈھے مار گلی وچ ٹر ناں (گلی میں زیادہ کندھے ہلا ہلا کر مت چلو)

لگی بازاروں بھا پئی پچھدی دالاں دے ( بازار سے گزرتے ہوئے دالوں کی قیمت پوچھی)

لگن پیارے فیشن ماہی دیاں والاں دے (محبوب کے بالوں کے فیشن پیارے لگتے ہیں)

\"p1030068trek\"ہجوم سے تھوڑا ہٹ کہ چھت کو جاتیں کچی سیڑھیاں تھیں جن پر بیٹھے ایک تہمند ہاتھ میں پکڑے کبڑے بابے کے ماتھے پر‘ توجہ کی چند گہری لکیریں تھیں اور لرزتی سفید پلکوں کے پیچھے مدھم پڑتی آنکھوں کا مرکز یہی دادیاں نانیاں تھیں ۔

معلوم نہیں ان میں وہ کس کو ڈھونڈتا تھا

صحن کے آخر پر بندھے ڈھور ڈنگر، ہر طرف پھیلی محبت کی نیلی روشنی سے آشنا نہیں تھے ۔۔۔

یا شاید آشنا تھے!

ڈھول بجتا تھا…. لوگ ناچتے تھے…. میں نہ ڈھول دیکھتا تھا۔نہ ناچتے لوگ دیکھتا تھا۔نہ دادیاں ، نانیاں اس منظر کا حصہ تھیں جو میں دیکھتا تھا۔

میں کیا دیکھتا تھا؟

میں لالٹینوں کی کمزور روشنی میں تھرکتے ، لڈی ڈالتے ان پر اسرار سایوں کی ایڑیوں سے اڑتی دھول دیکھتا تھا۔

جسے میں مقدس گردانتا تھا ۔

وہ لڈی ڈالتے ہوئے زور سے زمیں پر ایڑی مارتے تھے ، اپنی ایڑیوں پر ارتکاز کرتے تھے ، فقیر ہوتے تھے۔

انسانوں کو منقسم کرنے والے سارے نظریات انکی ایڑیوں کے نیچے سے اٹھنے والی دھول میں دکھتے تھے ، فنا ہوتے تھے۔

یا اگر نظر اگر کہیں زیادہ ہی بھٹکتی تھی تو ایک دادی کے نچلے ہونٹ پر ٹھہرتی تھی جو موسیقی کی رفتار تیز ہونے کے ساتھ ساتھ فرط جذبات سے پھڑکتا تھا۔

دادی چور نظروں سے کچی سیڑھیوں پر تہمند ہاتھ میں پکڑے کبڑے بابے کو دیکھتی تھی۔

کیوں دیکھتی تھی؟

میری زندگی میں مناظر دکھانے والے میکنزم کا کیمرہ Infinity پر Focusرہتا ہے۔

مکمل طور پر zoom in رہتا ہے۔

جزئیات دکھاتا ہے…. اور…. کُل سے بے خبر رکھتا ہے۔

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments