اچھے دن آئے! تعلیم اور کورونا


ساری دنیا میں وبائیں آتی رہتی ہیں اور یہ قدرتی آفات نظام زندگی کو درہم برہم کرتی آئی ہیں مگر پاکستان میں کسی بھی وبا کا آنا ایک الگ حیثیت کا حامل ہے۔ نہ صرف حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے آ جاتی ہیں بلکہ عوام اور حکومت بھی کچھ ایسا ہی کرتی ہیں۔ عوام وبا سے نجات چاہتی ہے اور حکومت اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اپنی معیشت کو سہارا دینا چاہتی ہے۔ ایک بہانا مل گیا کہ اس وبا کی وجہ سے ترقی نہ ہو سکی۔ حالیہ وبا کورونا بھی کچھ ایسا ہی منظر نامہ پیش کر رہی ہے۔

حکومت اور عوام کی کیا حالت ہے اس کا تو ہر کسی کو معلوم ہے ہم یہاں کورونا کے تعلیمی فوائد کا تذکرہ کرنا چاہتے ہین کہ اس کورونا کے دوران جو علم کی شمعیں روشن ہوئیں ان کی زندہ مثالیں پیش کر سکیں۔ میں کیا بتاؤں جب مجھ سے ایک کو رونی (کورونا کے دور میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء) طالب علم نے پوچھا کہ سر کورونا تو ابھی ابھی آیا ہے تو یہ پرانی پرانی کتابوں میں کورونالوجی کا علم کیسے آ گیا؟ میں ہونقوں کی طرح اس کا منہ دیکھتے رہ گیا کہ اس دقیق نکتہ دانی پہ اسے انعام و اکرام سے نوازوں یا کورونالوجی کا ماتم کروں۔

کرونا کے دور میں جو جوان ہو گئے
دنیا کو دیکھ کر وہ پریشان ہو گئے

جہاں تک کورونا کے دور میں حصول تعلیم کے عمل کا تعلق ہے تو جناب ہمارے ہاں کا کورونا بھی دانش مند، صاحب اختیار اور حسن انتخاب کا حامل ہے۔ اسے تو جیسے سب معلوم ہے کہ کون سے امتحانات ملتوی کرانے کے لئے مجھے کب اور کہاں شدت اختیار کرنا ہے اور کب اور کہاں مجھے آرام و استراحت کرنا ہے اور کاروبار زندگی کو مردہ دلی کے ساتھ چلانا ہے؟ ہفتے کے کون کون سے دن مجھے زیادہ سخت وار کرنے ہیں اور زیادہ پھیلنا ہے اور کون سے دن مجھے پیچھے ہٹنا ہے؟ اس کی ہوش مندی اور منصوبہ بندی کسی کہنہ مشق جنگ جو کی طرح ہمیں ہر میدان میں شکست دیتی جا رہی ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں یہ حکومتی کاموں کی طرح نظر بھی نہیں آتا اور گہرے وار بھی جاری رکھتا ہے!

کوئی بھی ایسی جگہ جس کا تعلق تعلیم و تعلم سے ہو وہ دینی ہو یا دنیوی وہاں یہ زیادہ ایکٹو ہو جاتا ہے جیسے اس کی علم سے دیرینہ دشمنی ہو! اس نے اپنی طرح ہمارے شعبہ تعلیم کو بھی علم کی فرازیاں بخش دی ہیں۔ جس طرح فراز کے نام سے جو بھی چاہے جیسی بھی لاف گذافی ہو سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیا کرتا تھا ویسے ہی ہمارے طالب علم نو جوان کورونا سے ایسی ذہانت پا چکے ہیں کہ اس کی داد ایک زمانہ دیتا رہے گا۔

آپ کسی کو رونی دور کے طالب علم سے سنجیدگی سے پوچھ بیٹھیں کہ سیاست کی تعریف کریں تو جناب جواب آئے گا کہ سیاست بہت ہی اچھی، خوبصورت اور بہت ہی پیاری ہے۔ اس کی تعریف کو الفاظ نہیں ملتے۔ یہ معاملہ صرف بیچاری سیاست کے ساتھ ہی نہیں بلکہ آپ جس چیز کی بھی تعریف سننا پسند فرمائیں یہ کو رونی طلباء جھٹ سے تعریفوں کے پل باندھ دیں گے۔ آپ اگر ان سے پوچھیں کہ سائیکالوجسٹ کون ہوتا ہے تو آدھے آپ کو بتائیں گے کہ سائیکل چلانے والا اور جو اختلاف فرمائیں گے وہ کہیں گے کہ سائیکل ٹھیک کرنے والے کو سائیکالوجسٹ کہتے ہیں۔

یہ علمی عوج ثریا کورونا سے پہلے بھی بہت سے پاکستانیوں کو حاصل ہو چکا تھا جیسے کہ، جاپان اور جرمنی کی سرحدوں کا ایک ہونا۔ ایک سال کے بارہ موسم بن جانا، انیس نشانوں کی وجہ سے کورونا کو کوویڈ 19 کہنا۔ ستمبر کے اکتیس دن ہو جانا لیکن کورونا نے آ کر اس علم کی معراج کو چھ سات چاند لگا دیے۔

اب اس میں اگر سارا نہیں تو کچھ کمال تو آن لائن تعلیم کا بھی ہے اس نے ایسے ایسے مقیاس ذہانت یعنی آئی کیو رکھنے والے طلباء پیدا کیے ہیں کہ استاد دنگ رہ گئے ہیں۔ ان طلباء نے آن لائن پرچہ حل کر کے بھیجا تو جیسے استاد کا بھیجا ہی جواب دے گیا کہ نمبر کیسے دوں اور کہاں سے کاٹوں؟ ہر طالب علم نے ایسے ایسے ریفرینس دیے کہ جن کے بارے بیچارا استاد تا حال بے علم اور لا علم ہے وہ ابھی تک وہ ریفرینس تلاش کرنے میں لگا ہے۔

اتنے اعلیٰ نمبر لینے کے بعد طلباء اب ان کے عادی ہو گئے ہیں کہ وہ نمبر نہیں کٹوانا چاہتے۔ جو طلباء پہلے کہتے تھے کہ ہم نے آن لائن کلاسز نہیں پڑھنی اب وہ امتحان بھی آں لائن دینے پر بضد ہیں۔ یہ کوئی ایسے ہی نہیں ہوا کرونالوجی کی بدولت ہی ہوا ہے۔ یونیورسٹیز اور خاص طور پر فرنچائزڈ کیمپس والے بہت خوش ہیں کہ نہ ڈاکٹرز بلوانے پڑیں گے نہ لیکچر ہوں گے اور بچت ہی بچت یہ یونیورسٹیاں جو کہ کسی زمانے میں اعلیٰ تعلیم کے ادارے ہوا کرتے تھے اب کمائی کے اعلیٰ ذرائع ہیں۔ ڈاکٹرز اور ایم فل پروفیسرز پڑھانے کی بجائے سرہانے کھڑا کرنے میں مگن رہتے ہیں۔ آن لائن ایجوکیشن سے ان کی ”قدروقیمت، میں کچھ کمی آ گئی ہے۔

موبائل کمپنیاں اور انٹر نیٹ والے تو کورونا کے تہہ دل سے مشکور ہیں کہ اس نے ان کی جیبیں بھر دیں۔ پہلے والدین کہتے نہیں تھکتے تھے کہ موبائل رکھ دو موبائل رکھ دو ۔ اب کہتے نہیں تھکتے کہ موبائل اٹھا لو۔ پہلے کالجز میں موبائل لانے پر جرمانہ ہوتا تھا اب نہ لانے پر ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ کورونا کی ہی بدولت ہوا ہے۔

کورونا وائرس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ پنجاب کے بہت زیادہ ترقیاتی کاموں کی طرح، ایک کروڑ نوکری اور پچاس لاکھ گھروں کی طرح، بلین ٹری سونامی کے مصداق یہ بھی نظر نہیں آتا۔ خاص طور پر پاکستان میں تو ابھی تک کسی نے اسے کاٹتے نہیں دیکھا۔

بہر طور مایوس نہ ہوں پاکستانی قوم بے جا پریشان نہ ہو اور نہ ہی گھبرائے کہ اچھے دن آئے ہیں۔

اچھے دن آئے ہیں کہ روٹی کا حصول بھی محال ہے۔ اچھے دن آئے ہیں کہ ہر چیز تلپٹ ہو چکی ہے۔ پھر بھی اچھے دن آئے ہیں! کہ ہمارے طلباء علم کی اتھاہ گہرائیوں تک پہنچ چکے ہیں۔ ص


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments