حکومت کا عوام کو کیش سبسڈی دینے کا اعلان


کچھ دن پہلے وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے ملک کی معاشی صورتحال کا جائزہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں کرونا

وائرس کی وجہ سے کاروبار متاثر ہوا ہے۔ اور پیداوار میں کمی بھی ہوئی ہے۔ لاجسٹکس کے داموں میں اضافہ ہوا ہے۔ کنٹینروں کمی محسوس ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے اسے ضروری اشیاء کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اپنے پریس کانفرنس میں جو اہم بات انہوں نے کی وہ یہ تھی کہ اب عوام کو سبسڈی پیسوں کی صورت میں دینے والے ہیں۔

آج دنیا واقعی ایک بڑے معاشی بحران سے گزر رہی ہے۔ کرونا وائرس کے پوری دنیا میں پھیلاؤ کی وجہ سے سارے ممالک متاثر ہوئے ہیں۔ خاص طور پر وہ ممالک زیادہ متاثر ہوئے ہیں جن کا دارو مدار صنعتوں پر ہے۔ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے پوری دنیا میں صنعت کاری متاثر ہوئی ہے۔ یہ مسئلہ ابھی تک معمول تک نہیں پہنچا کیوں کہ وبا ابھی تک وبا کا زمانہ اپنے اختتام پر نہیں پہنچا۔ پاکستان کا زیادہ تر دار و مدار ابھی تک زراعت پر ہے۔

جس کی وجہ سے پاکستان صنعتی طور پر ترقی کرنے والے ممالک کی مقابلے میں کم متاثر ہوا ہے۔ اس کے باوجود بھی برآمد اور درآمد کا سلسلے ٹوٹنے اور گھریلو چیزوں کو باہر بھیج کر پیسا کمانا اور باہر سے ضروری چیزیں ملک میں منگوا کر ملکی ضروریات کو پورا کرنے والے عمل میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہاں سے پوری دنیا میں جاتا ہوئے سامان میں کپڑے کی مصنوعات چمڑے کی چیزیں اور کھیلوں کے سامان کے علاوہ چاول، کپاس، آم، کینو، سمندری خوراک اور گلم غالیچے شامل ہیں۔ یہ چیزیں دنیا کو بیچ کر پیسہ کمایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں جو باہر سے چیزیں آتی ہیں ان میں سے اہم چیزیں یہ ہیں۔ آئل، صنعتی مشینری، الیکٹریکل مشینری، لوہا اور اسٹیل، پلاسٹک چمڑا، گاڑیوں کا سامان وغیرہ۔

دو سال تک پوری دنیا کے بند رہنے کی وجہ سے ان برآمد اور درآمد کے کاروبار کا معمول کے حساب سے چلنے میں رکاوٹیں آئی ہیں۔

یہ سب ہونے کے باوجود ایک حکومت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ہر حال میں غریب طبقے کے لوگوں پر معاشی وزن پڑنے نہ دے۔ جو دیہاڑی پر مزدوری کرتے ہیں، جو کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ ریڑھی پر چیزیں بیچتے ہیں یاں کہیں ٹیبل رکھ کر چیزیں بیچ رہے ہیں۔ یاں کھانے پینے کی چیزیں برتنوں میں اٹھا کر بیچ کر گزر سفر کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت آتے ہی ملک کی غریب عوام معاشی بوجھ تلے آ گئی ہے۔ کھانے پینے کی اور روز مرہ کی ضروری اشیاء کے دام آسمان سے باتیں کرنے لگے ہیں۔ جن کو خریدنا غریب لوگوں کے بس کی بات نہیں

کچھ دن پہلے وفاقی حکومت کھانے پینے کی اشیاء جیسے گھی چاول چینی وغیرہ پر رعائت یوٹیلیٹی سٹور کے ذریعے دینے کا اعلان کیا ہے۔ پر اس وقت غریب اور کچھ نا خریدنے والوں کو سیدھی طرح معاشی رلیف کی ضرورت ہے۔ اور یہ سیدھا رلیف یوٹیلیٹی سٹور کے ذریعے ممکن نہیں۔ تازہ ہی ملک کے دارالحکومت اسلام آباد میں یوٹیلیٹی سٹور سے کھلی مارکیٹ کو چینی کی گاڑی بیچتے ہوئے پکڑا گیا ہے۔ جس نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ اس سخت معاشی تنگی میں یوٹیلیٹی سٹورز کے ذریعے عوام کو سبسڈی دینے والا فیصلہ کسی طرح درست نہیں۔

ہم وزیر خزانہ کے اس اعلان سے کافی حد تک متفق ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ ملک کے چار کروڑ لوگوں کو کیش سبسڈی یعنی نقد رقم کی صورت میں معاشی رعائت دی جائے گی۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اعلان بہتر ہے۔ کھانے پینے کی عام اشیاء پر جو سبسڈی یوٹیلیٹی سٹورز کے ذریعے دی جا رہی تھی اس کو بھی کم کر کے کیش سبسڈی کی مد میں بڑھا رقم دی جائے تاکہ عوام روزانہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کا مقابلہ کر سکے۔ اس وقت تک حکومت نے صرف اعلان کیا ہے۔

پر اس کا طریقے کار ابھی واضح ہونا باقی ہے۔ چار کروڑ لوگوں کو ریلیف دینے کا اعلان بھی بڑا اعلان ہے۔ اور یہ کام بڑی ذمہ داری کا کام ہے۔ کیوں کہ اس پر ایسے لوگوں کو منتخب کر کے رکھنا ہے جو واقعی اس رلیف کے مستحق ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت احساس پروگرام کے تجربے سے سبق حاصل کرے گی۔ اس ریلیف میں زیادہ سے زیادہ شفافیت اور اہلیت کو ممکن بنانے کے لئے ہر ضروری اقدامات اٹھائے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments