ہائی پروفائل کیسز میں دفاع کی پریشانی: ’میرے بارے میں تاثر بن گیا ہے کہ میں مجرموں کا ساتھ دیتا ہوں‘


نور مقدم قتل کیس میں اب ایک نئی بحث چھِڑ گئی ہے اور مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی والدہ کے دفاع کے وکیل اسد جمال پر سوشل میڈیا پر تنقید کی جا رہی ہے۔

اس وقت سوال یہ ہے کہ ایسے ہائی پروفائل کیسز میں ملزمان کا دفاع کیسے ممکن ہے جہاں عوامی رائے ملزم کے خلاف ہو جاتی ہے۔

اس بارے میں بعض وکلا کا کہنا ہے کہ کبھی کبھار ایسے معاملات اخلاقی اصولوں کے آڑے آتے ہیں۔ لیکن اس دوران چاہے وہ اپنے طور پر کسی ملزم کی نمائندگی کریں یا نہ کریں ان کو ریاست وکیل ضرور مہیا کرتی ہے۔

لیکن سپریم کورٹ کے وکیل سیّد فرہاد علی شاہ نے بتایا کہ ‘قانون کے مطابق کسی بھی ملزم کی نمائندگی قانوناً ضروری ہے تاکہ کل کو یہ نہ کہا جائے کہ ان کو موقع نہیں دیا گیا یا قانون کسی کے ساتھ امتیازی سلوک برت رہا ہے۔’

فرہاد علی شاہ نے بتایا کہ ان کے پاس اکثر قتل کے مقدمات ہی آتے ہیں۔ اور اس دوران ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ملزمان کو باقی موکلوں کی طرح دیکھیں نہ کہ کوئی خاص رویہ اختیار کریں۔

انھوں نے کہا کہ اکثر قتل کے مقدمات میں عوامی رائے ملزم کے خلاف ہی ہوتی ہے۔ ‘لیکن حقائق کے بغیر کسی بھی مقدمے میں فیصلہ نہیں سنایا جاسکتا۔ اور نہ ہی عوام کے دباؤ پر کچھ کیا جاسکتا ہے۔’

ایڈوکیٹ فرہاد نے پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کے قتل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی کاروائی شروع ہونے سے پہلے ملزم ممتاز قادری نے اقبالِ جرم کرلیا تھا۔ ‘لیکن اس کے باوجود اس کے خلاف عدالتی کارروائی عمل میں لائی گئی جس کے بعد ممتاز قادری کو سزا سنائی گئی۔‘

اسی طرح کراچی سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ ظفر مرزا نے بتایا کہ بطور وکیل ان کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے مؤکل کو سنیں، ان کی نمائندگی کریں۔

‘لیکن ساتھ میں ایک خوف بھی ہوتا ہے کہ کیا ہم اپنے موکل پر یقین کرسکتے ہیں؟ کیا انھوں نے ہمیں سب سچ بتایا ہے؟ جو ثبوت ہمارے سامنے رکھے گئے ہیں کیا وہ صحیح ہیں؟ اور کیا مکمل ثبوت ہیں؟ اس طرح کے سوالات سے آپ پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ کیونکہ یہ سوالات آپ کو اپنا کام موجودہ قانونی دائرہ کار کے تحت کرنے سے نہیں روکتے بلکہ اس کے لیے بہتر تیار کرتے ہیں۔’

ایڈوکیٹ ظفر مرزا نے کہا کہ اسی طرح ہائی پروفائل ’مقدمات کے بارے میں سوشل میڈیا پر بات نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی عوام کو قائل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ کام وکیل عدالت میں کریں تو بہتر رہتا ہے۔’

پشاور سے ایک وکیل عمران محسود نے بتایا کہ ‘ایک ایسا قتل کا مقدمہ میرے پاس آیا تھا جس نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔ 1998 میں نواکلی کے علاقے میں ایک آدمی نے اپنے گھر کے چار لوگوں کا قتل کیا تھا اور اس کے بعد علاقے کے لوگوں اور دیگر افراد کی جانب سے اتنا شور ہوا کہ کہا گیا کہ اسے پھانسی پر لٹکا دو۔ میرے پاس یہ مقدمہ آیا اور میں نے اس کا دفاع کیا۔ وہ آدمی تو اب جیل میں ہے۔ لیکن میرے بارے میں تاثر بن گیا ہے کہ میں مجرموں کا ساتھ دیتا ہوں۔’

انھوں نے کہا کہ ’ایسے مقدمات میں وکیل کو اپنے جذبات عدالت کے باہر چھوڑ کر آنے پڑتے ہیں۔ بے شک آپ کو لگتا ہو کہ کوئی سزا کا مرتکب ہے لیکن جب تک عدالت میں ثابت نہ ہو جائے تب تک کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ اور ہر کسی کو برابر کی عدالتی سماعت دینا ضروری ہے۔’

عمران محسود نے بتایا کہ اکثر ایسا بھی ہوا ہے کہ کسی ہائی پروفائل مقدمے کے شروع ہونے سے پہلے وہ اپنے موکل کو کہہ دیتے ہیں کہ وہ اعترافِ جرم کرلیں۔

‘ایسا کرنے سے عدالتی کارروائی سے پہلے ان کی سزا کم ہونے کا چانس بڑھ جاتا ہے۔ لیکن کئی بار ایسا نہیں ہوتا اور موکل کو سزا سنا دی جاتی ہے۔ ایسے میں یہی سوچتا ہوں کہ میں قانوناً اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتا تھا۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments