اسرائیلی وزیر خارجہ کا بحرین کا تاریخی دورہ، نئے اسرائیلی سفارتخانے کا افتتاح کریں گے


اسرائیلی وزیر خارجہ يائير لاپيد آج خلیجی ریاست بحرین کے تاریخی دورے پر پہنچے ہیں۔ گذشتہ برس اسرائیل اور بحرین کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد سے کسی اسرائیلی کابینہ کے رکن کا یہ پہلا سرکاری دورہ ہے۔

اسرائیلی وزیر خارجہ يائير لاپيد بحرین میں نئے اسرائیلی سفارتخانے کا افتتاح کریں گے اور چند دو طرفہ معاہدوں پر دستخط کریں گے۔ بحرین کے شہر مانامہ سے اسرائیلی دارالحکومت کے لیے پہلی کمرشل پرواز نے بھی ان کے بحرین پہنچنے کے بعد اڑان بھری ہے۔

بحرین، متحدہ عرب امارات، مراکش اور سوڈان نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے گذشتہ برس امریکی معاونت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جسے ’ابراہم اکارڈز‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس وقت تک صرف دو عرب ممالک مصر اور اردن نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا ہوا تھا۔

جمعرات کی صبح اسرائیلی وزیر خارجہ یائیر لاپید نے بحرین پہنچنے پر ٹویٹ کیا کہ ‘ ہم بحرین کی سرزمین پر اتر چکے ہیں، مجھے سلطنت کے اس پہلے تاریخی اور سرکاری دورے پر اسرائیل کی نمائندگی کرنے پر فخر ہے۔ آپ کے پرتپاک استقبال کا بہت شکریہ۔’

توقع کی جا رہی ہے کہ وہ مانامہ میں اسرائیلی سفارت خانے کے افتتاح سے قبل بحرین کے حکام سے ملاقاتیں کریں گے جن میں ہسپتالوں کے قیام، پانی اور توانائی کمپنیوں سمیت متعدد دو طرفہ معاہدوں کی مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط کیے جائیں گے۔

اسرائیلی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہم بحرین کو دو طرفہ تعلقات کی سطح پر نہ صرف ایک اہم شراکت دار کے طور پر دیکھتے ہیں بلکہ یہ خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ تعاون میں بھی ایک پل کا کردار ادا کر سکتا ہے۔‘

اگرچہ اسرائیلی وزیر خارجہ کا بحرین آمد پر پرتپاک اور گرم جوشی سے استقبال کیا گیا مگر فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ابراہم اکارڈز معاہدے کے مخالفین نے ان کی آمد پر مانامہ کی سڑکوں پر ٹائر جلائے جس سے سیاہ دھواں فضا میں بلند ہوا۔

بحرین میں حزب اختلاف کی کالعدم شیعہ تحریک الوفاق کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ حسین الداح کا کہنا تھا کہ ’بحرین میں اسرائیلی وزیر خارجہ کے دورے کو بحرین کے عوام مکمل طور پر رد کرتے ہیں۔‘

گذشتہ برس الوفاق نے اسرائیل کے ساتھ ہونے والے سفارتی معاہدے ابراہم اکارڈ کو ’اسلام اور عرب دنیا سے غداری‘ قرار دیا تھا کیونکہ اس نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر نہ لانے کے عزم کو ٹھیس پہنچائی تھی۔ فلسطینی صدر نے بھی اس معاہدے کو ’پیٹھ میں خنجر گھوپنے‘ کے مترادف قرار دیتے ہوئے مسترد کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

’کیا محمد بن زاید نتن یاہو کے ساتھ تصویر بنوانے سے ڈرتے ہیں؟‘

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کا معاہدہ اور خطے کی سیاست

امارات، اسرائیل معاہدہ خلیجی ریاستوں کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟

کیا امارات، اسرائیل معاہدے میں ایک فلسطینی شہری کا بھی اہم کردار ہے؟

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات

یائیر لاپید نے جون میں نفتالی بینیٹ کی سربراہی میں بننے والی مخلوط حکومت میں وزیر خارجہ بننے کے بعد سے مراکش اور متحدہ عرب امارات کا بھی دورہ کیا ہے۔ تاہم انھوں نے ابھی تک سوڈان کا دورہ نہیں کیا جہاں اسرائیل کو دو طرفہ تعلقات میں پیش رفت لانا ابھی باقی ہے۔

اتوار کے روز سوڈانی وزیر خارجہ مریم الصادق المہدی نے دی نیشنل اخبار کو بتایا کہ ’اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے کے کوئی آثار نہیں ہیں ۔۔۔ اور اس کے ساتھ کسی بھی سطح پر کوئی مذاکرات نہیں ہوئے۔‘

رواں ماہ عرب و خلیجی ریاستوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے معاہدے ابراہم اکارڈز کے ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ انٹونی نلنکن نے وعدہ کیا تھا کہ ’معمول کے تعلقات کو مزید تقویت دی جائے گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ہرامن سفارتکاری کا دائرہ کار بڑھانا چاہتے ہیں کیونکہ یہ خطے بھر کے ممالک اور دنیا کے مفاد میں ہے کہ اسرائیل کو بھی کسی دوسرے ملک کی طرح سمجھا جائے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments