کشمیر بیچنا بند کرو، اس قوم پر رحم کرو


مسئلہ کشمیر نے پاکستان کے وقار یا سفارتی پوزیشن میں تو کوئی اضافہ نہیں کیا لیکن اس معاملہ پر دہائیوں پر محیط شدت پسندانہ حکمت عملی اختیار کرکے پاکستان کو افلاس، تنہائی اور سماجی انتشار کے دہانے پر ضرور پہنچا دیاگیا ہے۔ اس کے باوجود ملک کا وزیر اعظم ہو یا آرمی چیف ہر موقع پر ان کے بیانات کی تان اسی ایک بات پر آکر ٹوٹتی ہے کہ کشمیر پاکستان بن کررہے گا۔ کیاکوئی ذی ہوش پاکستان، خطے ، دنیا کے حالات اور ممالک کے درمیان ممکنہ گروہ بندیوں میں یہ قیاس کرسکتا ہے کہ آئندہ ایک سو برس میں بھی مقبوضہ کشمیر پاکستان کا حصہ بن سکتاہے۔

پاکستان ایک ایسے المیہ کا نام ہے جس نے اپنے ملک کا نصف حصہ اور آدھی سے زیادہ آبادی گنوا کر بھی یہ تسلیم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ آخر اس کے مسائل کی بنیاد کیا ہے اور کیا وجہ ہے کہ نہ اس کے اپنے لوگ مطمئن و شاد ہیں اور نہ ہی دنیا اس ملک کے طرزعمل کو مسلمہ عالمی اصولوں کا عکاس سمجھتی ہے۔ اس کا اظہار مختلف طریقوں سے ہوتا رہتا ہے لیکن پاکستانی قائدین ہر موقع پر اپنی بڑائی اور دوسروں کی کم ظرفی کا قصہ سنا کر خود فریبی کے ایک نئے سراب کا شکار ہوتے ہیں۔ گزشتہ روز امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں وزیر اعظم عمران خان کا شائع ہونےو الا مضمون اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ پاکستان کا ہر فیصلہ درست اور راست تھا، غلطی جہاں بھی ہوئی اس میں دوسرے ہی ملوث تھے۔ ان دوسروں میں امریکہ تو سر فہرست ہے ہی، بوقت ضرورت بھارت کا نام بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ پاکستان کو درپیش کسی بھی مسئلہ کا سراغ لگانا ہو تو اس کا سرا بالآخر بھارت ہی میں ملتا ہے۔ اس رویہ کی بنیادی وجہ یہ ہے پاکستانی حکمرانوں نے یہ باور کرلیا ہے کہ اس ملک کے عوام کو جھوٹے سچے خواب دکھا کر کام چلایا جاسکتا ہے ۔

بدنصیبی سے ان خوابوں میں پاکستان کو ترقی یافتہ اور خوشحال معاشرہ بنانے کا کوئی خواب شامل نہیں ہے۔ بلکہ کشمیر کی آزادی، دنیائے اسلام کی قیادت اور جنوبی ایشیا میں بھارت کا مد مقابل بننا سر فہرست مقاصد ہیں۔ یہ دعوے کرتے ہوئے اور پاکستانی عوام کو یقین دلاتے ہوئے کہ ان کا ملک دراصل کسی بڑے کام ہی کے لئے معرض وجود میں آیا تھا یہ نظریہ عام کیا گیا ہے کہ قیام پاکستان کا معجزہ کسی سیاسی جد و جہد یا قیادت کی ایک خاص فہم کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ یہ مشیت ایزدی تھی کہ اس خطے کے لوگوں کو قیادت و امامت کے لئے چن لیا جائے۔ اس طرزعمل کو عام کرکے نہ صرف عوام کی سوچ اور فیصلہ کی صلاحیت کو کم تر اور ناکارہ ثابت کرنے کا کام لیا جاتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی بانیان پاکستان کے عزائم اور مقاصد سے فرار کا راستہ بھی تلاش کیا گیا ہے۔ اس طرح ایک تیر سے دو شکار کرنے کی ضرب المثل کی طرح ایک طرف ملک کو جمہوری مقصد سے دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو دوسری طرف تحمل ، بردباری اور ایک دوسرے کے احترام جیسی صفات کو پس پشت ڈالنے کا اہتمام ہوتا ہے۔

ورنہ کیا وجہ ہے کہ پاکستان ایک ایسے ملک کے طور پر پیش قدمی نہیں کرسکا جہاں تمام عقائد کے لوگ ہنسی خوشی زندگی بسر کرتے اور دیگر ایسے ممالک مثلاً بھارت کے لئے مثال بنتے کہ کیسے مختلف مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اور ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر قومی تعمیر کا کام کرسکتے ہیں۔ یہ طریقہ عام ہوجاتا تو دراصل یہی نظریہ پاکستان کی عملی تصویر بن سکتا تھا۔ یہ رویہ اس بات کا ثبوت بنایا جاسکتا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو کیوں مسلم لیگ کی قیادت میں علیحدہ وطن کی جد و جہد کرنا پڑی۔ اس کی بجائے نظریہ پاکستان کا ایک ان دیکھا ہیولا گھڑ کر اسے تقدیس کے ایک ایسے مقام پر فائز کردیا گیا ہے کہ کوئی اس کا مقصد سمجھنے سمجھانے سے تو قاصر ہے لیکن لوگوں کو اس نظریہ کے نام پر ایک دوسرے کا خون بہانے کی آزادی ضرور حاصل ہوگئی ہے۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ کارنامہ کسی سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ تھا یا واقعات کے سانحاتی تسلسل کا نتیجہ کہ دھیرے دھیرے پاکستانی عوام کی سوچ کو ایک خاص سانچے میں ڈھال لیا گیا ہے۔ اس سوچ کے مطابق غلطی تسلیم کرنے اور تاریخ سے سبق سیکھنے کا طریقہ باطل قرار پایا ہے اور قومی عظمت کا ایک بےبنیاد سبق اسکولوں سے لے کر کالجوں و یونیورسٹیوں کے نصاب میں نسل در نسل بچوں اور نوجوانوں کو ازبر کروایا جارہا ہے۔ یہ سبق کسی منزل کی نشاندہی نہیں کرتا بلکہ قومی تفاخر کا ایک جھوٹا اور بے بنیاد تصور راسخ کرتا ہے، جس میں غلطی کا امکان معدوم اور فتح و کامرانی کا یقین پختہ ہوتا ہے۔ اسی تصور کے تحت کوشش کئے بغیر اعلان کیا جاسکتا کہ ’آپ نے گھبرانا نہیں ہے‘ اور کامیابی آخرکار ہماری ہی ہونے والی ہے۔

اگر یہ قومی شعار موجود نہ ہو تو پوچھا جاسکتا ہے کہ 1971 میں سقوط ڈھاکہ کے بعد کس اصول و معیار کے تحت مغربی حصے میں رہنے والے لوگ تو ’پاکستانی‘ ہوگئے اور مشرقی حصے میں رہنے والے غدار کہلائے جنہوں نے قوم سے بغاوت کرکے علیحدہ ملک کی بنیاد رکھی۔ کیا وجہ ہے کہ مغربی حصے کو علیحدہ شناخت کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اور مشرقی حصے کے لوگوں نے بنگلہ دیش بنا لیا حالانکہ اس حصے میں آبادی کا تناسب بھی زیادہ تھا اور قیام پاکستان کی جد و جہد میں وہاں کے لوگوں اور لیڈروں کا حصہ بھی فزوں تر تھا۔ ملک کی اکثریت ایک فوجی حکمران کی طرف سے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کے اختیار کو تسلیم نہ کرنے پر علیحدہ کردی گئی لیکن کیسی انہونی ہے کہ ’نظریہ پاکستان‘ پر کوئی آنچ نہیں آئی۔ بلکہ اگر 1971سے پہلے اور بعد کے ادوار میں برصغیر میں مسلمانوں کی شناخت کے حوالے سے قومی مزاج کا جائزہ لیا جائے تو وہ زیادہ سخت گیر اور سنگدلانہ ہوگیا ہے۔

ہر ملک میں کوئی بھی فیصلہ کیا جائے تو کچھ عرصہ کے بعد اس کی جانچ کرکے یہ دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس فیصلہ سے کیا مفاد حاصل کیا جاسکا ہے اور کہاں غلطی سرزد ہورہی ہے جسے درست کرنا اہم ہوگا۔ افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا اسی فکری تسلسل کا نتیجہ ہے۔ ایک سپر پاور کے طور پر امریکہ کو اپنی غلطیوں پر شرمندہ ہونے یا اصلاح کے لئے دوسروں کی طرف دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی لیکن 2001 کے ایک جذباتی ہیجان میں کئے گئے اقدامات کو امریکی معاشرہ کی ہر سطح پر تسلسل سے پرکھاجاتا رہا ہے۔ افغانستان اور عراق میں جنگ کے حوالے سے مسلسل آرا سامنے آتی رہیں اور سیاست دانوں کے علاوہ دانشور و دیگر اہل الرائے ان فیصلوں کی حکمت اور قومی مفاد پر ان کے اثرات کا جائزہ بھی لیتے رہے۔

یہ کہنا گمراہ کن ہوگا کہ امریکہ کو کسی نے مجبور کرکے افغانستان اور اس سے پہلے عراق سے فوج واپس بلانے پر آمادہ کیا تھا ۔ یہ فیصلے ایک فکری تسلسل میں کئے گئے تھے جس کے مطابق ملک سے دور دراز علاقے میں کثیر قومی دولت صرف کرکے کی جانے والی فوجی کارروائی سے کوئی بڑا مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا تھا۔ پاکستان میں اس قسم کے فکری تنوع، مباحث یا قومی احتساب کا کوئی تصور موجود نہیں ہے ۔ اس کے برعکس ہمارے وزیر اعظم اب بھی امریکہ کو یہ سبق سکھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ مستقبل میں اسے غلطیوں سے بچنے کے لئے کیا اقدام کرنا چاہئیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ صدر جو بائیڈن کی قیادت میں امریکی حکومت پاکستانی لیڈر سے سبق سیکھنے کی بجائے انہیں ان اقدامات کی فہرست فراہم کرتی ہے جو امریکہ کے ساتھ دوستانہ مراسم قائم رکھنے کے لئے ضروری ہیں۔ عمران خان اس کا اعتراف نہ بھی کریں پھر بھی انہیں معلوم ہے کہ پاکستان سے کیا توقع کی جارہی ہے اور پاکستان کس کس فورم پر کس کس انداز میں ’ مسلمہ اصولوں‘ پر چلنے کی یقین دہانی کروارہاہے۔ اس کے باوجود دھمکانے، ڈرانے یا نتائج سے خوفزدہ کرنے کا سلسلہ بند نہیں ہوتا۔ اس کی واحد وجہ افغان بحران سے جنم لینے والی قومی مایوسی و پریشانی کی شدت اور عوام کو اس دھوکے میں مبتلا رکھنے کی خواہش ہے کہ پاکستان سے کبھی کوئی غلطی سرزد نہیں ہوئی۔

اسی مزاج کا شاخسانہ ہے کہ جنرل اسمبلی سے خطاب میں نہ صرف وزیر اعظم نے کشمیر کے علاوہ افغانستان کے معاملہ پر اپنا گھسا پٹا تھیسس دہرانے کا اہتمام کیا بلکہ جب بھارتی مندوب کے جواب الجواب میں ایک پاکستانی سفارت کار نے سرکاری مؤقف پر استوار بیان اجلاس میں پڑھا تو اسے قومی منظر نامہ پر یوں پیش کیا گیا گویا اقوا م متحدہ میں پاکستان نے کشمیر فتح کرلیا ہے بس اب سری نگر پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کی دیر ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے سوال پر سخت گیر، متروک اور ناقابل عمل حکمت عملی کے بعد اب افغانستان کے سوال پر بھی پاکستان اسی غلطی کا ارتکاب کررہا ہے۔ حالانکہ کشمیر کا فیصلہ کشمیریوں کو کرنا ہے اور افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار افغان عوام کو ہے۔ یہ ایک بحث طلب موضوع ہے کہ طالبان کس حد تک افغان عوام کے نمائیندے ہیں۔ لیکن پاکستان کو ضرور سوچنا چاہئے کہ کشمیر کے بعد اب وہ افغانستان کے سوال پر بھی کیا دنیا سے تصادم کے راستے پر گامزن ہوکر کوئی قومی مفاد حاصل کرسکتا ہے۔

یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ بھارتی استبداد کے خلاف کشمیری عوام کی جد و جہد جائز اور اصولوں پر استوار ہے۔ ہر سطح پر اس کی حمایت کرنا بنیادی جمہوری و انسانی اصولوں کے مطابق اہم ہے۔ تاہم پاکستان کشمیری یا افغان عوام اسی وقت مدد کرسکتا ہے اگر وہ پہلے اپنے عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے قابل ہوسکے۔ آزادی رائے کا احترام کیا جائے۔ قومی معاملات پر کھلے دل سے مباحث کا اہتمام ہو اور ماضی میں کی گئی غلطیوں پر اصرار کی بجائے ان سے سیکھنے کی کوشش کی جائے۔ المختصر یہ کہ سیاسی مفاد کے لئے کشمیر فروشی کا سلسلہ ترک کرکے پاکستانی عوام پر رحم کیا جائے تاکہ وہ اپنے مسائل سے نبرد آزما ہوسکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments