ڈرامہ، طرب و الم اور مجرا کلچر


بہت عرصہ پہلے جب ڈرامہ کے باب میں ارسطو کی ”بوطیقا“ پڑھی تو ڈرامے کے دو عناصر ”المیہ اور طربیہ“ اور ان کے سماجی اطلاق و عملداری کے متعلق سوچنا شروع کیا۔ دوستو ڈرامہ یونان و روم کے ایوانوں سے ہوتے ہوئے مشرق میں ناٹک و سوانگ کے رنگ رچاتے ہوئے جدیدیت میں داخل ہوتا ہے تو ٹی وی سکرین پر ہمیں مختلف صورتوں میں دکھائی دیتا ہے جن میں ڈرامہ نگار اپنی افتاد طبع کو سماجی مسائل کے تابع رکھتے ہوئے قلم کشائی کرتا ہے اور ہمارے سامنے کوئی کہانی کردار و واقعات کی صورت میں پیش کر دی جاتی ہے۔

لیکن جیسے جیسے سوشل میڈیا سماج میں اپنی جڑیں مضبوط کرتا ہے اور ہاتھ بھر موبائل فون ہر کہہ و مہہ کے پاس موجود ہونا لازمی قرار پاتا ہے تو یہی ڈرامہ اپنی ہیئت تبدیل کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ آج کے اس جدید دور میں جہاں زندگی کے معنی ہی تبدیل ہو گئے اور بعض صورتوں میں کر دیے گئے، پیسہ، بنگلے، جائیداد، کاریں ہی معیار حیات ٹھہرے اور انسان اتنا فارغ البال ہو گیا ہے شاید کہ اسے تفریح کے لیے بھی کچھ انوکھا کرنا ہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ ہمیشہ سے رقص و سرود کی محفلیں عیش و نشاط کا پیمانہ رہی ہیں لیکن وہ ایک تہذیب کے تابع اور اصولوں میں گندھی ہوئی روایت کی پابند رہیں۔ آج جبکہ تفریح کے معانی بھی تبدیل ہو گئے ہیں تو ”ڈرامہ“ بھی ہمیں جدیدیت کی آلائشوں سے آلودہ دکھائی دیتا ہے۔ فیس بک پر ہر دوسری ویڈیو کسی بے وضع ناچ یا مغلظات سے بھرپور کامیڈی کی دکھائی دیتی ہے۔ سٹیج ڈرامہ جو مشرق کی ایک بھرپور روایت کے طور پر اپنی پہچان رکھتا ہے آج وہ صرف مجرے اور ننگے لطیفوں اور جگتوں کی حد تک رہ گیا ہے جسے قطعی طور پر کسی دوسرے شخص کے ساتھ تو کیا اکیلے بیٹھ کر بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔

کیونکہ میرے سامنے تو جب بھی ایسی کوئی ویڈیو آتی ہے تو میرا ذہن سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا یہی معیارات ہوا کرتے ہیں آرٹ کے، لطیفہ کے، فن کے۔ کچھ عرصہ پہلے ایزرا پاونڈ کا مضمون ”سنجیدہ فنکار“ نظروں کے سامنے سے گزرا تو اس میں فنکاروں کے تین اقسام بتائی گئیں یقین جانیے آج کے بیشتر فنکار ان اقسام کے تیسرے درجے میں شمار ہوتے ہیں جن میں نہ ہی کوئی قابلیت، نہ تعلیم، نہ سنسکار، نہ روایات کا لحاظ و پاس نہ کوئی ادب آداب نہ گفتگو کا سلیقہ نہ زبان و بیاں کی شگفتگی۔

اگر یہ سب نہیں ہے تو پھر ہے کیا؟ ٹک ٹاک کے دور میں جب ہر فنکار محض بھونڈی نقالی کر کے دن رات اپنے فالوورز کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے اور خود کو ایک مہان آرٹسٹ محسوس کر کے خواب و خیال کی دنیا میں جی کر تسکین حاصل کر رہا ہے اور اس کے اس چلن کو دیکھتے ہوئے عام انسان اسی طریقہ کار کو فلسفہ حیات سمجھ کر من و عن عمل پیرا ہو رہا ہے تو ایسے میں سنجیدہ فنکار اور اصل فن کی حیثیت کیا باقی رہ جاتی ہے۔ دوستو کمرشلزم میں جہاں ہر شے محض بکنے کے لیے ہوتی ہے انسان نے بھی خود کو انہی خطوط پر فیبریکیٹ کرنا شروع کر دیا ہے۔

شدید حیرت ہوتی ہے کہ ایک ڈانسر یا اداکارہ سٹیج پر چڑھی اپنے جسمانی پیچ و خم نمایاں کر کے اور فحش اشارے ایسے فحش اشارے کر کے داد عیش وصول کر رہی ہے کہ بندہ شرم سے پانی پانی ہو جائے، اور سماج اسے میڈم فلاں کے طور پر موسوم کر کے پارٹیوں میں اعلی صوفوں پر بٹھاتا ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ جب پوچھا جائے تو جواب آتا ہے پبلک کی ڈیمانڈ ہی یہی ہے۔ ارے واہ واہ۔ پبلک کی ذہن سازی کس نے کی ہے؟ پبلک اتنی طاقتور ہے کہ وہ ڈیمانڈ کرتی ہے اور آپ بیچارے مجبور ہو کر ننگے ہو جاتے ہیں۔ کیا کہنے

ادیب۔ فنکار سماج کو سمت عطا کرتے ہیں لیکن صد افسوس آج کا ادیب اور فنکار بھی اشیا کی رنگینیوں میں کھو کر اپنے منصب سے جدا ہو گیا ہے اور سارا ملبہ پبلک پر ڈال کر خود کو معصوم گردان رہا ہے۔ یہ بھی بہت بھونڈی اداکاری ہے۔ اس سب کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ سادہ سی بات ہے جو سماج اپنی روایات و اقدار اور ثقافتی لوازمات سے دستبرداری اختیار کرتا ہے وہ معدومیت کی جانب ہی روانہ ہوتا ہے۔ جس کو دیکھو یوٹیوب پر چینل بنا کر مائیک ہاتھ میں پکڑ کر بے ہودہ لوگوں کا انٹرویو کرنے چل نکلا ہے۔

پچھلے دنوں ایسی ہی ایک سٹیج اداکارہ کا انٹرویو سامنے آیا آفریں ہے ان محترمہ کی بے باکی کو کہ جنہیں دیکھ اور سن کر حیا بھی شرما جائے۔ اتنے ذو معنی سوال انٹرویو کرنے والا بھی نہیں پوچھ رہا تھا جتنی باتیں وہ خود بتا رہی تھیں اور ایک ایک بات فحش سے فحش تر۔ خدا جانے اس معاشرے کو کیا ہو گیا ہے۔ ڈرامہ کہاں کھو گیا ہے۔ ہر عمر کا مرد محض گندے لطیفے اور مجرا دیکھنے کے لیے ہزاروں روپے لگا کر سٹیج شو میں جا رہا ہے اور یہ اداکارائیں دن رات امیر سے امیر تر ہوتی جا رہی ہیں لیکن اصل طربیہ اداکار ”عمر شریف“ اپنی پوری زندگی فن کو دے کر بھی تہی دست رہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments