سکون صرف قبر میں ہے


ڈربہ نما گھروں پر مشتمل یہ ہمارے ملک کا ایک بہت بڑا شہر ہے۔ گلی کے نکڑ پر لگا فلٹریشن پلانٹ یہاں کے باسیوں کو صاف پانی مہیا کرنے کے لیے لگایا گیا ہے۔ پلانٹ کے گرد مکڑی کے جالے فلٹریشن پلانٹ کو سیکورٹی مہیا کر رہے ہیں۔ فلٹریشن پلانٹ کے عین سامنے ابلتا گٹر اور ایک کیچڑ زدہ نالی ہے۔ جہاں رہائش پذیر مچھر پڑوس میں قائم ایک ہاسپٹل کے لیے مریض مہیا کرنے میں رات دن مصروف ہیں۔ اس شہر میں کچرے کے انبار اور ملک کے اخبار تعداد میں مساوی ہیں۔ یہاں کچرا اٹھانے اور ہٹانے سے زیادہ تجاوزات ہٹانے کا عمل جاری رہتا ہے۔

شہر کے وسط میں رکشوں کی پھٹ پھٹ۔ کان کے پردے پھاڑتے ٹھیلے والوں کے سپیکرز، اور مسلسل ہارن کی آوازوں سے الجھا دماغ۔ دھواں چھوڑتی گاڑیاں، بغیر سائلنسر کے بائیکس سڑکوں پر نکلتے ہی آپ کا منہ سر ایک کر دیتے ہیں۔ شہروں کے گھٹن بھرے ماحول اور آلودگی سے لبریز آب و ہوا میں سکون کا حصول تو ممکن نہیں ہے۔ شاید ”سکون صرف قبر میں ہے“

گھبرائیے بغیر، آئیے اسی شہر کے کسی دوسرے حصے کی طرف چلتے ہیں۔ یہاں چنگچی رکشے، پرانی کاریں ناپید ہیں۔ موٹر سائیکل بھی خال خال نظر آتے ہیں۔ سڑکیں برف کی طرح صاف ستھری ہیں۔ یہاں ہر طرف بنگلہ نما بڑے بڑے گھر ہیں۔ نئے طرز اور ماڈلز کی گاڑیاں بغیر دھول اڑائے یہاں سڑکوں پر اڑتی نظر آتی ہیں۔ بڑے مالز، چمکتے فروٹ (شاید ان دکانوں پر فروٹ خراب ہی نہیں ہوتے؟ ) ۔ شیشے کے پار مکھیوں سے کوسوں دور گوشت۔ اور ان سب جگہوں پر منظم طریقے سے خریداری کرتے لوگ۔ انہی مالز کے بالکل قریب دو چار بڑے بڑے ہسپتال بھی ہیں۔ معیاری خوراک کی دستیابی کے باوجود یہاں کے ہسپتالوں میں دل، گردے اور پھیپھڑوں کے مریضوں کا بہت رش رہتا ہے۔ سکون یہاں بھی نا پید ہے۔

آئیے اب اس شہر سے دور چلتے ہیں۔ یہاں کچے مکانوں میں لوگ بیٹھے گپ شپ میں مشغول ہیں۔ شدید گرمی ہے۔ بجلی پچھلے چھ گھنٹوں سے بند ہے۔ ایک معروف فلمی گیت ہے،

گوری تیرا گاؤں بڑا پیارا میں تو گیا مارا، آ کے یہاں رے
اس پر روپ تیرا سادا چندرما جیوں آدھا، آدھا جواں رے
جی کرتا ہے مور کے پاؤں میں پائلیا پہنا دوں
کوہو کوہو گاتی کوئلیا کو پھولوں کا گہنا دوں
یہیں گھر اپنا بنانے کو پنچھی کرے دیکھو
تنکے جمع رے، تنکے جمع رے
اس پر روپ تیرا سادا چندرما جیوں آدھا، آدھا جواں رے
گوری تیرا گاؤں بڑا پیارا میں تو گیا مارا، آ کے یہاں

”۔ میں تو گیا مارا، آ کے یہاں“ یہ بات اس فلمی گیت میں شاید اب کے گاؤں کے لیے کہی گئی ہے۔ یہاں شہروں کے طرح ٹھیلے والوں کے سپیکرز کی آوازیں تو دماغ کو بے سکون نہیں کرتیں۔ مگر کبھی کبھار سائیکل سوار آوازیں لگاتا گاؤں میں پھرتا پایا جاتا ہے۔

یہاں ضروریات زندگی کی بیشتر اشیاء ناپید ہیں۔ مگر ایک نکڑ پر مکھیوں کی نگرانی میں سموسے تیار ہو رہے ہیں۔ یہاں چوہدریوں، وڈیروں اور جاگیر داروں کا راج ہوتا ہے جو ادھر کے لوگوں کو اپنی رعایا سمجھ کر ان کی جان، مال اور عزت کا خوب استحصال کیا جاتا ہے۔

یہاں نہ تو پکی سڑکیں ہیں۔ اول تو تعلیمی ادارے ہیں ہی نہیں اور جہاں ہیں وہاں صرف ادارے ہیں تعلیم نہیں۔ ڈسپنسریز و ہیلتھ مراکز بھی عملے کے بغیر ہی ہوتے ہیں۔ مگر نیم حکیم اور عطائی ڈاکٹروں کی ادھر بھرمار ہوتی ہے۔ غرض یہ کہ مصیبتیں بال کھولے چوبیس گھنٹے یہاں تعینات رہتی ہیں۔ خستہ حال سڑکیں، بند نالیاں اور ان میں بیٹھے مچھر ہر آتے جاتے کو لازماً یوں کاٹ رہے ہیں کہ جیسے حکومت نے اس دیہات کے لوگوں کو کورونا ویکسین لگانے کی ذمہ ان کو دے رکھی ہو۔ مچھروں کے باعث بیماریاں یہاں بھی پھوٹ پھوٹ پڑتی ہیں۔ ادھر بھی ایسا لگتا ہے کہ ”سکون صرف قبر میں ہے“ ۔

مگر!
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments