ریاستی کابینہ کی تشکیل پر اختلاف، نوجوت سنگھ سدھو کانگریس پنجاب کی صدارت سے مستعفی


بھارتی پنجاب کے سابق وزیر اور سیاست دان نوجوت سنگھ سدھو نے کانگریس کے ریاستی صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔

رپورٹس کے مطابق انھوں نے یہ قدم نئے وزیرِ اعلیٰ چرن جیت سنگھ چنی کی کابینہ کی تشکیل کے سلسلے میں پیدا اختلافات کے سبب اٹھایا ہے۔

ان کے اس اقدام نے سیاسی حلقوں کو چونکا دیا۔ مبصرین کے مطابق ان کا یہ قدم کانگریس رہنما راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے۔ انھوں نے تمام مخالفتوں کے باوجود ان کو ریاستی کانگریس کا صدر مقرر کیا تھا۔

اس کے علاوہ پارٹی میں مخالفت کے باوجود ان کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ کو بر طرف کرکے چرن جیت سنگھ چنی کو وزیرِ اعلیٰ بنایا گیا تھا۔

سدھو نے کانگریس صدر سونیا گاندھی کے نام اپنے مکتوب میں، جسے انھوں نے سوشل میڈیا پر بھی پوسٹ کیا ہے، لکھا ہے کہ آدمی کے کردار کا زوال سمجھوتوں سے ہی شروع ہوتا ہے اور میں پنجاب کے مستقبل اور پنجاب کی فلاح و بہبود سے سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس لیے میں کانگریس کی صدارت کے منصب سے استعفیٰ دیتا ہوں۔ میں کانگریس کی خدمت کرتا رہوں گا۔

وزیرِ اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ کی مخالفت کے باوجود انھیں 23 جولائی کو ریاست پنجاب کے کانگریس کا صدر مقرر کیا گیا تھا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں جب کہ چند ماہ بعد ہی ریاست میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، سدھو کا استعفیٰ کانگریس کے لیے زبردست نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔

ذرائع کے مطابق انھوں نے ایسے وقت یہ قدم اٹھایا ہے جب ان کے قریبی سمجھے جانے والے پنجاب کے نئے وزیرِ اعلیٰ چرن جیت سنگھ چنی کابینہ میں رد و بدل کر رہے تھے۔

رپورٹس کے مطابق سدھو کو سپر سی ایم سمجھا جاتا ہے۔ البتہ بعض تقرریوں میں ان سے مشاورت نہیں کی گئی۔ یہاں تک کہ متنازع سمجھی جانے والی تقرریوں میں انھیں نظرانداز کیا گیا۔

رپورٹس کے مطابق ان کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے امریندر سنگھ کو وزیرِ اعلیٰ کے منصب سے ہٹایا گیا تھا اور ان کے قریبی چنی کو وزیرِ اعلیٰ بنایا گیا تھا البتہ وہ خود بھی وزیرِ اعلیٰ بننے کے خواہش مند تھے۔

سابق وزیرِ اعلیٰ امریندر سنگھ نے سدھو کے استعفے کے فوراً بعد طنز کرتے ہوئے کانگریس قیادت سے کہا کہ انہوں نے پہلے ہی یہ بات بتائی تھی۔ یہ شخص ایک جگہ ٹھیرنے والا نہیں ہے اور پنجاب جیسے سرحدی صوبے کے لیے مناسب نہیں ہے۔

پنجاب سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق امریندر سنگھ دہلی آ رہے ہیں۔ وہ مرکزی وزیرِ داخلہ امت شاہ اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے صدر جے پی نڈا سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ میڈیا میں ایسی قیاس آرائیاں ہیں کہ وہ بی جے پی کا حصہ بن سکتے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق ان کے میڈیا مشیر روین ٹھکرال کا کہنا ہے کہ امریندر سنگھ ذاتی کام سے دہلی جا رہے ہیں۔ وہ کئی لوگوں سے ملیں گے۔ ان کے دورے سے زیادہ مطلب نہیں نکالا جانا چاہیے۔

سدھو کے استعفے کے بعد میڈیا میں ان کے اگلے قدم کے سلسلے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔

اس بارے میں کئی سوالات ہیں جن کا جواب ملنا باقی ہے۔ پہلا سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ کیا وہ عام آدمی پارٹی کا حصہ بن سکتے ہیں۔

خیال رہے کہ عام آدمی پارٹی نے پنجاب میں اپنے وزیرِ اعلیٰ کے نام کا اعلان ابھی نہیں کیا ہے۔ عام آدمی پارٹی ریاست میں اصل اپوزیشن جماعت ہے۔

ذرائع ابلاغ میں ہونے والی قیاس آرائیوں کے مطابق سدھو کے استعفے کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں۔

میڈیا کے مطابق ان کے استعفے کی پہلی وجہ سکھجندر سنگھ رندھاوا کی نائب وزیر اعلیٰ کے عہدے پر تقرری اور انھیں محکمہ داخلہ دینا ہو سکتی ہے۔ رندھاوا اور سدھو میں اختلافات ہیں۔

سدھو کا خیال ہے کہ رندھاوا کو نائب وزیر اعلیٰ بنانے سے 2022 میں اسمبلی انتخابات میں ان کے وزیر اعلیٰ کے امیدوار بننے کے امکانات متاثر ہو سکتے ہیں۔

انھوں نے اے پی ایس دیول کو پنجاب کا ایڈووکیٹ جنرل بنانے کی بھی مخالفت کی تھی۔

اس کے علاوہ رانا گوجر سنگھ کو کابینہ میں لینے اور ریاستی کانگریس کے کارگزار صدر کے عہدے سے کلجیت سنگھ ناگرا کو ہٹانے کی مخالفت کی تھی۔ ناگرا ان کے قریب مانے جاتے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق بعض ایسے لوگوں کو کابینہ میں لیے جانے پر بھی وہ ناراض ہیں جن پر بدعنوانی کے الزامات ہیں۔

ان کے قریبی ذرائع کے مطابق سدھو کا کہنا ہے کہ ایسے لوگوں کو کابینہ میں شامل کیے جانے کی صورت میں انتخابات میں عوام کا سامنا کیسے کیا جا سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments