میرے دل میرے مسافر (1)


دو سال اور ایک ماہ کینیڈا گزارنے کے بعد ، پاکستان کا چکر ایک خواب جیسا تھا کہ ابھی دیکھا اور اب جاگ گئے۔ کہنے کو تو دو مہینے تھے، مگر کب، کہاں اور کیسے گزرے پتا ہی نا چلا۔ ابھی تو پاکستان پہنچنے کی خوشی بھی پوری نا ہوئی تھی کہ جانے کا وقت آن ٹھہرا تھا۔ کتنے ہی دوستوں سے مل نا پائے، کتنی ہی ملاقاتیں تشنہ رہ گئیں، کچھ قصے بیان ہوئے کچھ ادھورے چھوڑ آئے۔

بے شمار مصروفیت اور ملاقاتوں کے باوجود فون میں کتنے ہی پیغام ایسے تھے جن کا جواب بھی نا دے پایا اور واپس چلا آیا۔ اس امید پر کہ پھر واپس آؤں گا، اپنے وطن، اپنی ماں، اپنے عزیزوں اور دوستوں کے پاس جو وجہ بے وجہ آپ سے پیار اور آپ کا انتظار کرتے ہیں۔

پاکستان جانے کا فیصلہ ہم نے ہمیشہ کی طرح، عقل اور بینک بیلنس کے تمام تقاضوں کے خلاف کیا۔ ویسے تو پچھلے سال سے جانا چاہ رہے تھے مگر یہاں سے دو ماہ کی غیر حاضری کے دوران آمدن صفر ہو جاتی۔ جبکہ کینیڈا کے خرچے جیسے گھر کا کرایہ، گیس بجلی کے بل، گھر اور گاڑی کی انشورنس وغیرہ وہیں کھڑے تھے اور پاکستان کی ٹکٹیں، کچھ لینا دینا لے جانا، پھر وہاں دو ماہ قیام کے دوران پیسوں کی ضرورت الگ۔ جب جمع تفریق کرتے تو ساری ہوا نکل جاتی۔ یہاں کچھ دوستوں کا بھی خیال تھا کہ اتنی جلدی واپس جانا اور وہ بھی دو ماہ کے لئے کچھ سمجھداری نہیں۔

مگر چند دن سے جب بھی امی سے بات ہوتی تو ان کی آواز اور آنکھوں میں اداسی کا راج ہوتا۔ ماں آخر ماں ہوتی ہے، بیٹی کو وداع کرے یا بیٹے کو پردیس روانہ، اپنے دل کے ٹکڑوں کو خود سے دور بھیجنے کا حوصلہ تو کر لیتی ہے مگر اسی لمحے سے بے قراری اور انتظار ماں کی ذات کا حصہ بن جاتا ہے۔ ہمارا بھی، دل بہت کرتا کہ کسی طرح جا کر مل آئیں مگر کریں تو کیا۔ ایک دن یونہی فون پر ٹکٹوں کی قیمتیں دیکھ کر دل جلا رہے تھے کہ جانے اور واپس آنے کی کوئی ایسی دو تاریخیں مل گئیں کہ دو لوگوں کی قیمت میں چار لوگ ہو کر آجائیں۔

ہم نے اس انہونی کو خدا کا انعام سمجھا اور فوراً اماراتی ایئرلائن کی ٹکٹیں خرید ڈالیں۔ اب پہلی بار وطن واپس جا رہے تھے اور وہ بھی کرونا کے زمانے میں۔ تو پہلا مسئلہ تو یہ بنا کہ ہماری پرواز 19 جولائی کی تھی مگر ہماری کرونا ویکسین کی دوسری ڈوز کی باری 27 جولائی کی آئی۔ ڈر یہ تھا کہ مکمل ویکسین کے بنا اگر چلے گئے تو واپسی پر کوئی نئی مشکل کا سامنا نا ہو۔ اب بیگم کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ انٹرنیٹ پر دیکھتی رہے اور جیسے ہی کسی ویکسین سینٹر پر جگہ خالی ملے وہ بک کروا لی جائے۔

آخر کار گھر سے چالیس کلومیٹر دور ایک سینٹر میں جگہ بنی اور ہم اپنی ویکسین مکمل کروا آئے۔ اگلا مرحلہ پاکستان جانے کے واسطے شاپنگ کا تھا۔ ہمارا خیال تھا کہ خریداری بس کچھ تحفے تحائف تک محدود ہو گی مگر بیگم نے اعلان کر دیا کہ نا صرف بچوں کے تمام کپڑے، نئے نکور لینا ہوں گے بلکہ اپنی خریداری کی ایک لمبی فہرست سامنے رکھ دی کہ جانے سے پہلے ان تمام لوازمات کو پورا کرنا ضروری ہے کہ یہاں تو اچھا برا کوئی دیکھتا نہیں، کم از کم پاکستان میں ذرا ولایتی مہمان لگ سکیں۔ اور ان سب لوازمات کا وزن ہماری جیب پر قریب قریب اتنا ہی پڑا جتنا ٹکٹوں کا خرچا تھا۔

اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم دوگنا کام کرتے اور اپنے مالی معاملات کو سنوارنے کو کوشش میں لگ جاتے، الٹا اثر یہ پڑا کہ کام تو کیا یک دم کینیڈا ہی سے دل اچاٹ سا ہو گیا۔ پہلے تو اپنی مینیجر کو جا کر خوش خبری سنائی، تو اس نے بڑا پر تفکر سا انداز اختیار کیے پوچھا کہ کتنے دن کی چھٹی؟ اسے بتایا کہ قیام ذرا سا لمبا ہے، بس سمجھو دو دن میں دو مہینے گزار کے سیدھا واپس۔ تو بولی کہ تین ہفتے سے زیادہ چھٹی مل ہی نہیں سکتی۔

اسے فون پر اپنی ٹکٹ دکھائی اور بولے کہ بی بی یہ میری ٹکٹ ہے، پیسے میں خرچ کر چکا اب یا چھٹی دے دو یا نکال دو، مرضی تمہاری ہے۔ خیر اس نے جب دیکھا کہ ہم اب مرنے مارنے پر اتر آئے ہیں تو مینجمنٹ سے بات کر کسی طرح چھٹی کی درخواست منظور کروا ڈالی۔ اب یہ تسلی ہو چکی تھی کہ نوکری موجود ہے اور واپسی پر دوبارہ کام نہیں تلاش کرنا پڑے گا۔ اگلے چند دن پاکستان آنے کی خوشی اور شاپنگ میں گزرے اور آخر کار عید الاضحی کی صبح قریب 4 بجے ہم پاکستان لینڈ کر چکے تھے۔

ہم میاں بیوی کی خوشی تو اپنی جگہ مگر دونوں بچوں کے چہروں پر پاکستان جانے اور اپنی دادی سے ملنے کی الگ ہی رونق تھی۔ میرا بیٹا فضا سے لاہور کی روشنیاں دیکھتے ہی چیخنے لگا کہ بابا ہم دنیا کہ سب سے بہترین شہر میں پہنچنے والے ہیں۔ اور بیٹی جو ٹورنٹو اور دبئی دونوں شہروں کے ائرپورٹ کو انتظار کرنے کی کوفت سے برا بھلا کہتی آئی جب لاہور پہنچنے اور خالص پاکستانی دھکم پیل شروع ہوئی تو بولی کہ آپ سب پریشان نا ہو یہ دنیا کا سب سے مشہور شہر ہے اس لیے یہاں بہت رش ہوتا ہے۔ اس دن کسٹمز والے بھی گھر عید منانے کی جلدی میں تھے تو سب کو بولا کہ اپنا سامان پکڑیں اور نکلتے بنیں تا کہ وہ لوگ بھی گھر جا کر عید منا سکیں۔

خیر گھر پہنچتے ہی جب امی نے کچھ کھانے کا پوچھا تو پہلا خیال پاکستانی آموں کا آیا، دو سال سے پاکستانی آم ہم فیس بک وغیرہ پر ہی دیکھتے آئے تھے اور کھانا تو دور ان کی خوشبو کو بھی ترس چکے تھے۔ اس روز جو آم کھانے شروع ہوئے تو واپسی تک لگ بھگ ایک ہزار آموں کا رس ہماری نس نس میں بس چکا ہو گا۔ خیر معاملہ آموں تک رہتا تو کچھ بچت ہو جاتی مگر اس دن سے جو دعوتوں اور لاہوری خوراکوں کا سلسلہ شروع ہوا تو آخری رات تلک جاری ہی رہا۔

لاہوریوں کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ پہلے اپنے مہمان کو کھلا کھلا کر مارتے ہیں پھر مار مار کر کھلاتے ہیں۔ مگر اگر ہم لاہور کے ایسے مہمان تھے جو مارنے کی نوبت ہی نا آنے دیتے۔ تو کوئی ساٹھ دن میں پچاس ساٹھ ہی دعوتیں اڑائیں۔ وزن میں صرف کوئی دس بارہ کلو کا اضافہ کیا۔ اور اب حالت کچھ ایسے ہو چکی کہ کینیڈا واپسی پر آدھے سے زیادہ کپڑے ہم سے ناراض ہو کر منہ پھیر چکے ہیں۔ اگر ان سے زبردستی کرتے ہیں تو شرٹ اپنے بٹن نہیں بند ہونے دیتی اور پتلون کی زپ ٹوٹنے کی دھمکیاں دیتی ہے۔ ایسے میں پاکستانی شلوار قمیض کی قدر خوب محسوس ہوتی ہے۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments