ہاتھراس کیس: لڑکی کے ریپ اور موت کے بعد اس کا خاندان اپنے ہی گھر میں قید


The victim's family
Abhishek Mathur
وحشیانہ حملے کا شکار بننے والی خاتون کے گھر والوں کو گاؤں میں الگ تھلگ رہنا پڑ رہا ہے
ٹھیک ایک سال پہلے، شمالی انڈیا کی ریاست اتر پردیش میں ایک 19 سالہ خاتون کی موت مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی اور اعلیٰ ذات کے لوگوں کے وحشیانہ حملے کے بعد واقع ہو گئی تھی۔ جب یہ سامنے آیا کہ حکام نے مقتول کے خاندان کی رضامندی کے بغیر رات کے اندھیرے میں اس کی لاش کو زبردستی جلا دیا تھا تو اس کی عالمی طور پر مذمت کی گئی۔

حکومت نے جلد انصاف کو یقینی بنانے کے لیے مناسب تحقیقات اور فاسٹ ٹریک عدالت کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن ایک سال بعد بھی چار افراد کے ریپ اور قتل کے الزام میں پکڑے جانے اور مقدمہ چلنے کے باوجود، یہ کیس اب بھی بھارت کے سست نظامِ انصاف کے جھمیلوں میں پھنسا ہوا ہے اور مقتول لڑکی کے خاندان نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہ اپنے ہی گھر میں قیدیوں کی طرح رہ رہے ہیں اور ان کی زندگیاں رکی ہوئی ہیں۔

میں نے پہلی بار ہاتھرس ضلع کے بُھلگڑہی گاؤں کا دورہ نوجوان لڑکی کی موت کے کچھ ہی دن بعد کیا تھا۔ اس کے ریپ اور موت کی خبر عالمی شہ سرخیوں میں تھی اور رپورٹرز اور کیمرے والے ان کے گھر کے باہر جمع تھے۔ حزبِ اختلاف کے تمام طبقوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدان ان کے گھر آئے اور انصاف کے لیے لڑائی میں خاندان کی حمایت کا وعدہ کیا۔

مقتول لڑکی کی والدہ نے مجھے بتایا تھا کہ انھیں ان کی زخمی لڑکی 14 ستمبر کو باجرے کے کھیت میں سے ملی تھی، وہ شدید زخمی تھی اور برہنہ حالت میں تقریباً بے ہوش پڑی تھی۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی، خون بہہ رہا تھا اور خون کی قے بھی ہو رہی تھی۔ پندرہ دن تک زندگی کی جنگ لڑنے کے بعد بالآخر 29 ستمبر کو ایک ہسپتال میں ہی اس کی موت ہو گئی۔

جب میں نے حال ہی میں ان کے گھر کا دورہ کیا تو میں نے دیکھا کہ یہ خاندان گاؤں میں الگ تھلگ اپنے گھر میں بند ہے۔ ان کے گھر کے باہر مشین گن بردار نیم فوجی سکیورٹی فورس کے ارکان ان کی حفاظت کے لیے مامور ہیں اور تمام آنے جانے والوں پر نظر رکھنے کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے ہیں۔ (انھیں سپریم کورٹ کے حکم پر سکیورٹی فراہم کی گئی ہے کیونکہ خدشہ تھا کہ اونچی ذات کے لوگ انھیں نشانہ بنا سکتے ہیں)۔

ان کے بڑے بھائی کا کہنا ہے کہ ’یہ سال ضائع ہو گیا۔ ہم نیم فوجی دستوں کی وجہ سے محفوظ ہیں۔ لیکن ہم کام پر نہیں جا سکتے۔ ہم معاوضے کی رقم اور حکومتی راشن پر گزارہ کر رہے ہیں۔‘

اس خاندان کو ریاستی حکومت کی طرف سے 25 لاکھ روپے ملے تھے، جو کہ ان قوانین کی مد میں دیے گئے تھے جن کے تحت قتل اور ریپ جیسے گھناؤنے جرائم کے متاثرین کے خاندانوں کو مالی معاوضہ دیا جاتا ہے۔

ان کے چھوٹے بھائی نے مزید کہا کہ ’ہمیں یہ بھی لگتا ہے کہ ہم زیرِ حراست ہیں۔ یہاں تک کہ گھریلو سامان خریدنے یا ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے بھی ہمیں نیم فوجی دستوں کے ساتھ جانا پڑتا ہے۔"

The victim's sister-in-law

Abhishek Mathur
متاثرہ لڑکی کی بھابھی کہتی ہیں کہ گھر کے ہر کونے میں تلخ یادیں موجود ہیں

اس گھناؤنے سانحے سے پہلے یہ خاندان اپنے چھوٹے سے کھیت پر کھیتی باڑی کرتا تھا اور باقی گزارہ ادھر اُدھر چھوٹی موٹی نوکریاں کر کے پورا ہوتا تھا۔ لیکن اب یہ ممکن نہیں ہے۔ ان کے پاس جو سات بھینسیں تھیں ان میں سے چھ بک چکی ہیں کیونکہ وہ اب ان کے لیے چارہ لینے باہر نہیں جا سکتے۔ اور حکام نے بھی ابھی تک انھیں نیا گھر دیا اور نہ ہی خاندان کے کسی فرد کو سرکاری نوکری دلوائی جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔

نوجوان لڑکی اور ان کا خاندان دلت ہے ۔ وہ مرد اور عورتیں جنھیں پہلے ’اچھوت‘ کہا جاتا تھا اور جو انڈیا کی ذات پات کی سخت درجہ بندی میں سب سے نیچے ہیں۔ انھوں نے اونچی ذات کی ٹھاکر برادری کے چار افراد کو اپنے حملہ آوروں کے طور پر نامزد کیا تھا۔ تفتیش کاروں نے ان پر قتل، اجتماعی ریپ اور ایک دلت کے خلاف مظالم کے الزامات عائد کیے ہیں اور مقدمے کی سماعت شروع ہو چکی ہے۔

لیکن ملزمان کے رشتہ دار الزام لگاتے ہیں کہ لڑکی کے ایک ٹھاکر کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے اور جب ان کے خاندان والوں کو پتہ چلا تو انھوں نے ’غیرت کے نام پر ان کا قتل‘ کر دیا، کیونکہ انھیں یہ رشتہ منظور نہیں تھا۔ با اثر ٹھاکر سیاستدانوں نے بھی ملزمان کی حمایت میں بڑی بڑی ریلیاں نکالی تھیں۔

ایک تنگ گلی متاثرہ لڑکی اور ملزمان کے گھروں کو ایک دوسرے سے الگ کرتی ہے، لیکن یہ خلا تو صدیوں سے پر نہیں ہوا۔ اور گھناؤنے جرم کے بعد تو یہ مزید گہرا اور وسیع تر ہو گیا ہے۔

متاثرہ لڑکی کے بڑے بھائی کہتے ہیں کہ ’ان کے آباؤ اجداد ہمارے آباؤ اجداد کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھتے تھے اور ہم اب بھی امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ جب اس (لڑکی) پر حملہ ہوا تو گاؤں سے کوئی بھی ہم سے ہماری بہن کے متعلق پوچھنے نہیں آیا، یا جب وہ ہسپتال میں اپنی زندگی موت کی جنگ لڑ رہی تھی یا مرنے کے بعد بھی۔ لیکن پورا گاؤں عدالت میں ملزمان کی حمایت کے لیے اکٹھا ہو گیا تھا۔‘

The victim's father and the holy basil plant

Abhishek Mathur
خاندان والوں کا کہنا ہے کہ ان کے گھر میں صرف ایک چیز پروان چڑھ رہی ہے اور وہ ہے مقدس تلسی کا پودہ جسے متاثر لڑکی نے لگایا تھا

انھوں نے حال ہی میں اپنا بیان ریکارڈ کرانے اور جرح کے لیے ہاتھرس ڈسٹرکٹ کورٹ کے کئی چکر لگائے ہیں۔ جمعرات کو گواہی دینے کی ان کی والدہ کی باری تھی۔

خاندان والوں کا کہنا ہے کہ عدالت کے چکر تناؤ سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کی وکیل سیما کشواہا نے بھی دھمکیوں اور خوف زدہ کرنے کی شکایت کی ہے، جس کی وکیلِ دفاع منا سنگھ پنڈھیر تردید کرتے ہیں۔

وکیل کشواہا کہتی ہیں کہ جب وہ عدالت آ رہی تھیں تو مردوں سے بھری ایک گاڑی نے ان کی گاڑی کا پیچھا کیا تھا۔ اور عدالت میں، مرد وکلاء نے انھیں بتایا کہ ’دہلی کی کوئی وکیل ہاتھرس میں کسی کیس پر بحث نہیں کر سکتی۔ انھوں نے مجھے گھور کر ڈرانے کی کوشش کی اور مجھے اپنی حدود میں رہنے کو کہا۔‘

انھوں نے کہا کہ مارچ میں ایک دن جب معاملات قابو سے باہر ہو گئے تو عدالت کو دو بار ملتوی کرنا پڑا۔ اکثر دنوں میں ضلع کی سرحد تک پولیس کی گاڑی ان کی گاڑی کے ساتھ جاتی ہے۔ لیکن ہائی کورٹ نے حال ہی میں اس کیس کو ضلع سے باہر منتقل کرنے کی درخواست مسترد کر دی ہے۔

کشواہا کہتی ہیں کہ اب تک 104 میں سے 16 گواہوں کو سنا جا چکا ہے جن میں ڈاکٹر، پولیس حکام، خاندان کے افراد اور مقامی صحافی شامل ہیں، اور توقع ہے کہ کیس کی سماعت اگلے دو سے تین ماہ میں ختم ہو جائے گی۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نے سب سے زیادہ سزا سزائے موت کا مطالبہ کیا ہے۔‘

وہ ریاست کے دارالحکومت لکھنؤ میں زیر سماعت ایک دوسرے کیس میں بھی خاندان کی نمائندگی کر رہی ہیں، جہاں ہائی کورٹ اس بات پر غور کر رہی ہے کہ کیا حکام کے پاس تدفین کے لیے خاندان کی رضامندی تھی اور اگر نہیں تھی تو پھر اس میں ملوث اہلکاروں کی کیا سزا ہو گی۔

کشواہا کہتی ہیں کہ عدالت خاندان کے لیے معاوضہ بھی دیکھ رہی ہے۔ ’خاندان منتقل ہونا چاہتا ہے اور میرے خیال میں انھیں ہونا بھی چاہیے۔ نیم فوجی اہلکار انھیں جسمانی تحفظ تو فراہم کر سکتے ہیں، لیکن ذہنی اور جذباتی تحفظ کا کیا ہو گا؟ حکومت کو چاہیئے کہ وہ ان کے لیے ہاتھرس سے کہیں بہت دور رہائش مہیا کرے تاکہ وہ نئی زندگی شروع کر سکیں۔‘

Balbir Singh (left)

Abhishek Mathur
اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے بلبیر سنگھ کہتے ہیں کہ جو ہو گیا وہ ہو گیا

گاؤں میں ذات پات کی تقسیم کے دونوں طرف خوف اور ناراضی ہے اور ماحول کافی کشیدہ ہے۔ ملزمان کے اہل خانہ ناراض ہیں اور صحافیوں پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ بے جا انھیں گھسیٹ رہے ہیں۔

ایک ملزم کی ایک بزرگ خاتون رشتہ دار مجھ پر چلائیں کہ ’تم یہاں کیوں آئی ہو؟ ہمارے بیٹے بے قصور ہیں۔ وہ اس لیے جیل میں ہیں کیونکہ میڈیا نے ہمیں ولن بنا کے پیش کیا ہے۔‘

گاؤں کے زیادہ تر ٹھاکر خاندان اس کیس پر بولنے کے لیے تیار نہیں، ان کا کہنا ہے کہ معاملہ عدالت میں ہے اور وہ کچھ نہیں جانتے۔ ایک شخص نے کہا کہ ’ہم غربت اور افراط زر سے لڑ رہے ہیں، اور گزارہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

76 سالہ بلبیر سنگھ کہتے ہیں کہ ’لوگ ہر طرح کی باتیں کرتے ہیں، لیکن کون بتا سکتا ہے کہ کیا ہوا تھا؟ یہ صرف وہ (متاثرہ لڑکی) اور خدا جانتا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیئے

ہاتھرس ریپ کیس: ایک جان لیوا حملہ اور تنہائی میں ادا کی گئیں آخری رسومات

ہاتھرس کے بعد بلرام پور میں بھی مبینہ گینگ ریپ، سوشل میڈیا صارفین کی حکومت پر تنقید

لڑکیاں درخت سے لٹکی ہوئی ملی تھیں: انڈیا ریپ کیسز سے نمٹنے میں ناکام کیوں ہو رہا ہے؟

ہاتھرس کیس: ‘غیر معمولی اور ہولناک‘ کیس میں گواہوں کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم

وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ گاؤں میں اب بھی کچھ کشیدگی موجود ہے، لیکن ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’جو ہو گیا وہ ہو گیا۔ انھیں یہاں رہنا ہے اور ہم کو بھی۔‘

تاہم مقتول کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ اب زندہ نہیں ہیں اور ان کی زندگیاں کہیں بیچ میں لٹک رہی ہیں۔

ان کی ماں جب بھی اپنی ’لمبے سیاہ بالوں والی خوبصورت بیٹی‘ کو یاد کرتی ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔

وہ ساڑھی کے پلو سے اپنے آنسو پونچھتی ہوئی کہتی ہیں کہ ’ہم ابھی بھی یقین نہیں کر سکتے کہ یہ کیسے ہوا۔ کیا ایک ماں کبھی اپنے بچے کو بھول سکتی ہے؟ جب میں کھنا کھاتی ہوں تو اسے یاد کرتی ہوں، جب بستر پر جاتی ہوں تو اس کی کمی محسوس کرتی ہوں۔ میں اپنے بدترین خواب میں بھی یہ سوچ نہیں سکتی تھی کہ میں اپنی بیٹی کو کھو دوں گی اور وہ بھی اس طرح سفاکانہ انداز میں۔‘

’لیکن میری بیٹی بہت بہادر تھی۔ وہ کہتی رہی کہ اس کا ریپ ہوا ہے۔ گاؤں والوں کو یہ پسند نہیں ہے، وہ کہتے ہیں کہ اس سے ہمارے گاؤں پر حرف آتا ہے اور ہمیں اسے دبانا چاہیے۔‘

The place where the victim was cremated

Abhishek Mathur
جس جگہ لڑکی کی چتا کو آگ لگائی گئی تھی وہاں اب ہر طرف گھاس ہے

متاثرہ لڑکی کی بھابھی کہتی ہیں کہ گھر میں رہنا اس لیے بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ ’بہت سی یادیں ہر کونے سے باہر جھانک رہی ہیں۔‘

’ہم ہمیشہ ساتھ تھے۔ جب میں حاملہ تھی تو وہ مجھے کھانا پکانے یا کام کرنے نہیں دیتی تھی۔ اپنی موت کے دن بھی اس نے سبزیاں پکانے کے بعد آٹا تیار کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ چارہ جمع کرنے کے بعد واپس آ کر روٹیاں بنائے گی۔‘

وہ روتی ہوئی کہتی ہیں کہ ’لیکن وہ کبھی واپس نہیں آئی۔‘

19 سالہ مقتول لڑکی کے چھوٹے بھائی کا کہنا ہے کہ ’پچھلے ایک سال میں جو واحد چیز پھلی پھولی ہے وہ ہے تلسی کا ایک پودا۔ جب میری بہن نے اسے لگایا تھا تو یہ صرف ایک چھوٹا سے پودا تھا۔ دیکھو اب یہ کتنا بڑا ہو گیا ہے۔‘

ہم ان کے گھر سے تقریباً ایک کلومیٹر دور اس کھیت پر بھی گئے جہاں لڑکی کی لاش کو آگ لگائی گئی تھی۔

پچھلے سال جب میں یہاں آئی تھی یہ راکھ کا ایک ڈھیر تھا۔ اب یہ جگہ گھاس سے ڈھکی ہوئی ہے۔ قریب ہی ٹہنیوں کا ڈھیر پڑا ہے۔ 29 ستمبر کی رات کو جو کچھ بھی ہوا اس کے تمام نشانات مٹ چکے ہیں۔

میں نے مقتول کی استیوں کی راکھ کے متعلق خاندان والوں سے پوچھا۔ ان کے بھائی نے کہا کہ ’جب تک ہمیں انصاف نہیں ملتا ہم ان کو نہیں بکھیریں گے۔‘

لڑکی کی بھابھی نے کہا کہ ’اور یہ تب ہی ہوگا جب چاروں لوگوں کو پھانسی دی جائے گی، تاکہ ان کا خاندان بھی وہی تکلیف برداشت کر جو پچھلے ایک سال سے ہم برداشت کرتے آ رہے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments